یوسف رضا گیلانی کا سچ پاکستان میں دہشت
گردی کا ذمہ دار بھارت ہے....
دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا اور کوئی بھی زبان بولنے اور کسی بھی
رنگ و نسل کا اور کسی بھی مذہب کا ماننے والا کوئی بھی دانشور کیوں نہ ہو
وہ اقوام ِ عالم کے اہلِ دانش کے ساتھ ضرور اِس ایک نکتے پر پوری طرح سے
متفق اور متحد ہوگا کہ اگر ایک دوسرے پر اعتماد اور یقین مُحکم ہو تو پہاڑ
بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاسکتا ہے اور اِسی اعتماد کے حوالے سے
ایک عالِم کا قول ہے کہ اپنے اُوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے اور
اِسی کے ساتھ ساتھ اقوامِ کُل میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہ انسان اور قوم
جو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتی ہے اِس کا ناکامی کو آخری اور حتمی ماننے
سے انکار کردینا ہی اِس میں اپنے حصول ِ مقصد کے لئے مسلسل جدوجہد کا حوصلہ
پیدا کرتا ہے اور آخر کار اِس کا یہی حوصلہ اِسے کامیابی سے ہمکنار کر دیتا
ہے مگر اِن ساری اچھی اور تعمیری باتوں کے باوجود آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ
کہنا پڑ رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان جو دنیا میں ایٹمی ممالک کا درجہ خاص
رکھتے ہیں اور دوسری طرف اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ممالک ایک
دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں مگر(آج تک دونوں جانب سے سوائے اِس حقیقت کو تسلم
کرنے کے اور کوئی خاص بات کبھی بھی سامنے نہیں آسکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے
پڑوسی ہیں اور بس.... اور دنیا یہ بھی خُوب جانتی ہے کہ اِن دونوں ممالک
میں کبھی سوائے تناؤ کی کیفیت کے اور اچھے پڑوسیوں جیسا کہیں سے کوئی بھی
مثبت اور تعمیری رویہ نظر نہیں آیا) اور اِس سے بھی زیادہ عجیب اور حیرت
انگیز بات تو یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان
پایا جاتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ دنیا کے یہ دونوں(ایٹمی طاقت سے چُور)
پڑوسی ممالک اپنے بہت سے سنگین نوعیت کے کئی ایسے مسائل جن کا حل صرف
مذاکرات ہی سے نکل سکتاہے یہ ماضی میں شروع کئے گئے اپنے کئی مذاکراتی
ادواروں کے باوجود بھی اَب تک اپنا کوئی ایک مسئلہ بھی افہام و تفہیم اور
ٹیبل ٹاک سے حل نہیں کرسکے ہیں۔ جن کے حل ہونے سے دونوں جانب سے جنگی تناؤ
کچھ کم ہوتا اور دونوں ہی جانب کے عوام کو کوئی بہتری کی اُمید نظر آتی اور
دونوں ہی جنگی جنون سے نکل کر اپنے وسائل اپنے عوام کی حالت ِ زندگی درست
کرنے اور اِن کے خوراک، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل کے حل کے جانب
خصوصی توجہ دیتے....مگر مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ شائد بھارت دانستہ طور
پر ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے مذاکرات کے ذریعہ مسائل کا حل نکل
سکے جس کے لئے یہ ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر کے پاک بھارت مذاکراتی
عمل کو بڑی صفائی کے ساتھ سبوتاژ کر جاتا ہے۔
آخر اِس کی کیا وجہ ہے...؟جب یہ سوال بھارتی عوام اپنے حکمرانوں اور حکومتی
ذمہ داران سے پوچھتے ہیں تو بھارت کے تیز و طرار حکمران اور اِن کے اردگرد
منڈلاتے خوشامدیوں کا وہ ٹولہ جو یہ کبھی نہیں چاہتا کہ پاک بھارت تعلقات
افہام و تفہیم سے مذاکرات کے ذریعے حل ہوں وہ اپنے عوام کے اِس پوچھے گئے
سوال کا کو کوئی تسلی بخش جواب دینے کے بجائے ہر بار پاکستان پر اعتماد کے
فقدان کا ٹیکہ گھونپ کر نکل بھاگتا ہے اور بھارتی عوام اِن کا یہ ٹکا سا
جواب سُن کر منہ تکتے اور مرجھا کر رہ جاتے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم منموہن سِنگھ نے اپنی حکومت کے پہلے سال
کی تکمیل پر نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حسبِ روایات
یہ بات ضرور تسلیم کی کہ پاکستان بھارت کا بڑا ہمسایہ ملک ہے اور ہمسائے سے
بہتر تعلقات استوار کئے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے مگر اِس کے ساتھ ہی
اُنہوں نے اِس موقع پر پاک بھارت بہتر تعلقات کے حوالے سے ایک بار پھر وہی
روش اختیار کی جس کی وجہ سے ہر بار پاک بھارت مذاکرات بے نتیجہ رہے اور
بھارت کی جانب روا رکھی گئی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ختم کر دیئے گئے
اُنہوں نے پاکستان پر اِسی قسم کا خاموش الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان
سے تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ میں اعتماد کا فقدان بڑی رکاوٹ ہے اور جب
تک اِس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوسکتی تاہم
اُنہوں نے دوسری جانب کھلم کھلا پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ
تنازعات سے پاک اور ایک پائیدار اور مستحکم تعلقات کے لئے پاکستان پر لازمی
ہے کہ اپنی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائے۔
یعنی دوسری جانب اِن کا یہ خیال ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے ماضی میں
جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں اِس سب کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ملوث تھا
اور اِس کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال کی گئی تھی حالانکہ یہ بات بھارت
بھی خُوب جانتا ہے کہ پاکستان اپنے بھارت جیسے پڑوسی کے لئے جارحانہ عزائم
نہیں رکھتا مگر پھر بھی بھارت کی یہ ضد کیوں ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین
بھارت کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اور بھارتی وزیراعظم منموہن سِنگھ کی اِس
پریس کانفرنس کے بعد یہ بات پوری طرح سے دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے کہ
بھارت نے ہر بار پاکستان پر اعتماد کا فقدان لگا کر مذاکرات کا ستیاناس کیا
اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کو بھارت پر اعتماد نہیں جبکہ
حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے پاکستان نے جب بھی مذاکرات کی میز پر اپنے
نکات رکھے تو بھارت نے ہر بار اِن نکات پر اعتراضات کر کے اِن نکات کے
مقاصد کو پسِ پشت ڈالا دیا اور اِن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
اور اَب ایک بار پھر بھارت اپنی اِس حرکت کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر
خود کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ اِس کی عوام بھی یہ بات اچھی طرح
سے جانتے ہیں کہ بھارتیوں کی خصلت اور فطرت میں یہ شامل ہے کہ بھارتی بات
سے بات نکالنے اور نکتے پہ نکتہ بیٹھانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں کیونکہ
اِس کی مثال اگر دیکھنی ہو تو بھارتی ٹی وی چینلز (اور خاص طور پر اسٹار
پلس)پر چلنے والے وہ بھارتی ڈرامے ہیں جو ہر قسط میں کوئی نہ کوئی نیا موڑ
لے آتے ہیں اور جن کی وجہ سے 10قسطوں کا ڈرامہ 100اقساط پر جا کر ختم ہوتا
ہے جس سے اِس ڈرامے کی افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے یکدم اِسی طرح بھارتی
حکمران بھی پاک بھارت مذاکرات کے دوران وہی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جس
سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے بھارتی حکمران اپنے چینلز پر دکھائے جانے
والے ڈراموں کی طرح پاک بھارت مذاکرات کو طول دے کر کوئی ڈرامہ کر رہے ہیں۔
جبکہ اِدھر بھارتی وزیر اعظم منموہن سِنگھ کے اِس بیان پر پاکستانی دفتر
خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کچھ یوں کہا ہے
کہ اعتماد کا فقدان دور کرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لئے
دونوں ممالک کو اپنے تئیں مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے جس سے دونوں
ممالک کے عوام کے درینہ مسائل حل ہوں گے۔
ابھی جن دنوں پاک بھارت اعتماد کے فقدان کی بات چل ہی رہی تھی کہ اِسی
دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چینی
وزیر دفاع جنرل لیانگ گوانگ لی اور برطانوی رکن پارلیمنٹ چوہدری سرور سے
ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے یہ حق و سچ بھی ساری دنیا کے سامنے عیاں
کردیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھارتی خفیہ ادارے ملوث ہیں
اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِنہیں یقین دلاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ
پاکستان کے پاس اِس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اِس ولولہ انگیز
انکشاف کے بعد اَب اہل ِ پاکستان سمیت ساری دنیا کو بھی یہ حقیقت تسلم کرنی
ہوگی کہ ایک طرف تو بھارت پاکستان میں امریکا، اسرائیل اور افغانستان کی
طرح دہشت گردی کرانے میں اپنا بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اُدھر ہی
پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دے کر اِس پر اعتماد کے فقدان کا لیبل چسپاں کر
کے اُلٹا پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام بھی کر رہا ہے۔
یقیناً اِس منظر اور پس منظر میں اَب دنیا کو یہ بات اچھی طرح سے جان لینی
چاہئے کہ خطے میں دہشت گردی کا مرتکب پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہو رہا ہے
اور بھارتی حکمران اپنی شاطرانہ چالوں اور ہوشیاری سے اپنی اِس سازش پر ایک
بڑے عرصے سے گامزن ہیں جِسے پاکستانی حکمرانوں سمیت ساری دنیا کو بھی
سمجھنی چاہئے۔ اور بھارت کو اِس حرکت سے باز رکھنے کے لئے اِسے لگام دینے
کا کوئی طریقہ نکالنا چاہیے۔ |