کشمیر......ہر چیز راز کے پردے میں مستور

جنوبی ایشیابالخصوص پاک وہندکے سیاسی حالات پرگہری نظر رکھنے والے کئی دانشوروں کاخیال ہے کہ پٹھانکوٹ ایئربیس حملے کے بعدیقیناًمسئلہ کشمیرپرساری دنیاکی توجہ ایک بارپھر مرکوزہوئی ہے کہ اگران دونوں ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہواتوصرف جنوبی ایشیاہی نہیں بلکہ دنیاکانقشہ تبدیل ہوسکتاہے ۔گزشتہ چھ دہائیوں میں کشمیرکی تاریخ میں متعدداہم موڑآئے،اکثراوقات دانستہ یانادانستہ طورپر ''مہربانوں''کے چندناعاقبت اندیشانہ فیصلوں نے بھی کشمیری عوام کی شبِ سیاہ کو مزید طویل کردیا۔اس طرح ایک واقعہ جولائی۱۹۹۵ء میں جنوبی کشمیرپہلگام کے پہاڑوں سے۵مغربی سیاحوں کااغواء اورگمشدگی ہے جس نے ایک سیاسی تحریک حریت کومغربی دنیاکے کٹہرے میں لاکھڑاکیا۔ دنیاکے اسٹرٹیجک حالات کی وجہ سے اکثرمغربی ممالک تحریک کشمیرکے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے مگریہ واقعہ نہ صرف مغربی ممالک کی اخلاقی وسفارتی ہمدردیاں ختم کرنے کا باعث بنابلکہ رفتہ رفتہ اس واقعے کو بنیادبناکر کشمیرمیں جاری عسکری تحریک کوبین الاقوامی دہشتگردی سے جوڑنے کی بھرپورکوشش کی گئی۔

حال ہی میں مظفرآبادمیں مقیم متحدہ جہادکونسل اورحزب المجاہدین کے سربراہ سیدصلاح الدین نے جس طرح پٹھانکوٹ ائیربیس پرحملے کی ذمہ داری قبول کی ہے،یہ کوئی انتہائی طفلانہ حرکت ہے یاپھرکوئی گہری سازش ،جس کے خاکے میں خونی رنگ بھرنے والے میدانِ عمل میں آگئے ہیں۔تاریخ پرنظر رکھنے والوں کویادہوگاکہ مغربی سیاحوں کے اغواء کے فوری بعددہلی میں مقیم ناروے کے سفیرنے اپنی قیام گاہ پرچندکشمیری صحافیوں اورسیاسی لیڈروں کومدعوکیا تھا۔وہاں امریکی برطانوی اورجرمن سفارت خانوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ حریت کانفرنس کے مقتدرقائدجناب سیدعلی گیلانی بھی ان دنوں دہلی میں موجود تھے جواپنے چندرفقاء کے ہمراہ وہاں تشریف لائے تھے۔ میٹنگ کامقصدپہلگام میں مغوی سیاحوں کی رہائی ممکن بناناتھا۔محترم گیلانی صاحب کے ایک معتمد ساتھی فردوس عاصمی نے سفارت کاروں سے سوال کیاکہ وہ یہ امکان کیوں نظر اندازکررہے ہیں کہ اس واقعے میں بھارتی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہوسکتاہے؟ برطانوی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکرٹری(اسلام آبادمیں موجودبرطانوی سفیر) نے کہا: ''اگرکسی موقع پربھی ان کی تفتیش میں یہ بات سامنے آگئی تووہ بھارت سے بخوبی نمٹ لیں گے مگرفی الحال اغواء کے تارحرکت الانصارکے'' الفاران'' گروپ سے جڑتے ہیں اوراس گروپ پردباؤ ڈالنے کیلئے انہیں کشمیری رہنماؤں اورسول سوسائٹی کی مدددرکارہے مگرچندسال پہلے جب دوبرطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اورکیتھی اسکارٹ کلارک کی کتاب’’دی میڈؤ‘‘ میں اغواء کیے گئے ان پانچ مغربی سیاحو ں کے معاملے سے پردہ اٹھایاگیاتومغربی دنیاکوسانپ سونگھ گیا۔بھارت کے کسی ادارے کوبھی اس کے مندرجات کی تردید کرنے کی جرأت نہیں ہوئی لیکن اس مجرمانہ غفلت کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پاکستانی میڈیا میں کیوں اس کوخاطرخواہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی حالانکہ اس تفتیش سے پاکستان ان سیاحوں کے قتل سے اپنے اداروں کوبری کرواسکتاتھا؟

اغواء کئے گئے سیاحوںمیں سے ناروے کے ہانس کرسٹائن اوسٹرکی سربریدہ لاش ملی توامریکااوربرطانیہ کے سیکورٹی ماہرین سرینگر پہنچ گئے۔جموں و کشمیرکے باہررہنے والوں کویہ خبرتوضرورملی کہ انصارگروپ کاصفایاکر دیا گیاہے لیکن انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ اغواء کئے گئے تمام مغربی سیاحوں کاانجام کیاہوا۔کتاب کے مصنّفین نے بھارتی خفیہ ایجنسی''را''کے دوسابق سربراہوں کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیاکہ اغواء کے اس واقعے کوجان بوجھ کرپاکستان کوعالمی برادری میں میں بدنام کرنے کیلئے استعمال کیاگیا۔ ان مغربی سیاحوں کوبچایاجاسکتاتھا،کیونکہ''را''کے اہلکاراغواء کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں اوراغواء کاروں پرنظررکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصاویربھی لیتے رہے تھے۔جب ایک خاتون کوہ پیما ناروے کے سیاحوں کے اغواء کی اطلاع دینے پربھارتی فوج کے راشٹریہ رائفلزکے کیمپ پہنچی تواسے جبری بے آبروکردیاگیا۔ اغواء کاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع دینے پرمامور جموں و کشمیرپولیس کے مخبرحرکت کی اطلاع دینے پرمامورجموں وکشمیر پولیس کے مخبر''ایجنٹ اے'' کو فوج نے عسکریت پسندکالیبل لگاکرقتل کردیا تاکہ اطلاع کایہ سرچشمہ بندہوجائے۔

دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیادپرلکھاکہ بھارت نے جان بوجھ کر سیاحوں کومرنے کیلئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جاسکے۔اپنی کتاب میں دونوں صحافیوں نے تفتیشی صحافت کے نئے معیارات قائم کئے ہیں، اس میں نہ صرف حرکت الانصارکے معاملے کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیاگیا بلکہ یہ انکشاف بھی کیاگیا ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسزاوران کے ایجنٹوں نے کسی مخصوص حکمت عملی کے ساتھ حرکت الانصارکے ساتھ جنگ بندی کی تاکہ دونوں مل کر علاقے سے حزب المجاہدین کاصفایا کرسکیں۔کتاب میں جنوبی کشمیرکے میرواعظ قاضی نثارکی ہلاکت کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے۔حرکت کے ڈویژنل کمانڈرسکندر(اصلی نام جاوید)ان کامداح تھا۔بھارتی انٹیلی جنس بیوریونے حزب تک یہ اطلاع پہنچائی کہ قاضی صاحب نہ صرف جامع مسجدکے فنڈزکاغلط استعمال کرتے ہیں بلکہ عسکریت کے خلاف حکومت کی درپردہ مددبھی کررہے ہیں تواس اطلاع پربغیر کسی تحقیق حزب کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ کمانڈرابوبکرنے ۱۹۹۴ء میں انہیں قتل کردیا(اب ابوبکربھی اس دنیا میں نہیں رہا) جس کے نتیجے میں جنوبی کشمیرمیں حزب اورحرکت کے درمیان خون کی ہولی کھیلی گئی اورکئی مجاہدین اس کی نذرہو گئے۔

قریباًپانچ سوصفحات پرمشتمل یہ کتاب کسی حیرت انگیز تھرلراور تجسس سے کم نہیں۔مصنفین نے کشمیرمیں سیکورٹی ایجنسیوں کے خطرناک کھیل کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں،بھارتی فوج اور پولیس کی باہمی رقابت کوبھی اجاگرکیاہے ۔انہوں نے لکھاکہ بھارتی حکومت اغواء سے پیداشدہ بحران کوختم کرنے کیلئے اس معاملے کی تفتیش جموں و کشمیرپولیس یااسکاٹ لینڈیارڈیا ایف بی آئی کو دینے پرآمادہ نہیں ہوئی ۔اینڈرین کے بقول بھارت نے یہ واقعہ پاکستان کوبدنام کرنے کیلئے غنیمت سمجھاچنانچہ انڈین انٹیلی جنس اورآرمی میں موجود سخت گیرعناصر بات چیت،کاروائی کرنے، یرغمالیوں کوبچانے کی بجائے اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤکی ہدائت پرسازشی حربے استعمال کرنے میں مصروف ہوگئے جن کا مقصد دنیا کویہ باور کراناتھا کہ پاکستان سرکاری طورپر دہشتگردی کی اعانت کررہاہے۔(اسی نرسمہاراؤکی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بابری مسجدکوشہیدکرکے انتہاپسند سرکاری وغیر سرکاری دہشتگردہندوؤں نے پوری دنیامیں اپنی رسوائی اورروسیاہی کاسامان کیاحتیٰ کہ موجودہ صدرنے برسوں گزرنے کے بعداب اس ''کارنامے''پراعلانیہ معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کی ہے)۔

جب انصارنے مغربی سیاحوں کوچھوڑاتوانٹیلی جنس اورفوج کے حمائت یافتہ تائب جنگجوؤں نے انہیں اپنی تحویل میں لےلیا۔مصنّفین نے یہ بھی انکشاف کیاکہ حرکت الانصار،تائب جنگجوؤں اورآرمی کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھالیکن جونہی مغربی سیاحوں کوآزادبنی کی قیادت والے تائب جنگجوؤں کے حوالے کیا گیا، انصارکے کمانڈرالترکی اوردیگر دوافرادکوایک جال میں پھنساکرگولی مار دی گئی۔بعدازاں حرکت الانصارکے مقامی کمانڈرسکندرکوبھی ماردیاگیا۔پولیس کے مذاکرات کارجہانگیرکابھی یہی حشرہوا، نذیرسمیت دیگر لوگوں کااس واقعے کے ساتھ کوئی لینادینانہیں تھاجواب بھی تہاڑجیل میں بند ہیں۔ان لوگوں پراس وقت تک انسانیت سوزسلوک جاری رکھاگیاجب تک ان بے گناہوں نے اپنی جان بچانے کی خاطریہ تسلیم نہیں کرلیاکہ انہیں پورے واقعے کاعلم تھا۔سابق ڈائریکٹرجنرل پولیس سبھروال اورگورنرکے اخترنے بھی یہ بات تسلیم کی ہے۔

اینڈرسن لیوی کے مطابق دسمبر ۱۹۹۹ء میں انڈین ایئرلائنزکے طیارے۸۱۴ آئی سی سے اغواء کے معاملے میں خفیہ ایجنسی ''را'' کےایک افسرنے اس وقت کے وزیراعظم واجپائی کو دہشتگردوں کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کواڑاینے کامشورہ دیاتھاتاکہ پاکستان کوجی بھرکر بدنام کیا جاسکے۔مصنف کے مطابق انصار کوچھوٹ دیتے رہنے کامشورہ بھی اسی طرح کے ناقابل تصوّر معاملات میں سے ایک ہوسکتاہے،دونوں واقعات میں فرق یہ ہے کہ ۱۹۹۵ء میں انٹیلی جنس سروس نے جومعلومات فراہم کیں،کانگرسی حکومت نے اس پرمن وعن عمل کیادوسری طرف۱۹۹۹ء میں بی جے پی کی قیادت والی واجپائی حکومت اقتدارمیں تھی جس نے انٹیلی جنس کی فراہم کردہ معلومات پر غورکیااورپھراسے مستردکردیا۔اس نے اپنی صوابدیدپر فیصلے کئے جو''را'' اور انٹیلی جنس بیوریوکی خواہشات کے برعکس تھے۔

لیوی اوراسکاٹ کلارک لکھتے ہیں کہ دنیامیں ہرجگہ ایساہوتاہے کہ پولیس کو انٹیلی جنس رپورٹس سے آگاہ کیاجاتاہے لیکن کشمیر میں ہرچیزسیاست سے آلودہ ہے،ہرچیزرازکے پردے میں مستورہے اورہرچیزپر کڑا کنٹرول ہے۔مغربی سیاحوں کی یہ ہولناک داستان توصرف ایک معمولی سی جھلک ہے لیکن تاریخ اس خطے میں اجتماعی قبریں،دارورسن میں ہونے والے انسانیت سوزمظالم، جبری آبروریزی،گھروں کوجلاکر خاکسترکردینا،ہزاروں نوجوانوں کو دہشتگرد قراردیکردن دیہاڑے اغواء کرکےبعدازاں ان کی لاشوں کو پہاڑوں ندی نالوں میں پھینک دینا،ایسی بہت سے کہانیاں،منظرعام پرلانے کیلئے کئی لیوی اوراسکاٹ کلارک جیسے صحافیوں کی منتظرہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.