جدیداور ترقی یافتہ پاکستان!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے
ملک کو جدید اور ترقی یافتہ بنانے کی ترکیب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’
خواتین کو نظر انداز کر کے جدید اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتے․․․‘‘۔آئی
ٹی کے زمانے میں جبکہ دنیا ایک کلک پر سامنے آجاتی ہے، ہم ملک کو جدید اور
ترقی یافتہ بنانے کے فارمولے تلاش کر رہے ہیں، دانشور، اپوزیشن یا عوام
وغیرہ جو بھی سوچیں وہ اپنی جگہ مگر دراصل وہی سوچ کام دیتی ہے، جو خود
حکمران سوچتے ہیں، وہ زیادہ مشاورت کے قائل بھی نہیں، جو بات ان کے ذہن میں
سما جائے وہ عمل کرنے کی ہر قیمت کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیگر
لوگ مخالفت کرتے رہ جاتے ہیں اور حکمران عمل کر گزرتے ہیں۔ ویسے جن لوگوں
کی حکومت ہوتی ہے، اگر وہ بھی اپنی مرضی نہ کرسکیں تو حکومت کا کیا فائدہ؟
موجودہ حکومت چونکہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی علمبردار ہے، جس کے لئے
حکومت کی سب سے زیادہ توجہ سڑکیں بنانے، بسیں اور ٹرینیں چلانے پر ہے۔ اسی
کو ترقی اور اسی کو جدت قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم اب پنجاب حکومت نے خواتین
کو مزید بااختیار بنانے اور ’محفوظ‘ رکھنے کے لئے قانون سازی کی تو ایک
ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ جس کے لئے تمام مذہبی جماعتوں نے اس قانون کو واپس
لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں مولانا فضل الرحمن نے
وزیراعظم سے ملاقات کی تھی، اور حکومت نے اس میں ترمیم وغیرہ کا وعدہ بھی
کیا ہے، مگر معاملہ کسی فیصلے کامنتظر ہے۔
میاں نواز شریف کا تازہ بیان پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے بل اور اس پر
مولانا فضل الرحمن کی ان سے ملاقات کے تناظر میں ہی محسوس ہوتا ہے۔ خواتین
کو برابری کی سطح پر لانا حکومت کا خواب ہے، جس کے لئے اسمبلیوں سے لے کر
ملازمت کے مواقع تک خواتین کے کوٹے مقرر کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے خواتین
کو بااختیار بنانے کے لئے قائداعظم کا حوالہ بھی دیا ہے۔ تحریک پاکستان ہو
یا قیامِ پاکستان خواتین کا کردار ہمیشہ نمایاں اور واضح رہا ہے۔ خواتین نے
مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اور پاکستان کا حصول ممکن ہوسکا۔ قیام پاکستان
کے بعد بھی خواتین کا کردار بہت نمایاں ہے، ایک طرف محترمہ فاطمہ جناح نے
پاکستان کی صدارت کے لئے الیکشن لڑا تو دوسری طرف بے نظیر بھٹو دو مرتبہ
پاکستان کی وزیرا عظم بھی رہیں، یوں یہ کہنا بالکل بے جا ہے کہ پاکستان میں
خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بہت سے حلقوں سے خواتین باقاعدہ الیکشن
لڑ کر منتخب ہوتی ہیں، اور وزارتوں کے قلمدان سنبھالتی ہیں۔ سابق دور میں
قومی اسمبلی کی سپیکر بھی ایک خاتون تھیں۔ پاکستان سٹیٹ بینک کی گورنر بھی
خاتون رہ چکی ہیں، دیگر بہت سے اداروں او رمحکموں میں خواتین اہم فرائض
سرانجام دے رہی ہیں۔ اب سابق حکومت سے کوٹہ سسٹم میں اضافہ ہونے پر بہت سی
خواتین اسمبلیوں میں بھی پہنچ رہی ہیں، اور سرکاری اور نجی کاروباری اداروں
میں بھی خواتین کی تعداد قابلِ ذکر ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود یہ کہنا بھی حقیقت پسندی نہیں کہ ہم خواتین کو نظر
انداز کرکے جدید اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتے، جس ملک کی وزیراعظم یا
سپیکر اسمبلی خاتون رہی ہو، وہاں خواتین کو نظرانداز کرنے کی بات درست
نہیں، ویسے یہ بات بھی درست نہیں کہ صرف خواتین کو ترقی یافتہ بنا کر ہی
ملک ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے حکمران چونکہ مغرب کو دیکھتے ہیں کہ وہاں
عورت اور مرد تمام معاملات اور معمولاتِ زندگی میں برابر ہیں، آزادہیں، خود
مختار ہیں، شاید یہی ترقی کا راز ہے، مگر اسی آزادی اور خود مختاری کا
نتیجہ ہے کہ وہاں خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے، وہاں رشتوں کا تقدس اور
پہچان کا وجود نہیں، وہاں میاں گرل فرینڈ اور بیوی بوائے فرینڈ رکھنے میں
آزاد ہیں۔ صرف اسی آزادی کو ترقی کہنا ہے تو الگ بات ہے، اگر حقیقی ترقی کا
اندازہ لگانا ہے تو وہاں کے حکمرانوں اور لوگوں کی دیانتداری کا خیال بھی
کریں، ان کی ایمانداری اور محنت کا اندازہ بھی لگائیں، صفائی نصف ایمان کا
ہمیں بھی حکم ہے، مگر اپنے ہاں کیا عالم ہے؟ اخلاقیات بھی وہاں سے سیکھیں،
تعلیم، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی عوام تک رسائی کا خیال بھی کریں۔ریاست کی
ذمہ داریوں کے بارے میں سوچیں، سادگی اور بچت کا بھی کچھ حساب رکھیں، کرپشن
کے خاتمے کے بارے میں بھی کوئی اندازہ لگائیں۔ پروٹوکول کا موازنہ کریں،
سرکاری سطح پر عیاشیوں اور مراعات کا بھی تناسب رکھیں۔ ہم نے ان سے کچھ
نہیں سیکھا، اگر سیکھا ہے تو صرف یہ کہ خواتین کو آزادی دلائیں گے، باہر
لائیں گے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے۔ |
|