عشق کے مسافر

جنت کی تلاش اور قربِ الٰہی یقینا کر ہ ارض پر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اولین خوا ہش ہے اِس کے لیے وہ ساری عمر عبا دت ریاضت مجاہدے سخاوت حج زکوۃ عمرے نمازیں نوافل تہجد راتوں کو جاگنا جنگلوں صحراؤں پہاڑوں نمازوں میں لمبی عبادات اور کڑے مجاہدے سے گزرتے ہیں ۔ لیکن اِن کروڑوں انسانوں میں چند ایسے غازی شاہ سوار بھی طلوع ہو تے ہیں کہ وہ صرف ایک قدم اٹھاتے ہیں یا اُن کی زندگی میں صرف ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ اُس ایک قدم یا لمحے میں صدیوں سفر طے ہو جا تا ہے ۔ تا ریخ انسانی کے اوراق پر ایسے خو ش قسمت انسانوں کے نام چاند سورج سے زیادہ چمک رہے ہیں کہ اُنہوں نے صدیوں کا سفر اِس تیزی سے اور کامیابی سے کیا کہ ارباب زہد و تقوی و اصحاب مبر و محراب رشک اور حسرت سے دیکھتے ہی رہ گئے انہوں نے صرف ایک قدم اٹھا یااور گمنامی کی تاریک غاروں سے نکل کر شہرت کے اُس ہمالیہ پر اِس شان سے سوار ہو ئے کہ قیامت تک کے لیے تا ریخ کے ماتھے پر جھو مر بن کر چمک رہے ہیں خوش قسمت ہو تے ہیں ایسے غازی شہید جن کو رب ذولجلال قیامت تک کے لیے لا زوال شہرت عطا کر دیتا ہے ۔چشم فلک اور اہل دنیا یہ منظر بار بار دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی کسی گستاخ ِ رسول ﷺ نے پیارے آقا ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو کوئی غازی مرد اٹھا اُس کو جہنم واصل کیا اور ہمیشہ کے لیے تا ریخ میں امر ہو گیا ۔ ایسا ہی واقع شہر لا ہور میں 1927ء میں پیش آیا جب راج پا ل جہنمی نے سرور کا ئنات کی شان میں گستاخی کر تے ہو ئے کتا ب لکھی پو را بر صغیر پاک و ہند سرا پا احتجاج بنا ہوا تھا عاشقان رسول ﷺ خون اور درد کے آنسوؤں میں ڈوبے ہو ئے تھے مسلمانوں میں سخت غیظ و غضب پا یا جا تا تھا اِن حا لا ت میں اندرون یکی دروازہ لاہور کا ایک کشمیری نوجوان غازی خدا بخش اٹھا آپ پیشہ کے لحاظ سے شیر فروش تھے اور جلد سازی کا کام بھی کر تے تھے ملعون راجپال نے جب سے کتاب لکھی تھی مسلمان سرا پا احتجاج بنے ہو ئے تھے اِس غازی نوجوان نے ناموس رسالت ﷺ پر تقریر سنی تو پتہ چلا کہ کسی نے پیارے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کر نے کی کو شش کی ہے نوجوان تقریر سن کر تڑپ اُٹھا اور پھر 24ستمبر 1927کے دن خدا بخش ملعون راجپال کی دوکان پر گیا جہاں وہ جہنمی بیٹھاتھا غا زی خدا بخش نے تیز دھار چاقو سے راجپال پر حملہ کر دیا راجپال زخمی ہو کر بھاگ نکلا اِس طرح وہ قتل ہو نے سے بچ گیا ۔ پو لیس نے غازی خدا بخش کو گر فتار کر لیا عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہو ئی تو غازی خدا بخش نے وکیل صفائی مقرر کر نے سے صاف انکار کر دیا ۔ عدالت میں ملعون راجپال نے کہا کہ مجھے خدا بخش سے جان کا خطرہ ہے اِس نے میرے اوپر حملہ کر تے ہو ئے کہا تھا کہ میں تم کو جان سے مار دوں گا ۔ اِس پر جج نے خدا بخش سے پو چھا تو عشق رسول ﷺ کی عقیدت و محبت سے سرشار گرج دار آواز خدا بخش بو لے میں مسلمان ہوں اِس لیے ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ میرا فرض ہے میں اپنے پیارے آقا ﷺ کی شان میں گستاخی بر داشت نہیں کر سکتا راجپال ملعون نے میرے پیارے آقا نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے اِ س لیے میں نے اِس کو مارنے کے لیے اِ س پر قا تلانہ حملہ کیا لیکن یہ جہنمی میرے ہاتھوں سے بچ نکلا ۔ اقرار ِ جرم کی وجہ سے غازی خدا بخش کو سات سا ل کی قید سزا سنا ئی گئی لیکن غا زی خدا بخش ہمیشہ کے لیے عاشقانِ رسول ﷺ کی فہرست میں شامل ہو گیا ۔ کیونکہ جہنمی راجپال ابھی تک زندہ تھا ۔ بر صغیر پا ک و ہند کے مسلمان شدید اضطراب اور درد میں مبتلا تھے عشق ِ رسول ﷺ کا یہ درد افغانستان بھی جا پہنچا پو را افغانستان بھی سراپا احتجاج بن گیا یہاں پر غا زی عبدالعزیز نا می شخص تجا رت کر تا تھا جب اُس نے راجپال کے با رے سنا تو لرز اٹھا جسم آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگا بے قراری اِس حد تک بڑھی کہ فوراً افغانستان سے لا ہور کی طرف چل پڑا پھر یہ غا زی مرد 19اکتوبر کو لاہور پہنچا تو پردیسی ہو نے کی وجہ سے اہل لا ہو ر سے راجپال کے بارے میں پو چھا پھر لو گوں کے بتائے ہو ئے پتہ پر راجپال ملعون کے مکان پر دستک دی جب پتہ چلا کہ وہ گھر پر نہیں ہے تو اُس کی دوکان کی طرف چل پڑا ۔ غازی عبدالعزیز جب راجپال کی دوکان پر پہنچا تو دو ہندوں کو آپس میں با تیں کر تے ہو ئے دیکھا غازی عبدالعزیز راجپال کی شکل سے نہیں پہنچانتا تھا ۔دوکان پر راجپال کا دوست سوامی سیتا نند ایک دوسرے ہندو کے ساتھ بیٹھا با تیں کر رہا تھا دونوں سرور دو جہاں ﷺ اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ۔دو ران گفتگو جب سوامی سیتا نند نے سرور دو عالم ﷺ کی شان میں نا زیبا الفاظ کہے تو پٹھان غازی سے برداشت نہ ہوا اُن کو روکا لیکن جب وہ روکنے پر بھی باز نہ آیا تو غازی نے سمجھا یہی وہ ملعون راجپا ل ہے جس نے محبوب خدا سرتا ج الانبیاء ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے برداشت کا پیما نہ چھلک پڑا چاقو نکالا اور دونوں پر حملہ کر دیا دونوں کو زخمی کر دیا پو لیس نے غازی عبدالعزیز کو گرفتار کر لیا غازی نے شان سے اقرار جر م کیا عدالت نے غازی عبدالعزیز کو بھی سات سال قید سنائی تین ماہ قید تنہائی کی سزا سنا ئی سزا کا حکم سننے کے بعد بھی غازی کے چہرے پر اطمینان اور ہو نٹوں پر درود و سلام کے پھول کھلے ہو ئے تھے گستاخ ِ رسول ﷺ راجپال دوبار قاتلا نہ حملوں میں بچ گیا تھا اُس کا زندہ رہنا مسلمانان ہند کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا با عث تھا پو را بر صغیر سراپا احتجاج بنا ہوا تھا ۔ راجپال دوبار تو بچ گیا تھا لیکن قدرت نے جس شخص کو دائمی شہرت اور شان سے نوازنا تھا اُس کو گمنا می کے پردوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا یہ عظیم سعادت اور شہرت قدرت نے غازی علم الدین کے نام کو عطا کر دی تھی۔ جس نے تاریخ کے اوراق پر قیا مت تک کے لیے شہید عشق ِ رسول ﷺ کا لا زوال رتبہ حاصل کر نا تھا ۔علم دین ایک ترکھان کا بیٹا تھا جب اُس نے سنا کہ را جپال ملعون نے سرور دو عالم ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے تو اندر تک کٹ کے رہ گیا دول و دماغ میں عشق ِ رسول ﷺ کی چنگا ری اب بھا نبھڑ کا روپ دھار گئی عشق ِ رسول ﷺ کا سمندر پھوٹ پڑا بازار سے چھری خریدی اُس کو خو ب تیز کیا اور پھر مالک بے نیاز کے حضور دعا کے لیے ہا تھ اٹھا ئے اور دعا کی اے مالک بے نیاز ملعون راجپال کا وجود اب میرے لیے نا قابل برداشت ہو گیا ہے اے مالک میری مدد فرما اور پھر تا ریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو نے کے لیے راجپال کی دکان کی طرف چل پڑا ۔ غازی علم الدین جا نتا تھا کہ راجپال دو بار بچ چکا ہے راجپال دکان پر بیٹھا تھا اُس کا منحوس چہرہ دیکھتے ہی غازی علم الدین کے جسم و جان میں آگ جل اٹھی ۔ بپھرے ہو ئے شیر کی طرح بھرے بازار میں راجپال پر حملہ کر دیا ۔ پے در پے بہت زیادہ وار کر کے اُس کو جہنم واصل کر دیا اچھی طرح تسلی کر لی کہ بچ تو نہیں گیا اور پھر خو د ہی تھا نے جا کر گرفتاری دے دی مقدمہ چلا تو وکیلوں نے مشورہ دیا کہ قتل سے انکار کر دے لیکن عاشق ِ رسول ﷺ کی محبت نے گوارا نہ کیا شان ِ سے اعتراف ِ قتل کیا اور کہا میری ہزاروں جا نیں بھی ہو ں تو نا موسِ رسالت ﷺ پر قربان کر دوں جج نے پھا نسی کی سزا سنا ئی تو سرشاری اور محبت سے جھوم اٹھا شدت سے پھا نسی کے دن انتظار کر نے لگا اور پھر مستانہ وار تختہ دار پر جھول گیا ۔ غازی علم الدین کو 31اکتوبر 1929ء تعزیزِ جرم عشق میں پھا نسی دی گئی غازی آج قبرستان میانی صاحب میں پیوند خاک ہے اِس خا ک کا ہر ذرہ سر مہ چشم عشاق ہے لو گ زندہ اور لا فانی ہو نے کے سو سو جتن کر تے ہیں یہ راز غازی علم الدین اور غازی ممتاز قادری سے پو چھیں کہ فنا کے گھاٹ اُتر کر لا فانی کس طرح ہو تے ہیں دنیا والے کیا جا نیں جب اِن غازیوں شہیدوں کی روحیں آسمانوں کے زینے طے کر تے ہوئے عرشِ الہی تک پہنچی ہو نگی تو جنت کے جھروکوں سے کون کون سی ہستیوں نے اِن کا والہانہ استقبال کیا ہوگا ۔ اور جنت کے مرغزاروں کے سدا بہار پھولوں کی پتیوں سے اِ ن کا استقبال کیا ہو گا ۔ اور نورانی پروں والے ملائکہ کے جلو میں دربار رسالت ﷺ میں سرورِ دو جہاں ﷺ کی قدم بو سی کا اعزاز ملا ہو گا ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 658232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.