کھانے کا بل ، تنخواہ کا بل ، سودا سلف
خریدنے کا بل ، اسمبلی میں پاس ہونے والے قانون کا بل ، بجٹ کا بل ، ڈاکٹر
کا بل ، دوا کا بل ، ٹھیکیدار کا بل ، بل بل بل؟؟؟ جد ھر دیکھو بل ، جد ھر
جاؤ بل ہر جگہ ایک بل آپکا منتظر ہوگا۔ بل کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ بل کی
جڑواہ بہن یا بھائی یا سو تن یا پھر رشتہ دار کا نام کمیشن ہے۔ کھانے کے بل
میں ٹیکس کے علاوہ ویٹر کا کمیشن ، سودا سلف خریدنے پردوکاندار کے بل میں
اُسکا اپنا کمیشن ، قانون سازی کے بل میں نامعلوم قوتوں کا کمیشن ڈاکٹر کے
بل میں نرس کا کمیشن ، دواکے بل میں فارمیسی کا کمیشن ، ٹھیکیدار کے بل میں
افسروں ، انجینئروں اور سیاستدانوں کا کمیشن اور بڑے بڑ ے منصوبوں میں
چھوٹے چھوٹے ذہنوں اور گھٹیا سوچ کے حامل خود غرض اور کرپٹ سیاستدانوں اور
حکمرانوں کا کمیشن ہوتا ہے۔ جو مزدوروں ، کسانوں ، محنت کشوں اور تنخواہ
دار طبقوں کی جیبوں سے زبردستی نکالا جاتا ہے۔
اسمبلی میں ہر سال بجٹ کا بل پیش کیا جاتا ہے اور اس بل کی تیاری سے پہلے
مراعات یافتہ طبقہ اپنی مراعات اور لوٹ مار کو قانونی تحفظ دینے اور مزید
مراعات اور سہولیات کے لیے بھاری کمیشن کا پتھر بجٹ بل پر رکھ دیتا ہے اور
بل پیش کرنیوالا انتہائی چالاکی اور حسابی شعبدہ بازی سے کام لیکر عوام
الناس کو فریب دیتا ہے۔
بل ، کمیشن ، فریب ، جھوٹ ، بجٹ ، منی بجٹ ، دغا ، دھوکہ اور شعبدہ ملکر
کرپشن کی راہ ہموا ر کرتے ہیں اور قومی رہنما اور رہبرا سے جمہوریت ، خدمت
، ترقی اور تعمیر کہہ کر اپنے من پسند دانشوروں ، صحافیوں ، سول سوسائٹی کی
نمائندہ پوڈر کریم کی تہوں اور کامدار ساڑھیوں میں لپٹی خواتین اور امپورٹڈ
سوٹوں اور بوٹوں سے مزین بوڑھے مردوں کے ذریعے اس کی تشہیر کر تے ہیں۔
حال ہی میں پنجاب اسمبلی نے حقوق نسواں کے حوالے سے ایک بل پیش کیا اور پاس
بھی کروا لیا ۔ بل پا س ہوا تو حکمر ان جماعت کے مرد وزن ہمراہ این جی او
سے منسلک خواتین اور سول سوسائٹی کی پوڈر پارٹی میڈیا پر نمور دار ہوئے اور
بل کی حمائیت میں کم اور مولو یوں اور مفتیوں پر زیادہ گرجے اور برسے ۔
روشن خیال اینکروں اور اینکر ینوں نے اپنے من پسند مہمانوں کو دعوت مناظرہ
دی اور پھر اُن کی روشن خیالی ، دین بیزاری اور آزاد خیالی کو کھل کر داد
بھی دی ۔ ایک سیاسی خاتون نے ایک عالم دین کو برا بھلا تو کہا مگر ساتھ ہی
خدا کا شکر ادا کیا کہ اُن جیسے مرد اُن کے معاشرے میں کم ہیں ورنہ اُنکا
معاشرہ شدید گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے۔ متحرمہ نے جس معاشرے کی بات کی اُس
کی تشریح نہ ہوئی ۔ اُن کے معاشرے سے مراد پنجاب کا معاشرہ ہے یااُن جیسے
لوگوں کا معاشرہ جس سے جاگیردارانہ ، کارخانہ دارانہ ، سیاستدانہ اور نو
دولتیا معاشرہ لیا جاسکتا ہے۔ اگر مراد جدید کرپٹ اور آزاد خیال معاشرہ ہے
تو سیاسی خاتون نے سچ کہا چونکہ ا یسے معاشرے میں کسی دینی اقدار ،
اخلاقیات یا پھر کسی مولوی ، مفتی یا عالم دین کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اگر
محترمہ کا مطلب پنجاب سے لیا جائے تو عالم دین نے ٹھیک کہا کہ آپ جھوٹ بول
رہی ہیں۔ اگر عالم دین کی بات پر غور کیا جائے تو پنجاب اسلامی ، اخلاقی
اور اعلیٰ روایات کا حامل معاشرہ ہے جس کی بنیاد اولیا ئے کاملین اور
علمائے حق نے رکھی ہے۔ نئے قوانین ، نئے بل اور نئی بحث کے بجائے اگر
حکمران سنجیدہ ہوتے تو وہ سب سے پہلے پولیس کا نظام درست کرتے چونکہ پولیس
ہی معاشرتی برائیوں کی بنیاد ہے۔
اینکروں ، صحافیوں ، این جی او اور سول سوسائٹی کے سو لو فائیٹروں نے بل
اور بل کے بال بچوں کی افادیت تو بیان کی مگر اس بل کے بنیادی فوائد کاذکر
نہ کیا ۔
اس بل کا پہلا فائدہ یہ ہو اکہ حکمران جماعت کی کرپشن اور لوٹ مار سے توجہ
ہٹ گئی اور ایک نئی بحث نے عوام کی توجہ کرپشن اور کمیشن مافیا کے کارناموں
سے ہٹا دی۔ اس بل کا دوسرا فائدہ پولیس کو ہوا جو اب سارے پنجاب میں چن چن
کر ظالم مردوں پر قہر خداوندی بن کر نازل ہوگی اور تھانیدار روزانہ کروڑوں
کمائے گا۔ پولیس والے اور اُن کے ٹاؤٹ تھانوں میں فون کر کے شکایات درج
کروائینگے اور مرد حضرات حسب توفیق رشوت دیکر جان چھڑا ئیگے ۔تمام شادی شدہ
حضرات کو اب جھگڑا ٹیکس بھی جیب میں رکھنا ہوگا ۔ پولیس والے اپنی ہم خیال
عورتوں کو بازاروں میں پھیلا دینگے جو ہر چلتے مسافر پر الزام لگاکر مک مکا
کر کے یا پھر پولیس کو بتا کر اپنا کمیشن وصول کرینگی ۔ لوگ اپنے دشمنوں کو
بھی الزامات لگا کر تھانے کی ہوا لگو ائینگے اور تھانیدار کی خدمت بھی
کروائینگے ۔
اس بل کے بعد حکمران اپنے ووٹروں ، سپوٹروں اور گھریلو نوکروں کو محافظ
نسواں فورس بھی بھرتی کریں گے اور انہیں ایک سے بائیس تک مختلف گریڈ دے کر
قومی خزانے پر چند ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالیں گے ۔ نئی سیکمیں ، نے
منصوبے ، نئے پراجیکٹ ، نئے پراڈکٹ اور نت نئے کارنامے نواز لیگ کا پرانا
وطیرہ ہے۔ قرض اتارو ملک سنوارو، پیلی ٹیکس ، پیلی ویگن ، ڈالر اکاؤنٹ،
سستی روٹی ، لیپ ٹاپ ، دانش سکول جیسے کامیاب منصوبوں کے بعد سولر پارک ،
نندی پور ، میٹرو بس اورینج ٹرین اور نوجوانوں کو آسان قرضے دینے کے بعد اب
مفت علاج اور حقوق نسواں جیسے منصوبے اعلیٰ حکومتی ،سیاسی اور مفاداتی
ذہنوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ تحفظ نسواں فورس کے علاوہ پنجاب بھر میں شلڑہوم
بنائے جائیں گئے جن کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہونگے۔ ان شلٹر ہومز کی
تزئین وآرائش کے علاوہ لنگر خانے ، محافظ اور انتظامی عملہ بھی بھرتی ہوگا
جنہیں خزانے سے ہی تنخواہیں دی جائیگی ۔ اگر یہ عملہ پولیس سے لیا گیا تو
پھر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں آنیوالی عورتوں کا کیا حشر ہوگا۔ اگرکوئی
عورت ایک رات حوالات میں گزارآئے تومعاشرہ اُسے قبول نہیں کرتا۔چہ جائیکہ
کوئی عورت پولیس کی نگرانی میں چلنے والے شلٹر ہوم میں قیام کرآئے ۔ اگر یہ
شلٹر ہوم خالی رہے تو پھر بھی پولیس اسکا مصرف نکال لے گی اور اُسے بُرائی
کا اڈہ بنا کر مال کمائے گی۔
ان فوائد کے علاوہ سب سے بڑا ذاتی فائدہ اور قومی خزانے کو نقصان ان کروڑوں
ڈالروں کا ہوگا جس سے کسی غیر ملکی کمپنی سے یہ ٹریکنگ سسٹم خریداجائیگا ۔
کڑا پہنانا کوئی مذاق نہیں بلکہ یہ ایک جدید اور مہنگا سسٹم ہے جس کے لیے
تربیت یافتہ عملہ ، ٹریکنگ سسٹم اور اس کی دیکھ بھال ضروری امر ہے۔ یہ کڑا
یا رنگ ایسے مجرموں کو پہنایا جاتا ہے جنہیں جیل یا حوالات میں نہیں رکھا
جاتا مگر وہ ایک حد سے باہر بھی نہیں جا سکتے ۔ ان ملزمان کا کورٹ ٹرائیل
جاری رہتا ہے اور عدالتی فیصلے تک وہ شہر کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے ۔
اگر کوئی ملزم ایسا کرے تو پولیس اسے فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ حقوق تحفظ
نسواں کا اس سسٹم سے کوئی تعلق نہیں بنتا چونکہ ملزم کو صرف گھر سے باہر
رکھنا مقصود ہے۔ ٹریکنگ سسٹم سے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ ملزم کو شہر بدر
کیا جائیگا تاکہ وہ گھر نہ آسکے۔ کیااس سے بہترنہیں کہ اُسے جیل میں ڈال
دیا جائے۔ کسی بھی شادی شدہ شخص کو محض گھریلو جھگڑے پر گھر بد ر کرنا
انصاف ،حقوق انسانی اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یورپی ممالک میں
رنگ پہنانے کا مقصد ملزم کو بیروزگاری سے بچانا ہے تاکہ وہ اپنی نوکری یا
کاروبار جاری رکھ سکے ۔ وہ شادی شدہ مجرم جو جیلوں میں ہوتے ہیں ۔ پولیس
پندرہ دن بعد انہیں بھی گھر لاتی ہے اور چند گھنٹوں کے لیے انہیں گھر کے
اند رتنہائی میسر کرتی ہے۔
شادی شدہ عورتیں جن کے بچے ہوتے ہیں انہیں بھی کڑا پہنایا جاتا ہے اور جیل
کے بجائے انہیں گھر میں قید کیا جاتا ہے۔ اُن کی نقل وحرکت مارکیٹ ، چرچ،
ہسپتال ، کلب ،قبرستان اور رشتہ داروں کے گھروں تک محدود ہوتی ہے۔ اگر
حکومت نے یہ سسٹم کسی ملک سے خریدا تو اس پر کروڑوں ڈالر خرچ ہونگے اور
کروڑوں کا کمیشن بھی کمایا جائیگا۔ ہے نافائدے کا بل ؟؟۔
جس میں کمیشن در کمیشن کا بند وبست کرلیا گیا ہے۔ لہذاا س بل کو کمیشن کیسا
تھ ملاکر ہی پڑھا جا ئے اور اس کے فوائدپر بھی لکھا اور بولا جائے۔ یہ
فائدے کا بل ہے۔ نقصان کا نہیں اسے اسلام، روایات اور معاشرے سے الگ معاشی
بل سمجھا جائے چونکہ یہ چندلوگوں کے فائدے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اگر کسی دانشور ،معیشت دان یا نجومی وغیرہ کو اس بل میں مزید فائدے نظر
آئیں تو وہ ـ"ن لیگ" الفائدہ کمیٹی سے رجوع کر سکتا ہے۔اپنا خیال رکھیے اور
بل کے مضر اثرات سے بچیئے گا۔ |