ووہولڈنگ ٹیکس کے خلاف تاجر برادری متحد
(Muhammad Imran ul haq, Lahore)
حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت ملکی
معیشت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ووہولڈنگ ٹیکس کے خلاف پاکستان بھر کی تاجر
برادری سراپااحتجاج ہے مگر تاحال حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگی۔گزشتہ روزودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف ملک گیر ہڑتال سے ملکی معیشت کو30ارب
روپے کانقصان ہوا۔لاہورسمیت پشاور،کوئٹہ،فیصل
آباد،سکھر،قصور،ساہیوال،ملتان،راولپنڈی ودیگر شہروں میں معیشت کاپہیہ جام
رہا۔صرف کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے4ارب روپے سے زائد کانقصان ہوا۔ ملک
میں ایک طرف مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ ہوچکا ہے جبکہ دوسری جانب بدترین
لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسرپوری کردی ہے۔مہنگائی،بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کے
ستائے ہوئے عوام کوحکومت ریلیف فراہم کرنے کی بجائے نئے ٹیکس لگاکر ان کے
مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ پاکستان کی معیشت آج زبوں حالی کاشکار ہے۔جی ایس
پی پلس کادرجہ ان ممالک کوملتا ہے جوغربت کاشکار ہوں۔ جی ایس پی پلس کادرجہ
ملنے کے باوجود ملکی ایکسپورٹ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔جی ایس پی
پلس سے91مصنوعات کوفائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن حکومتی نااہلی کی وجہ سے ملکی
صنعت کاروں کومعاہدے کی تفصیلات کابھی علم نہیں۔ملکی تاجر28ممالک میں بغیر
ڈیوٹی کے برآمدکرسکتے ہیں۔جب تک ہم اپنے سرمایہ داروں،صنعت کاروں کوسہولیات
فراہم نہیں کریں گے ان پر عائد ٹیکسوں کابوجھ کم نہیں کریں گے تب تک اہداف
حاصل نہیں ہوسکتے۔ موجودہ حکومت اپنے دوسال مکمل کرچکی ہے مگر عوام سے کئے
گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔معاشی بدحالی کے باعث لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور
ہوچکے ہیں۔امیر پہلے سے زیادہ امیر اور غریب غریب ترہوتاجارہا ہے۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ حکومت ملکی معیشت کوسنبھالادینے کے لئے اہل لوگوں کی خدمات لے
اور سنجیدگی سے اقدامات کرے۔
معاشی خوشحالی کا دعویٰ کرنے والے اپنی واضح سمت کو متعین کرنے میں بری طرح
ناکام ہوچکے ہیں۔ریلیف عوام سے کوسوں دور ہے۔ریلوے،پی آئی اے،اسٹیل مل ،ایف
بی آر اور دیگر سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن ملکی معیشت کو دن بدن
کمزورکررہی ہے۔ ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں15سے35فیصدتک
اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر حکمران اپنے اللے تللے ختم،بیرون ملک بنکوں میں پڑی
رقم واپس اور ٹیکس سسٹم کو ٹھیک کرلیں توہمیں کشکول لے کر دنیا کے چکر
لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ملک چلانے کی ناکام
کوشش کی جارہی ہے ۔قرضے لے کر قرضوں پر لگنے والے سود کی ادائیگی کی جارہی
ہے۔آئی ایم ایف نے نومبر1980ء سے اکتوبر2008تک28برسوں میں پاکستان کو
صرف6ارب ڈالر کے قرضے دیے جبکہ نومبر2008سے ستمبر2013کے پانچ برسوں میں
پاکستان کے لئے تقریباً18ارب ڈالر کے قرضوں کی منظوری دی۔سودی نظام نے ملکی
معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا۔ عوام پہلے ہی بدحال ہیں رہی سہی کسر موجودہ
حکومت کے اقدامات نے نکال دی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کو جھولیاں بھر بھر کو ووٹ
دینے والے اس کی کارکردگی سے شدید مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔11مئی کے انتخابات
کے بعد یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ صرف چہرے بدلے نظام میں کسی قسم کی کوئی
تبدیلی نہیں آئی۔کرپشن کا ناسورمعاشرے کی جڑوں کومضبوطی سے جکڑے ہوئے
ہے۔ایک طرف روزانہ12ارب روپے کی کرپشن ملکی معیشت کے لئے تباہی کررہی ہے
جبکہ دوسری جانب کمیشن مافیا سرگرم ہے۔لوگوں کو اپنے جائز کام کروانے کے
لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔خودکشیوں کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ
ہوگیاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ایسی پالیسیاں مرتب کریں جس کا فائدہ
عام لوگوں تک پہنچ سکے۔دکھاوے کے اقدامات سے گریز کیا جائے اور عملاً کام
کرکے دکھایا جائے۔ انتہائی افسوس کامقام ہے کہ قانون سازی کرنے اور ریاست
کو چلانے والے ادارے بجلی کا بل ادانہیں کرتے جس کاخمیازہ متوسط اور غریب
طبقہ کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ ایوان صدر،وزیراعظم سیکرٹریٹ،وزارت پانی
وبجلی،نادرا،الیکشن کمیشن،سی ڈی اے،موٹروے پولیس، فضائیہ اوربحریہ سمیت
سینکڑوں سرکاری محکمے نادہندہ ہیں۔ ملک میں جاری توانائی بحران کے خاتمے کے
لئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہایت ضروری ہے۔اس سے جہاں ایک طرف سستی بجلی
فراہم ہوگی وہاں لاکھوں ایکڑ زمین سیراب اور ہزاروں ملازمتوں کے مواقع بھی
پیداہوں گے۔مگر بدقسمتی سے قومی مفاد کے اس اہم منصوبے کو سیاست کی
نذرکردیا گیا ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران کے باعث لاکھوں مزدور بے
روزگار ہوچکے ہیں۔صنعتیں بند اور کاروبار ٹھپ ہورہے ہیں۔لاگت میں اضافے کے
باعث ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ کامقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ملکی سرمایہ
دار ہندوستان،بنگلہ دیش،چین،ترکی ،ملائیشیا اور دیگر ممالک کارخ کررہے
ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نوازشریف قوم سے کیے گئے وعدوں پرعملدرآمد کرتے
ہوئے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کریں۔ حکومت کی جانب سے
یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ بجٹ خسار ہ کم ہواہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے اور
تمام معاشی اعشارئیے مثبت ہیں اور معیشت پٹڑی پر آچکی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے
بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔قرض لے کر ہر سال بجٹ خسارہ پورا کرنے کی وجہ
سے ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔بے روزگاری کی شرح ہمارے
ہاں 6فیصد سے زیادہ ہوگئی ۔ بے روزگاری بڑھی اور جرائم میں روز افزوں اضافہ
ہوتا چلاگیا۔ ایک اچھا بجٹ وہ ہوتا ہے جو حکومتی ریونیو کے اہداف حاصل کرنے
کے ساتھ ساتھ ملک میں سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو فروغ دیتے ہوئے
ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرے ، افراط زر پر کنٹرل حاصل کرے تاکہ ملک
معاشی طور پر ترقی کرسکے۔ ملکی معیشت کو درست سمت میں لانے کے لیے ہمیں
ہرحال میں خودانحصاری کی طرف آناپڑے گا۔ ٹیکسیشن پالیسی میں بنیادی
تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکسزکل ریونیو کا کم ازکم 75فیصد ہوں
اور بالواسطہ ٹیکسز 25فیصد سے زیادہ نہ ہوں تو ہماری ٹیکسیشن پالیسی مناسب
حد تک عادلانہ ہوجائے گی ۔ہر قسم کی آمدنی ٹیکس نیٹ میں لائی جائے اور زرعی
آمدنی کو بھی اس قاعدہ و کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ سیلز ٹیکس کے
نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے ، ملکی ایکسپورٹ کو مقابلاتی بنانے کے لیے
ایکسپورٹ سیکٹر کو سیلز ٹیکس میں مزید ریلیف اور مراعات دینے کی ضرورت ہے۔
سیلز ٹیکس ریفنڈ پراسس کو سہل الحصول ہونا چاہیے نیز زرعی مداخلات پر سیلز
ٹیکس ختم کیا جائے۔ معیشت کی درستگی کے لیے تجارتی خسارے کو کم کرنا ناگزیر
ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات کو بڑھایا جائے اور قومی مفادات کو
سامنے رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔غیر قانونی طریقہ سے لوٹی گئی دولت کے
500ارب ڈالر سے زیادہ کی رقوم جو بیرون ملک بینکوں میں جمع ہیں کو واپس
لایا جائے۔ |
|