ایک استاد نے اپنے بھینگے شاگرد
کو اپنے گھر بھیجا اور کہا کہ گھر کے فلاں طاق میں شیشہ پڑا ہے وہ لے آؤ۔
بھینگے شاگرد کو استاد کے گھر طاق میں اپنے بھینگے پن کی وجہ سے ایک کی
بجائے دو شیشے دکھائی دئیے۔ وہ فوراً پلٹا اور استاد کو آکر ساری حقیقت سنا
دی۔ استاد نے کہا ارے کم بخت! دو شیشے کیسے وہاں تو ایک ہی شیشہ پڑا ہوا ہے۔
شاگرد نے قسم کھاتے ہوئے کہا استاد جی میں نے خود وہاں دو شیشے دیکھے ہیں۔
استاد کہنے لگا، اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر ان دو میں سے ایک کو توڑ دو اور
دوسرا میرے پاس لے آؤ۔ شاگرد دوبارہ استاد کے گھر گیا اور پتھر اٹھا کر زور
سے شیشے پر مارا تو شیشہ چکنا چور ہو گیا۔ اب اسے یہاں کوئی شیشہ نظر نہیں
آرہا تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ شیشے تو دونوں ہی ٹوٹ گئے
ہیں۔ وہیں سے پلٹا اور استاد کے پاس آیا اور کہا کہ استاد جی میری سمجھ میں
یہ بات نہیں آئی کہ شیشہ تو میں نے ایک ہی توڑا مگر دوسرا شیشہ کیسے ٹوٹ
گیا۔ استاد نے کہا اے نالائق ! اس میں تمہاری نظر کا قصور ہے شیشہ تو ایک
ہی تھا لیکن تمہاری ٹیڑھی نظر سے وہ ایک کی بجائے دو دکھائی دے رہے تھے۔
کچھ ایسا ہی نیت کا فتور اور نظر کا قصور امریکہ کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران
میں بھی پایا جاتا ہے۔ امریکہ کے بقول عراق پر حملے کی ضرورت اس لیے محسوس
ہوئی کہ وہاں جراثیمی ہتھیاروں کی موجودگی ظاہر ہوئی اور افغانستان میں
القاعدہ کا ہیڈکوارٹر موجود ہونے کو حملے کی وجہ بتایا گیا لیکن آج اتنے
برس گزر جانے کے بعد نہ ہی اسامہ کو پکڑنے میں کامیابی ملی نہ القاعدہ کی
بیخ کنی ممکن ہوئی۔ جبکہ عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل کرنے کے بعد
معلوم ہوا کہ جراثیمی ہتھیاروں کی اطلاع جھوٹ پر مبنی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ
اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی پاکستان میں
موجودگی کی جھوٹی اطلاعات کا رونا تسلسل کے ساتھ رویا جا رہا ہے۔ اس کی
تازہ مثال امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا حالیہ بیان ہے ”کہ اسامہ بن
لادن اور ملا عمر کے ٹھکانے کے متعلق پاکستان کے حکومتی عہدیداروں کے پاس
معلومات موجود ہیں“۔امریکی عہدیداران کو ایسے بیانات سے قبل سوچنا چاہیے کہ
اس طرح کے جھوٹے الزامات سے نہ صرف باہمی اعتماد کو نقصان پہنچے گا بلکہ
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے بھی یہ ہرگز سودمند نہیں۔
امریکہ2011ء میں افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
جبکہ امریکی فوج کشی کے نو سال گزر جانے کے باجود وہاں کے 72فیصد علاقوں پر
طالبان کا قبضہ برقرارہے۔ جبکہ دوسری جانب بہت ہی قلیل عرصہ میں پاک افواج
نے سوات کے بعد جنوبی وزیرستان کو بھی دہشت گردوں سے مکمل طور پر خالی کرا
لیا ہے کیونکہ پاک فوج کی پوری توجہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور مؤثر سد
باب پر مرکوز ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک امریکہ کا دوست اور
حلیف رہا ہے۔ اس دوستی کی اس نے بارہا قیمت چکائی ہے لیکن اس کے باوجود
امریکہ پاکستان کے کردار سے مطمئین نہیں۔ پاکستان نے ہر لمحہ امریکہ سے
دوستی نبھانے کی کوشش کی لیکن امریکہ نے وقت آنے پر موقع پرستی کا مظاہرہ
کیا۔ ماضی میں جھانکیں تو سانحہ مشرقی پاکستان، کارگل جنگ اور سول نیوکلیئر
معاہدہ کے معاملات میں امریکہ نے بھارت کو ترجیح دی۔ پاکستان نائن الیون کے
بعد سے مسلسل دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان
40 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے جو ماضی میں لڑی جانے والی دونوں
جنگوں(1965-1971) سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ہمارا دیرینہ دشمن ہندوستان پاکستان میں بدامنی کی فضاء قائم کرنے اور اس
کی معیشت کو زوال پذیر کرنے، اسے دہشت گرد اور ناکام ریاست قرار دینے کی
سعی میں مصروف ہے اور امریکہ برابری کی سطح پر اس کا ساتھ دینے میں مصروف
ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے پررونق اور مصروف ترین علاقے ٹائمز اسکوائر میں
بم حملے کی ناکام کوشش میں ناحق ملوث پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد کی
گرفتار ی بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ نائن الیون کے بعد اس طرح کے
کئی واقعات منظر عام پر آئے جس میں یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ
پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ اور یہاں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کی
کاروائیوں کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ، بھارت اور
دیگر ممالک بھی اس طرح کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد یہ
بات سامنے آتی رہی کہ یہ سارے واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصّہ تھے اور
اس میں جان بوجھ کر پاکستان کو ملوث کیا گیا۔ اس طرح کی منصوبہ بندی میں
پاکستان مخالف طاقتوں کے علاوہ بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیاں شریک ہیں
جن کا مقصد پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا اور
اس کے جوہری ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لینا ہے۔
فیصل شہزاد کی گرفتاری اور تحریک طالبان کی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے
سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ٹائمز
اسکوائر کا واقعہ پاکستان کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔ عدالت میں ملزم کا کہنا
تھا کہ یہ اس کا ذاتی منصوبہ تھا، کسی کی معاونت حاصل نہیں تھی اور نہ
پاکستانی طالبان سے روابط کی تصدیق کی جاسکی ہے۔ جبکہ اس معاملے کی ٹائمنگ
پر غور کیا جائے تو ہر خاص و عام پر یہ واضح ہو جائے گا کہ سارے ڈرامے سے
فائدہ کس نے اٹھایا۔ اس معاملے کو اس وقت اچھالا گیا جب ممبئی حملوں کے
حوالے سے بھارتی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا۔ اجمل قصاب کی سزا، حافظ سعید
اور ذکی الرحمان لکھوی کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دینا اور ان کی
بھارت کو حوالگی کے لیے بھارتی حکومت سے کہیں زیادہ امریکہ کا دباؤ ڈالنا،
پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے ہائی لائٹ کرنا اور غیر ذمہ دار ملک ثابت
کرنا اس ڈرامے میں اتفاقیہ نہیں سوچی سمجھی سازش ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کی
طرف سے آئندہ اس طرح کا واقعہ کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی، امریکی
اٹارنی جنرل کا شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کچھ واضح اشارے دے رہا
ہے۔ یہ سارے حالات و واقعات پاکستان کی ترقی اور دہشت گردی کی جنگ کو ناکام
بنانے کی ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں اور پاکستان کی عالمی امن کے قیام کی
جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کو ضائع کرنے اور مستقل دباؤ میں رکھنے کی
کاوشیں ہیں۔
پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک کے
مابین باہمی اعتماد سازی میں اضافہ ہوگا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ہم امریکہ
کے دباؤ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اس نئے شگوفے نے سوچ کے سارے
دریچے بند کر دیے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی کی ہر واردات کی ذمہ
داری پاکستان پر ڈال دی جاتی ہے؟۔ پاک فوج جہاں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے
میں مصروف ہے وہاں حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی بھی کو مزید مؤثر بنانا ہوگا
تاکہ آئندہ اسطرح کے الزامات سے بچا جا سکے۔ |