قوم پرستی اور لادینیت کا ٹمٹماتا چراغ

دنیا بھر میں قوم پرستی کا چراغ فرقہ پرستی کے ایندھن سے جلتا ہے ۔ جرمنی میں ہٹلر نے قوم پرستی کے شعلوں کو بھڑکانے کیلئے یہودیوں کو نذر آتش کیا اوریہودی فلسطین میں مقامی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اسرائیلی قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں ۔دورِغلامی میں وطن عزیز کے دانشوروں کواس کا ادراک ناممکن تھا لیکن آزادی کے ۶۹ سال بعد اب آنچ محسوس ہونے لگی ہے۔ اس حقیقت کا ثبوت روزنامہ ٹیلی گراف کے منعقدہ اجلاس میں برکھا دت کا معرکتہ الآراء خطاب ہے جو سوشیل میڈیا پر بجا طور پر چھایا ہوا ہے۔ اس معرفت کی بنیادی وجہ جے این یو کے حالیہ واقعات ہیں جس میں بی جے پی یہ بھول گئی کہ دیش بھکتی کی ہولی سامپردائکتا(فرقہ پرستی) کے بغیرنہیں جل سکتی ۔ فرض کیجئے کہ کنھیاکمار کے بجائے سیدھے عمر خالد پر ہاتھ ڈالا گیا ہوتا اور اس کے بعد پروفیسر ایس اے آر گیلانی کو گرفتار کیا گیا ہوتا تو کیا قوم کا ضمیر اس طرح بیدار ہوتا؟ اس قدر مضامین لکھے جاتے ؟ اس قدر بحث و مباحثہ ہوتا؟ناممکن !

آج کل بہت سارے سیکولر دانشور مسلمانوں کو کنھیا کمار سے سبق سیکھنے کا مشوہ دےرہے ہیں حالانکہ اس موقع پر خود انہیں اپنے گریبان میں جھانک کردیکھنا چاہئے۔ جب کسی مسلم نوجوان کو کنھیا کی مانندغدارِ وطن قراردے کر ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے تو پوری قوم دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک تو وہ مذہبی ہمدردانِ ملت جو دیگر لوگوں کو تعذیب و ابتلاء سے بچانے کی نیت سےفوراً اعلان کردیتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسلام کا ایک امن پسنددین ہے اور ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح ایک تو ملزم کو مجرم تسلیم کرلیا جاتا ہے اور ان کی مدد و استعانت کے بجائے اعلانِ برأت کردیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ امت کے اندر اور باہر سیکولر حضرات کا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جسے اپنے قلم اور زبان سے اسلام کی مخالفت کا نادر موقع مل جاتا ہے۔ یہ حضرات براہِ راست اسلام کے بجائے ملاوں اور مدرسوں کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں اور ان کی آڑ میں عوام کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی دانستہ یا نادانستہ سعی میں لگ جاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان کااپنے غیرمسلم دوستوں کی نگاہ میںمخلص سیکولر ہونا بھی ثابت ہوجاتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ فی زمانہ یہ مسلم وغیر مسلم سیکولر حضرات عمر خالد تو دور پروفیسر گیلانی تک کو بھلا بیٹھے ہیں ایسے میں کسی عام مسلمان کی کیا بساط؟ اس مایوس کن صورتحال کے باوجود جب فلاحی تنظیموں کی سعی جمیل کے نتیجے میں برسوں بعد یہ بے قصور رہا ہوجاتے ہیں تو اس پر بھی سیکولر حضرات خوش ہونے کے بجائےاسے انتظامیہ کے ثبوت جٹا پانے کی ناکامی قراردے کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں(گویایہ لوگ تو دراصل مجرم ہی تھے)۔

اس منفی رویہ کے برعکس ساری ہندو قوم اپنے اختلاف بھلا کرکنھیا کمار کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی ۔ مسلمان بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حمایت میں اترآئے اور اس کے بعد ہی فسطائی حکومت کو جھکنے پر مجبورہونا پڑا۔ اگرکنھیا کمار کےمعاملے میں بھی سیکولر حضرات کا وہی رویہ ہوتا جو مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے بھی جیل سے باہر آنے میں کئی سال لگ جاتے۔عرصۂ دراز کے بعد رہا شدہ کنھیا گمنامی کے تاریک غار میں ڈھکیل دیا جاتا اور وہ اس طرح ہیرو نہیں بن پاتا۔ برکھا دت نے اپنی مذکورہ تقریر میں نیشلزم کے علاوہ سیکولرزم پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں یہ اصطلاح انہیں بہت عزیز تھی لیکن دونوں طرف کی سیاسی جماعتوں نے اس کا اس قدر استحصال کیا کہ اب وہ گالی بن گئی ہے ۔ برکھا کے مطابق سیاسی جماعتوں نے سیکولر اور سیوڈو(نقلی) سیکولر کی بحث کرکے ان کو سیکولرزمسے محروم کردیا ہےاور اب وہ سیکولر کے بجائے پلورل(تکثیری) کی اصطلاح کو ترجیح دینے لگی ہیں ۔ سیکولرزم کی اصطلاح میں اگر اس کی گنجائش ہی موجود نہ ہوتی تو سیاسی جماعتیں اس کا استحصال نہیں کر پاتیں ۔

سیکولرزم چونکہ بنیادی طور لامذہبیت کا دوسرا نام ہے اس لئے پہلے تو کانگریس کو یہ صفائی پیش کرنی پڑی کہ ہمارا سیکولرزم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کی پیروی اورتبلیغ کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک ڈھکوسلہ ہے۔ زندگی کے دیگر شعبہ جات تو درکنار اپنی عائلی زندگی میں بھی جب مسلمان اپنی شریعت پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جس قدر مخالفت ہندو احیاء پرستوں کی جانب سے ہوتی ہے ویسی ہی مخالفت سیکولر حضرات بھی کرتے ہیں ۔ابھی حال میں کیرالہ کے اندر ہائی کورٹ کے جج کمال پاشا نے یہ سوال کیا کہ اگر مسلمان مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے تو عورت چار شوہر کیوں نہیں رکھ سکتی؟ اس سوال کا آسان جواب تو یہ ہےکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس ملک میں ایسے لاکھوں مرد ہیں جن کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ان کا مذہب انہیں ایک سے زائد شادی کی اجازت بھی نہیں دیتا اس کے باوجود دو بیویوں کے شوہر ہیں مثلاً دھرمیندر جس نے اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں ہیما مالنی سے شادی کرلی ۔ اب کیا پاشا صاحب ہیما سے یہ کہنے کی جرأت کرسکیں گے چونکہ ان کے شوہر نے دوسری شادی کرلی اس لئے وہ بھی ۰۰۰۰۔اگر پاشا صاحب نے ایسی حماقت کی تو اس عمر میں بھی دھرم ان کا خون پی جائیگا اور ہیما مالنی وزیر قانون سے کہہ کر انہیں جج سے پیشکار بنوا دیں گی۔

سیکولرزم کے نشے میں چور یہ حواس باختہ دانشور اسلامی شریعت کے خاتمہ کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن ہندو کوڈ بل پر انگشت نمائی کی جرأت نہیں کرتے۔ فسطائی جماعتیں مسلم پرسنل لاء کو کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کی دلجوئی اور ووٹ بنک کی سیاست قرار دیتی ہیں ۔ وہ چار شادیوں اور ۲۵ بچوں کا خوف دلا کر ہندو عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ملک میں پائی جانے والی ساری رواداری کا سرچشمہ سیکولرزم ہی ہے حالانکہ یہ نظریہ تو اپنی جنم بھومی فرانس کےپیرو کاروں کوبھی روادار نہیں بنا سکا ۔ فرانس کے اندر جہاں برہنگی کی کھلی چھوٹ ہے کسی خاتون کو حجاب پہن کر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔ ایسا کرنےکی پاداش میں اسے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ طالبان کو بچیوں کی تعلیم کا دشمن قراردیا جاتا ہے حالانکہ وہ تو صرف مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں فرانس کے اندر اسکارف پہن کر آنے والی طالبات کو سیکولرزم کی بقاء کی خاطرعلم کی دولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ سیکولرزم کے فروغ کی خاطراسکول کینٹین میں ہفتہ میں کچھ روز صرف خنزیر کا گوشت رکھا جاتا ہے۔ اس کے باعث معصوم مسلم طلباء کو فاقہ کشی پر کسی کو رحم نہیں آتا ۔

اس نظریہ نے جب ترکی جیسے مسلم ملک میں قدم جمائے تو وہاں بھی کالج کی طالبات کا اسکارف پہن کر آنا ممنوع قراردے دیا گیا۔ ہندوستان کے قائدین مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلاء ہونے کے باوجود زمینی حقائق سے واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اس ملک میں مسلمان تو کجا ہندووں کے دینی معاملات میں مداخلت بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس لئے سیکولرزم کی ایک نئی تعریف ایجاد کرلی گئی اور کہاگیا کہ ہمارا سیکولرزم وہ نہیں ہے جو مغرب کا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر وہ نہیں ہے تو سیکولرزم ہی کیوں کر ہے ؟ دراصل اس وقت ہمارےرہنماوں کو متبادل اصطلاح نہیں سوجھی لیکن اب برکھا دت نے پلولرزم (یعنی تکثیریت) کی اصطلاح وضع کرکے مسئلہ حل کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود اس پر کب تک قائم رہتی ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اصطلاحات کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے اس لئے کہ ہر اصطلاح اپنے ساتھ ایک خاص نظریہ اور پس منظر لے کرآتی ہے۔

نیشلزم (یعنی قوم پرستی) کی بابت برکھا دت نے کہا کہ سیکولرزم کی طرح اب یہ اصطلاح بھی ہم سے چھینی جارہی ہے۔ ان کے مطابق اب وہ نیشلزم کے بجائے پیٹرائٹزم (حب الوطنی) کے استعمال کو ترجیح دیں گی۔ برکھا دت نے کہا کہ یہ اصطلاح انہوں نےجے این یو کی تحریک سے مستعار لی ہے۔ کنھیا کمار کے بقول قوم پرستی ایک مغربی نظریہ ہے اور ان ممالک میں پروان چڑھا ہے جہاں ایک قوم بستی تھی ۔ ہمارا دستور یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ ملک کئی قوموں کی آماجگاہ ہے ۔ اس لئے یہاں نیشلزم کے معنیٰ کسی ایک قوم کی زبردستی اور دوسری اقوام کی زیر دستی کے ہوں گے ۔ لیکن اگر قوم پرستی کے بجائے حب الوطنی کو بنیاد بنایا جائے تو مختلف قومیں اپنی تمام تر انفرادیت اور باہم اختلاف کے باوجود وطن سے محبت کرسکتی ہیں ۔ ایسے میں قوم پرستی یا دیش بھکتی کا جو پہلو اسلام کے عقیدۂ توحید سے براہِ راست ٹکراتا ہے وہ بھی نمٹ جاتا ہے اس لئے کہ اسلام بھی وطن سے محبت کے فطری جذبہ کو تسلیم کرتا ہے ۔

عصر حاضر میں سیکولرزم اور نیشلزم کے علاوہ آزادی پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ برکھا دت نے کہا کہ دستور پر چلنے کی آزادی کا تحفظ صحیح معنیٰ میں حب الوطنی ہے۔ آزادی ایک تو دستور کے اوراق میں ہے اور دوسرے عمل کی دنیا میں ہے۔ اس فرق کو اگر کوئی مسلمان بتانے کی کوشش کرے تو اسے پاکستان نواز قرار دے کر سرحد پار جانے کا مشورہ دے دیاجائے گا لیکن اس موضوع پر مشہور صحافی نکھل واگلے کی لب کشائی بھی آج کل سوشیل میڈیا میں گونج رہی ہے۔ یہ حضرت بھی برکھا دت کی مانند اچھے خاصے سیکولر ہیں اور سوشلزم کی جانب جھکاو رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں شیوسینا اور بی جے پی پر ان کی تنقید کے سبب ان کا اخبار مہانگر بہت مقبول تھا ۔ آگے چل کر نکھل واگلے نے آئی بی این کے مراٹھی چینل کی کمان سنبھال لی اور قومی سطح پرجگمگانے لگے۔

نکھل واگلے نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا کہ جے این یو میں جوکچھ ابھی ہورہا ہے اس کی ابتداء ؁۲۰۱۱ میں ہوئی جب نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ملک کےسرمایہ داروں نے کیا۔ جن لوگوں کو عوام کی رائے تبدیل کرنی ہوتی ہے ٹی وی چینلس کے مالکان کو خرید لیتے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں رائے عامہ ہموار کراتے ہیں۔ انہوں نے خود اپنی مثال دیتے ہوئے کہا جب تما م ٹی وی چینلس یو پی اے کی حکومت کی بدعنوانیوں کا پہ درپہ پردہ فاش کررہے تھے توہمیں سچا اور پکا دیش بھکت کہا جاتا تھا ۔ اس وقت ہم پر مالکان کے ذریعہ دباو ڈالا جاتا تھا کہ ہم کانگریس کے خلاف تو خبریں نشر کریں لیکن مودی یا بی جے پی کی مخالفت نہ کریں ۔ نکھل کے مطابق ان کے پاس اس کے شاہد ای میل موجود ہیں ۔ یہ سلسلہ رائے دہندگی تک جاری رہا اور جب کام نکل گیا توجون ؁۲۰۱۴ میں ان چینلس سے جنہیں خود انہوں نے اور سردیسائی نے شروع کیا تھا استعفیٰ دے کرنکل جانے پر مجبور کیا گیا ۔ اس لئے نکھل کہتے ہیں حقیقی آزادی دراصل موجودہی نہیں ہے۔ جے این یو کے سانحہ نے تو بس پوری قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا ہے اور اصل جدوجہد اس آزادی کی بحالی ہے۔

برکھا دت اور نکھل واگلے جیسے لوگوں کے خیالات ہمیں نہ صرف حقیقت حال سے واقف کراتے ہیں بلکہ آزادی، سیکولرزم اور نیشلزم جیسی کھوکھلی اصطلاحات کی قلعی کھولتے ہیں۔ جے این یو معاملہ پہلے کیمپس کے چوراہے سے نکل کرسوشیل میڈیا میں آیا ۔ پھرالکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ گھر گھر پہنچا ۔ اس کے بعدانتظامیہ کی مدد سےحکومت اس کو عدالت میں لے آئی جہاں زعفرانی وکیلوں نے اپنی غنڈہ گردی سے اس کوساری دنیا میں پھیلا دیا ۔ عالمی سطح سے لے کر ایوان پارلیمان تک میں اپنی جگ ہنسائی کروالینے کے بعدحکومت نے بالآخرکنھیا کوتو رہا کردیا لیکن اب گفتگو نعروں اور احتجاج کی حدود سے نکل نظریاتی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ فسطائی قوتیں اس محاذ پر ہمیشہمنہ کی کھاتی ہیں اور دلائل کے بجائے گالی گلوچ پر اتر آتی ہیں جس کے نمونے آئے دن ٹی وی چینل کے مباحث میں دیکھے جاسکتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وزیرخزانہ اس غل غپاڑے کو حکومت کی فتح قراردیتے ہیں۔ بحث وگفتگو کا رخ اب افراد واقدام کے بجائے ان نظریات و اصطلاحات کی جانب ازخود مڑ گیا جس کی بنیاد پر یہ ہوائی محل تعمیرکیا گیا تھا ۔ یہ صورتحال ان اسلامی دانشوروں کو ٹھہر کر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ جواس مکڑ جال کے فریب میں گرفتار ہوچکے ہیں اور اسے بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے پر تلے ہوئے ہیں ۔انہیں غور کرنا چاہئے کہ جو شاخ نازک خود اپنے بوجھ سے ٹوٹنے لگی ہے۔ جس کے معتقدین کا ایمان اس پرسےمتزلزل ہورہاہے وہ بھلا ہمارے کس کام آسکے گی ؟

یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک مختلف انداز میں سیکولرزم کی بحث ملک کی سرحد سے نکل کر بنگلہ دیش پہنچ چکی ہے ۔۴۵ سال قبل ؁۱۹۷۱جب بنگلادیش بنا تو اس کے دستو ر نے ریاست کی نظر میں سارے مذاہب کو یکساں بتایا تھا۔ ؁۱۹۸۸ میں فوجی آمر جنرل ارشاد نے دستوری ترمیم کرکے اسلام کو ریاستی دین قرار دے دیا۔ اس وقت ۱۲ شہریوں نے اس ترمیم کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا جسےآگے چل کر موقوف کردیا ۔ اس گروہ کے رہنما شہریار کبیر کے مطابق جب انہیں اندازہ ہوا کہ یہ بنچ ہمارے حق میں فیصلہ نہیں سنائے گی تو وہآگے نہیں بڑھے۔ اب جب یہ قضیہ دوبارہ زندہ ہوا ہےتو بنگلا دیش کے اندر وقوع پذیر ہونے والے حالیہ تشدد کے واقعات کی وجوہات بھی ظاہر ہوگئی ہیں ۔ حکومت کے مطابق بنگلا دیش کے اندر داعش کا کوئی وجود نہیں ہے اس کے باوجود متعدد بم دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ یہ دھماکے نہ صرف مندروں بلکہ مسجدوں پر بھی ہوئے۔ اس میں ہندو اور مسلمانوں عوام کے علاوہ فلاحی اداروں میں کام کرنے والے کارکن اور پولس اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کاشکار ہونے والوں میں جاپانی اور اطالوی سیاح بھی شامل تھے ۔ عدالت میں اب اس تشدد کیلئے ملک کے دستورکا اسلامی ہونا قرار دیا جائیگا حالانکہ داعش جس ملک کے اندر بنی اور پروان چڑھی وہ ملکِ شام نصف صدی سے پکا سیکولر ملک ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر ان دھماکوں کے پس پشت داعش نہیں ہے تو کون ہے؟ کہیں وہ لوگ تو نہیں جو اس مقدمہ کیلئے ماحول سازی کرتے رہے ہیں ؟ یہ سوال سیکولرزم اور نیشلزم کے حامیوں کی اپنے مقاصد کی خاطر اختیار کی جانے والی سفاکی کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔

حسینہ واجد کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اسلام کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولرزم کو دستور میں شامل کرلیا گیا۔ شہریار کبیر کے خیال میں یہ تضاد ہے اور اسے دور کرنے کیلئے انہوں نے ۲۸ سال بعد پھر عدالت سے رجوع کیا ہے۔۲۷ مارچ کو اس مقدمہ کی سماعت ہونی ہے۔ شہر یار کبیر سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تضادتو ہے اور اصلاح کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سیکولر کے دم چھلےّ کو دستور سے خارج کرکے اسے خالص اسلامی بنا دیا جائے۔ سرکاری وکیل رانا داس گپتا کے مطابق عدالت دونوں فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ کرے گی لیکن اس طرح کے مقدمات میں وقت لگتا ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے جس میں کبیر جیسے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور موجودہ بنچ ان کے حق میں فیصلہ کردے گی جبکہ وہ ظالم حکومت جو اپنے سیاسی مفاد کی خاطر قوم پرستی کی بنیاد پر بے قصور اسلام پسندوں کو شہید کررہی ہےدستور کے اندر اسلام کا دفاع کرے گی۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن اگر حسینہ نے اسلام کو دستور سے بھی نکال دیا تو یہ ان کے سیاسی تابوت کی آخری کیل ثابت ہوگا۔

اصطلاحات کو جب تقدس حاصل ہوجاتا ہے تو لوگ اس پر کچھ کہنا تو کجا سوچنا بھی بند کردیتے ہیں لیکن آج کل یہ چیزیں ازخودزیر بحث آنے لگی ہیں ۔ گزشتہ سرمائی سیشن میں راجناتھ سنگھ نے سیکولرزم کو سب سے زیادہ استحصال شدہ لفظ قرار دیا تو اس پر بڑا ہنگامہ ہوگیا اور اسے بجا طور پر سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈے کی جانب پیش رفت قرار دیا گیا لیکن برکھا دت اور نکھل واگلے جیسے لوگوں کے بارے میں تو یہ بات نہیں کہی جاسکتی اس لئے مسلم دانشوروں کو کھلے ذہن کے ساتھ اس پر غوروخوض کرکے اپنے موقف کا جرأتمندانہ اظہار کرنا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ بنگلادیش ہی کی طرح ابتداء میں ہندوستان کے دستور کے اندربھی ڈاکٹر امبیڈکرنے سیکولرزم کو شامل نہیں کیا تھا ۔ ؁۱۹۷۸ میں اندرا گاندھی نے ۴۲ویں ترمیم کے ذریعہ سیکولرزم اور سوشلزم کا اضافہ کیا۔ اندرا جی جنرل ارشاد کی مانند فوجی آمرتو نہیں تھیں مگر ایمرجنسی انہوں نے بھی نافذ کی تھی اور انتخاب میں کامیابی ارشاد کی جاتیہ پارٹی کو بھی ملی تھی۔ ایمرجنسی لگانا ہندوستانیوں کو ناگوار تو گذرا تھا مگر بہت جلد قوم نے اندرا جی کی کو معاف کرکے انہیں دوبارہ زمام اقتدار سونپ دی ۔ اس سے عوام کی نظر میں جمہوریت اور آمریت کی اہمیت کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام نظریات کے گورکھ دھندے میں کم ہی پڑتے ہیں لیکن علماء اور دانشور اپنے مرتبہ اور مقام نیز فرضِ منصبی کےسبب ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1454508 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.