تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ، خادم اعلیٰ کا انقلابی اقدام

تقریباً 9 ماہ پنجاب اسمبلی کے زیرِ غور رہنے والا تشّدد کے خلاف تحفظِ نسواں کا بل جوں ہی قانون بنا تو ملک بھر میں ایک پُر احتجاج بازگشت سُنائی دی۔علماء کرام کی طرف سے اِس ایکٹ کو غیر ضروری طور پر اہمیت دی گئی جس کا نتیجہ صرف یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ روز حکمران جماعت اپنی پسپائی کا ایک تأثر دینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ چند روز بعدجب دُھول بیٹھ چکی ہوگی اور سماعت کو ناگوار گزرنے والا شور ختم ہوچکا ہوگا تو ناقابلِ عمل قوانین کی فہرست ایک اور کے اضافے کے ساتھ طویل تر ہوچکی ہوگی۔

اِس قانون سازی پر بہت کچھ کہا گیا اور اِس فقیر کی رائے میں زیادہ تر غلط ہی کہا گیا۔ مولانا فضل الرّحمٰن‘ جو وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد اب مطمئن ہیں کہ مملکت خداداد میں اسلامائزیشن کا عمل شروع ہی چاہتا ہے، نے طنزاََ خاوندوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ پدر سری معاشرہ ہے اور سارا نظام مرد کے زیرِ اثر ہے۔ ہم نے سورۃ البقرہ کی آیت 228 بھی پڑھ رکھی ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے اور ظلم یہ کہ اِس کی تفسیرو تعبیر بھی ہم اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کرتے ہیں۔ اور پھر قرآن پڑھتے پڑھتے جب ہم سورۃ النساء کی آیت 19 پر پہنچتے ہیں تو ہماری آنکھیں موند جاتی ہیں کہ اس میں حُکمِ الٰہی یوں ہے کہ ـ’’ اپنی عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے رہو اور اگر وہ تمھیں ناپسند بھی ہوں تو عجب نہیں کہ تمھیں ایک چیز ناپسند ہو اور اﷲ اُس میں بہت ہی برکت ڈال دے‘‘۔سورۃ النساء کی ہی آیت 32 میں یہ درس نظر آتا ہے کہ اﷲ کے ہاں مرد و عورت برابر ہیں اور نجات و مغفرت اور قُربِ حق کا مدار اپنے اعمالِ اختیاری پر ہے۔ یہ ہر گز نہیں کہ مرد کا اجر مرد ہونے کی بنا ء پر کچھ بڑھ جائے اور عورت کا اجر عورت ہونے کی بناء پر کچھ کم ہوجائے۔ مرد بحیثیت مرد اﷲ کے ہاں مقرب تر اور نجات کے لیے مستحق تر نہیں ہے۔سورۃ النحل کی آیت 97 بھی مرد وزن کے مساویانہ حقوق پر دال ہے جو کہتی ہے کہ ’’جس نے کیا نیک کام‘ مردہویا عورت، اور وہ ہو ایمان پر ، تو پھر ہم اُسے ضرور ایک اچھی زندگی دیں گیـ‘‘۔

رسولِ رحمت ﷺ نے عورت کو کس مرتبہ پر فائز کیا ہے، اِس کا اندازہ اِس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ازواجِ مطہرات سفر پرتھیں۔ ساربان اونٹوں کو تیز ہانکنے لگے ۔آپؐ نے فرمایا ــ’’دیکھنا آبگینے ٹوٹنے نہ پائیں‘‘۔ہم خود کو اسی رحمۃ للعالمین نبی ﷺ کے عشاق گردانتے ہیں اور عورتوں کی پٹائی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔کوئی پوچھے تو سُنتِ نبوی سے اِس حق کے استعمال کی کتنی مثالیں ملتی ہیں؟

وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے کہ یہ قانون خلافِ اسلام ہے اور اس میں ایکٹ کے سیکشن 7 (d-e) پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ وہ شق ہے جس میں جی پی ایس ٹریکر کا ذکر ہے۔ یہ ٹریکر کس لیے ہے ، قارئین اصل عبارت کا مطالعہ فرمالیں: " For any act of grave violence or likely grave violence which may endanger the life , dignity or reputation of the aggrieved person".
غور فرمایئے جو کسی کی زندگی ، عزت و عصمت یا شہرت کا جنازہ نکالنے کا باعث بنتا ہے ، اُس کے لیے کڑا تو ناکافی ہے، پھندا ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا شیرانی اور کچھ دیگر علماء نے تو یہاں تک فرما دیا کہ یہ قانون غداری کے مترادف ہے۔ راقم بھی دیگر اہلِ وطن کی طرح یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اِس سے پہلے جو میگناکارٹا ترتیب دیے ہیں وہ کیا ہوئے؟ وہ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت پنجاب اسمبلی کی بازپرس ہونی چاہیے۔آرٹیکل 6 کا تعلق High Treason کے جرم سے ہے۔ ملاحظہ فرمایئے :
ترجمہــ’’ کوئی بھی شخص جو بزورِ قوت ، بہ مظاہرہ قوّت یا کسی دیگر غیر آئینی طریقے سے آئین کی تنسیخ کرتا ہے یا ایسی کسی کوشش یا سازش میں ملوث پایا جاتا ہے تو ایسا شخص شدید غداری کا مرتکب شمار ہوگاــ‘‘۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور پنجاب اسمبلی نے غداری بلکہ شدید غداری کہاں کی ہے؟ الزام دہندہ فرماتے ہیں کہ اُنھوں نے ایک آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو نظرا نداز کیا ہے ۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ٗ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 228 کے تحت معرضِ وجود میں آئی ہے لیکن آئینِ پاکستان میں یہ کہیں نہیں لکھا گیا کہ کونسل کو بھیجے بغیر اور اُن کی رائے لیے بغیر قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اسے آئین شکنی قرار دیا جائے گا۔ تو پھر آئین اِس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟ قارئین کی دلچسپی کیلیے آرٹیکل 229 کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے :
ترجمہ ــ’’ اگر کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی کے 2/5 ارکان چاہیں گے تو ایوان یا اسمبلی کسی سوال کو کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے اُس کے پاس بھیج سکیں گے کہ کیا مسودہ قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہے یا نہیں ہیـ‘‘۔

آئینِ پاکستان کے اس آرٹیکل میں ’’ 2 /5 ارکان چاہیں گے ــ‘‘ کے الفاظ دوبارہ پڑھ لینے چاہییں کہ مذکورہ قانون سازی میں لاقانونیت اور آئین شکنی کہاں در آئی ہے؟ تو قارئین ! یہ ہیں وہ حقائق جنھیں توڑ مروڑ کر پیش کیا جار ہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت پنجاب کی طرف سے ایک کمیٹی کی تشکیل ‘ اور وزیر اعلیٰ کا یہ فیصلہ کرنا کہ اپوزیشن اور علمائے کرام کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور قانون کی جامعیت کے لیے آراء اور تجاویز کا خیر مقدم کیا جائے گا، درست سمت کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی پسپائی نہیں ، پیش قدمی تصور کی جائے گی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ مذہبی جماعتیں، سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ سلمان صوفی اور دیگر ذمہ داران اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں اور حقوقِ نسواں کے علمبردار ادارے اور نمائندہ خواتین بھی مناسب اور معمولی ترامیم کو خوش دلی سے قبول کرلیں۔
Asghar Ali Javed
About the Author: Asghar Ali Javed Read More Articles by Asghar Ali Javed: 19 Articles with 22697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.