ہندوستان کی ایٹمی آبدوز اور عالمی برادری کی خاموشی!
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ہندومت کی مذہبی کتب میں یہ بات لکھی ہے کہ پڑوسی کبھی دوست نہیں
ہوسکتااورپڑوسی سے نمٹنے کا طریقہ یوں لکھا ہے کہ پہلے اس سے دوستی لگاکر
اسے کمزور کیاجائے اسے اس کے ہتھیاروں سے محروم کیاجائے اور جب وہ لوہے کے
چنے سے حلوہ بن چکے تو اسے مزے سے کھاجاؤ۔گزشتہ دنوں ہندوستان نے اپنی پہلی
ایٹمی آبدوز سمندر میں اتاری ہے جس سے پڑوسیوں کی بابت اسکے ارادوں کا پتہ
چلتا ہے۔ہندوستان کی تاسیس سے آج دن تک کسی پڑوسی سے اس کے تعلقات بہتر
نہیں رہے۔پاکستان کی وجہ سے تو اسکی ’’دھرتی ماتا‘‘تقسیم ہو گئی اس لیے اس
نے پاکستان کے وجود کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا،اور پہلے عسکری طور
پر کمزور کرنے کی کوشش کی اور جنگیں مسلط کیں،پھر پاکستان کوغداروں کے
ذریعے دولخت کیا۔فوجی شکست کے باوجودبھی جب پاکستانی قوم کے پائے ثبات میں
لغزش نہ آئی تو ہندوستان نے اپنی ثقافتی یلغارکر دی اور تہذیب و تمدن اور
زبان و علاقے کے نام پر اخلاق باختہ اوربے ہودگی کا سیلاب پاکستان میں داخل
کردیا۔آسمان گواہ ہے ان سب آزمائشوں میں امت محمدیہ کے یہ سپوت پورے اترے
اور اب پانی بندش کے معاشی ہتھیار آزمانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دباؤ میں
رکھنے کے لیے ہندوستان نے اپنی ایٹمی آبدوز ملک کی بحریہ کے حوالے کر دی ہے
جس کے باعث وہ دنیا میں اس قوت کا حامل چھٹا ملک بن گیاہے۔
1963میں ہندوستان کی حکومت نے ملکی بحریہ کوآبدوزوں سے لیس کرنے کا پروگرام
بنایاتھا۔اگست 1964میں اس وقت کے بھارتی وزیردفاع ـشیوانـ جی نے اعلان کیا
کہ روس سے چھ آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ طے پا گیاہے،نومبر1964میں اس معاہدے
پر دستخط بھی ہو گئے۔معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ آبدوزوں کی جملہ ضروریات
کے لیے روس کی طرف سے تعاون فراہم کیا جائے گا اور اس کے لیے روس جانے کی
ضرورت نہیں ہو گی بلکہ کلکتہ کے ــــــ’’گارڈن ریچ ورک شاپ‘‘میں یہ سہولیات
فراہم کی جائیں گی۔یہ جملہ تفصیلات پاک بھارت جنگ سے چند ہفتے پہلے
اگست1965میں طے ہوئیں ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے بھارت ایک بہت بڑی جنگ چین کے
خلاف بھی لڑ چکا تھاجبکہ چین اور روس باہم نظریاتی حلیف تھے۔ دسمبر1968میں
بھارتی بحری کمانداراے کے چترجی نے اعلان کیا کہ چھ روسی آبدوزیں بھارتی
دفاعی بحری بیڑے میں شامل کر لی گئی ہیں ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا کہ
اسی(80) کی دہائی کے آخرتک ایٹمی آبدوز بھی بھارتی بحریہ کے حوالے کر دی
جائے گی۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق بھارت اورروس میں یہ معاہدہ طے بھی
پاچکا تھاکہ جنوری 1988میں ایٹمی آبدوز بھارت کے حوالے کر دی جائے گی اور
اس معاہدے پر 1985میں دستخط بھی ہو گئے تھے جس میں اس وقت کے بھارتی بحریہ
کے نائب کماندارتہلیمانی کا بہت اہم کردار تھا۔بھارتی افسروں نے اس ایٹمی
آبدوزکی تربیت بھی لی اور آل انڈیا ریڈیو نے اس معاہدے کی خبر بھی نشر کر
دی ۔وہ تو اﷲ بھلا کرے افغان مجاہدین کا جنہوں نے اپنی قوت ایمانی سے روس
جیسی بپھری ہو ئی بدمست طاقت کوناکوں چنے چبوا کر اسے آسمان سے منہ بل
گرایا اور اسکی ریاست کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور یوں جہاد اسلامی کی برکت نے
گویا پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کے انسانوں کو بھارتی مکروہ عزائم سے
محفوظ کر دیا۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ روس نے ایٹمی آبدوز بھارت کے حوالے کر
دی تھی لیکن اسکے تابکاری اثرات اس قدر شدید تھے کہ ایک سائنسدان ان اثرات
کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہو گیاتھا جس کے نتیجے میں وہ آبدوزواپس کر دی گئی
اور یوں یہ معاہدہ ناکام ہو گیا۔
شکست خوردہ روس کے ٹوٹ جانے سے بھارتی ایٹمی آبدوز کا منصوبہ اگرچہ بیس سال
پیچھے کی طرف چلاگیالیکن ایٹمی آبدوزکے منصوبے پر ہندوستان کے سائنسدانوں
نے 1971ء میں ڈاکٹر رامنا،سری نواسن اوراینگار کی سربراہی میں کام کرنا
شروع کردیا تھا۔ابتداََ تین ایٹمی ری اکٹرزکا نقشہ بنایا گیالیکن وہ تینوں
ہی مسترد کر دیے گئے۔ اس منصوبے کا مقصد ہندوستانی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں
کی فراہمی تھا تاکہ دشمنوں پر اور خاص طورمشرقی پڑوسی ممالک پر ایک خاطر
خواہ دباؤ رکھاجا سکے۔بھارتی قیادت کی دورخی ملاحظہ ہو کہ دسمبر1983میں اس
وقت کے بھارتی وزیر دفاع وینکاشرما نے پارلیمان کو ایٹمی آبدوزوں کے بارے
میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ’’ ٹھیک ہے کہ ہم ایٹمی آبدوزیں تیار کر رہے ہیں
لیکن ان کا مقصدصرف یہ ہے کہ آبدوزوں کو ایٹمی قوت سے چلایا جا سکے اور ان
آبدوزوں کے ذریعے ایٹمی اسلحے لے جانا مقصود نہیں ہے اور میں پہلے بھی کہ
چکاہوں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت کا استعمال پر امن مقاصد کے لیے ہے‘‘۔یہ بیان
ایسے ہی ہے جیسے بھیڑیے کے دانت خون سے رنگین ہوں ،اسکے منہ میں شکار شدہ
جانوروں کے خون کے لوتھڑے لٹک رہے ہوں ،اسکی آنکھوں سے لہو ٹپک رہاہو،دائیں
بائیں مارے گئے جانور پڑے ہوں اوروہ کہے کہ میں نے تو جنگل میں امن قائم
کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ایٹمی دھماکوں سے فوراََ بعد کے بیانات اورایٹمی
آبدوزکے افتتاح کے موقع پر آبدوز کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان سے
مزکورہ وزیر دفاع کے بیان کی قلعی کھل جاتی ہے اور یہ اندازہ کرنا مشکل
نہیں کہ بھارتی قیادت جہاں معاہدے توڑنے میں کمال رکھتی ہے وہاں جھوٹ بول
کر دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی انکے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔
بھارت کی کوشش تھی کہ اسے روس سے ایٹمی آبدوزوں کی ٹکنالوجی حاصل کی جائے
لیکن اس معاملے میں روس پس و پیش سے کام لے رہاتھاکہ ٹیکنالوجی کی بجائے
آبدوز ہی فراہم کی جائے۔گزشتہ صدی میں ستر کی دہائی کے وسط میں بھارت نے
یورپ سے ایٹمی آبدوزوں کے نقشے منگوانا شروع کر دیے اور فرانس،اٹلی
،نیدرلینڈ اورجرمنی نے بڑی فراخدلی سے اپنی اپنی ٹیکنالوجی کے نقشے فراہم
کیے۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ انسانیت کا راگ الاپتے الاپتے ان یورپی ملکوں
کی زبان نہیں تھکتیں اور پوری دنیا پر انکی نظریں ہیں کہ کسی اسلامی ملک
میں اگر کسی عورت کی چینخ نکل جائے توانکے کیمرے چشم زدن میں پوری دنیا میں
آگ لگا دیتے ہیں کہ ہائے ہائے عورت کے حقوق سلب ہو گئے لیکن چند سکوں کی
لالچ میں تباہ کب ہتھیاروں کے نقشے انسانوں کی تباہی کی خاطر ایک فاشسٹ
ریاست کے حوالے کر دیے کہ وہ جیسے چاہے گل کھلائے ۔انسانی عقل سے بنائی گئی
تہذیب اور انبیاء علیھم السلام کے ذریعے بھیجی گئی تہذیب کے درمیا ن یہ فرق
ہے جس کو آج کی دنیا بہت گہرائی سے محسوس کر رہی ہے۔
بھارتی قیادت کو ایسے نقشے درکار تھے جن کے ذریعے ایٹمی آبدوزکی منزل تک
بھی رسائی ہو سکے۔مغربی جرمنی کی کمپنی HDWنے جو نقشے فراہم کیے ان میں
’’ٹائپ209‘‘ڈیزائن کے اندر یہ مطلوبہ خوبی موجود تھی چنانچہ 1981ء کو جرمنی
کی اس کمپنی کے ساتھ پندرہ سو ٹن وزنی آبدوز کی تیاری کا معاہدہ طے پا
گیا۔معاہدے کے مطابق ابتدائی طور پر دواور بعد میں کل چار آبدوزیں ’’مزاگان
ڈوکس لمیٹڈ بمبئی ‘‘بھارت کے اندر ہی تیار کی جانی تھیں۔1982کے آغاز میں
کام کا آغاز ہوگیااور1986سے 1991کے دوران یہ آبدوزیں بھارتی بحریہ کے حوالے
کر دی گئیں،درمیان میں ایک موقع پر حالت جنگ میں فاضل پرزوں کی فراہمی پر
اختلاف شدت اختیار کر گئے تھے لیکن ان اختلافات پر قابو پا لیاگیا
اورآبدوزوں کو ہر حال میں حاصل کیاگیا۔پہلی آبدوزجو بھارتی بحریہ کو حوالے
کی گئی وہ ’’آئی این ایس شلکی ‘‘تھی جو ’’ٹائپ209‘‘ڈیزائین کی حامل ، پندرہ
سو ٹن وزنی اور ڈیزل سے چلنے والی تھی اور ستمبر1989کوبحری افواج کے سپرد
کی گئی تاکہ’’خطے میں امن‘‘قائم ہو سکے۔اس آبدوزپر1,8ملین بھارتی روپے
یا450ملین امریکی ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔جس ملک کے بڑے بڑے شہروں میں
عوام الناس کی یہ حالت ہو کہ وہ نسلوں سے فٹ پاتھ پر پیداہورہے ہوں وہیں
پلیں بڑھیں وہیں ان کی شادیاں ہو کر انہیں ایک الگ جھونپڑی بنادی جائے اسی
فٹ پاتھ پر وہ اپنی نسلوں کو پروان چڑھاکراس جہان سے گزر جائیں اور ساری
زندگی انہیں امن کی چھت اور عزت کی روٹی نصیب نہ ہو سکے اس ملک کے حکمران
اسلحے کی تیاری پر اس طرح بے دریغ وسائل اڑا دیں چہ معنی دارد؟؟
وسط 1996تک بھارتی حکومت ایٹمی آبدوزکی تیاری پر 285.7،ملین ڈالر خرچ کر
چکی تھی اور سائنسدانوں نے اگلے پانچ سالوں میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے
مزید714.3ملین ڈالر کی رقم کا تقاضا کر دیاتھااور اس مقصد کے لیے 1991سے
روسی ایٹمی سائنسدان بھارت میں مقیم تھے جو اس منصوبے کی تکنیکی معاونت بہم
پہنچارہے تھے۔منصوبے کے مطابق 2500ٹن وزنی ایٹمی آبدوز تیاری مطلوب تھی جو
کم از کم پانچ سگریکا کروز میزائیل داغنے کی سہولت بھی رکھتی ہو۔HY-80اسٹیل
کا چناؤ کیاگیا جو اس مقصد کے لیے بہت مہنگے داموں میسر تھی لیکن بھارتی
قیادت کے لیے سستے یا مہنگے کا کوئی سوال نہیں تھا،جنگی جنون اور توسیع
پسندانہ عزائم اپنے عوام کو کتنا ہی نچوڑ لیں اس سے انہیں کوئی فرق نہیں
پڑتا۔
بھارتی ایٹمی آبدوز کی تیاری کے ضمن میںHY-80 اسٹیل کی قسم کی چناؤ کے لیے
جن اداروں کے نمائندوں نے فیصلے میں حصہ لیاان اداروں کے نام یہ ہیں:
1۔نیول کیمیکل اینڈ میٹالرجیکل لیبارٹری،نیول ڈکیارڈ ،بمبئی
2۔انڈین انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ،کھارگ پور
3۔بھابھااٹامک ریسرچ سنٹر، بمبئی
4۔ریسرچ اینڈڈویلپمنٹ سنٹرفارآئرن اینڈ اسٹیل،رنچی
5۔ڈیفنس میٹالارجیکل ریسرچ لیبارٹری،حیدرآباد اور
6۔انداگاندھی سنٹر فار اٹامک ریسرچ،کلپکام
1997کے آخر تک اس اسٹیل سے ویلڈنگ کے ذریعے آبدوزکا کیپسول تیار کرنے کاکام
شروع ہوچکاتھااور کیپسول کے گرد ربر کی ٹائلیں لگائی جانی تھیں اور اس طرح
آبدوز کا وزن 6000ٹن تک پہنچ گیاتھا۔
آبدوزکا سب سے اہم کام اس میں ایٹمی پاور پلانٹ کی تنصیب تھی جس پر ابھی تک
نہ ہونے کے برابر کام ہواتھا،روسی سائنسدانوں نے اگرچہ اس کے اچھے نقشے دیے
تھے لیکن تابکاری اثرات سے عملے کو بچانا ایک چیلنج کی حیثیت
رکھتاتھا۔آبدوزوں میں یورینیم کو تین مرحلوں میں افزودہ کیاجاتاہے ۔امریکی
آبدوزوں میں 90%تک افزودہ یورینیم استعمال کی جاتی ہے جو بہت حد تک محفوظ
طریقہ ہے لیکن بہت مہنگا۔جبکہ روسی آبدوزوں میں اس سے کم شرح کی یورینیم
بھی استعمال کی جاتی ہے اگرچہ وہ نسبتاََ غیر محفوظ ہے۔چونکہ اس سے پہلے
بھی تابکاری اثرات سے ایک قیمتی جان ضائع ہو چکی تھی اور بین الاقوامی
قوانین بھی اعلی درجے کی افزودگی کی ہی سفارش کرتے تھے اس لیے بھارتی
آبدوزمیں بھی اسی طرح کی 90%تک افزود کی گئی یورینیم کے آیئسوٹوپ استعمال
کرنے کا فیصلہ کیاگیااور اس مقصد کے لیے بھارت کے کمرشل پاور رئکٹرز سے بھی
تکنیکی مدد حاصل کی گئی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اس حد تک یورینیم کی
افزودگی کی صلاحیت حاصل کر چکاہے؟؟کیونکہ پی کے شری جو انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس
سٹڈیزاینڈ انیلیسز(IDSA)کے سابق ڈائرکٹر ہیں ان کا کہنا ہے کہ بھارت اب تک
بمشکل20%تک ہی یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت کا حامل ہے اور اگر اسی سطح کی
یا اس سے کچھ زیادہ سطح کی یورینیم کو آبدوزمیں استعمال کیا گیاتو عملے
سمیت سمندر کی آبی حیات بہت بری طرح تابکاری اثرات کا شکار ہو جائے گی اور
بھارت کی ایٹمی تاریخ میں کم و بیش 144ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں
بھارتی عوام براہ راست تابکاری سے متاثر ہوئیں اور مرکزی پارلیمانی کمیٹی
تک نے اسکی تحقیقات کیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔اور ایک دفعہ جب
تابکاری اثرات اپنی حدود سے نکل جائیں تو پھر انکے اثرات کو روک سکنا بہت
مشکل نہیں بلکہ بالکل اورقطعاََ ناممکن ہے۔
منصوبے کے لیے ایندھن کا استعمال اور اسکے جملہ امور کے لیے خفیہ کوڈز رکھے
گئے اور انہیں ایک سپر کمپیوٹر میں ڈال کر آزمایا گیاکہ یہ کس حد تک عملی
طور پر مصدقہ ثابت ہوں گے۔امریکی اور جاپانی سپر کمپیوٹرز موجود ہونے کے
باوجود مقامی طور پر تیارکیاہوا سپر کمپیوٹر’’پارام‘‘اس مقصد کے لیے
استعمال کیاگیا۔’’ایڈوانس نمیریکل ریسرچ اینڈانیلسزگروپ‘‘نے کمپیوٹر سے
متعلقہ ماہرانہ خدمات فراہم کیں۔جون 1996تک طویل مساعی کے باوجوداس آزمائش
کے نتائج مایوس کن ہی برآمدہوتے رہے اور ان حالات میں عملی اقدام اٹھانا
کسی طرح بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔جولائی 1996میں آل انڈیا ریڈیونے اپنی قوم
کو یہ نوید سنائی کی بھارتی بحریہ کے لیے ایٹمی آبدوز کے مراحل کامیابی سے
طے کر لیے گئے ہیں ،یہ دراصل ان آزمائشوں کی کامیابی کی طرف اشارہ تھا جو
واقعی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔آبدوزکے ایٹمی ری اکٹر سے تابکاری اثرات کو
روکنے کے لیے ضروری تھا کہ کنٹرول راڈ کو کس طرح اس میں داخل کیاجائے اور
پھر کیسے نکالا جائے ،اس تکنالوجی کے حصول کے لیے بھارتی سائنسدانوں کو
بیرونی ممالک سے منہ کی کھانی پڑی اب ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے خود اس کو
تیار کر لیاہے لیکن وہ کس حد تک محفوظ ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
آبدوز سے رابطہ ایک اور اہم مسئلہ تھاخواہ امن کے دن ہوں یا حالت جنگ۔عام
حالات میں روابط کے جو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں وہ سمندر میں آٹھ سے دس
میٹر کی گہرائی تک کارآمد ہوتے ہیں اور ان میں سے جو بہت زیادہ موثرہیں وہ
دیگر نشریاتی اداروں کی ابلاغی شعاؤں کو بالکل جام کر دیتے ہیں۔اس مد میں
ایک بار پھر تحقیقی اداروں سے رجوع کیاگیااور ان اداروں نے اس کام میں اپنا
حصہ ڈالا:
1۔نیشنل انسٹیوٹ آف اوشین گرافی،گاؤ
2،انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی،مدراس
3۔انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی،بنگلور اور
4،ڈیفنس الیکٹرانکس اپلیکیشن لیبارٹری،دہرہ دان
1986میں ایک سائنسدان نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جس کا عنوان
تھا’’نیوکلرہاررنڈڈریڈیو کیمیونیکیشن ٹو سب میرین‘‘،اس مقالے کے بعد سفارش
کی گئی کہ ’’ای ایل ایف ریڈیوکیمیونیکیشن‘‘ایساواحد ذریعہ ابلاغ ہے جو
ایٹمی آبدوز سے رابطے کے لیے محفوظ ترین ہو سکتاہے اور جس سے نشریات کے
دیگر طرق بھی متاثر نہیں ہوں گے،جبکہ سمندری پانیوں میں اس طریقے سے ایک سو
میٹر کی گہرائی تک بھی رابطہ ممکن ہوسکتاہے۔1993تک سائنسدانوں نے اس مقصد
کے لیے بلامبالغہ سینکڑوں مقالات پیش کیے اورمسلسل تحقیق و جستجوکا سلسلہ
چلتارہا ۔ایک سائنسدان نے بلیوگرین لیزر شعاؤں کا تصور پیش کیاجو پانچ سو
سے سات سومیٹر کی گہرائی تک سمندری پانیوں میں رسائی رکھ سکتی ہیں،لیکن یہ
طریقہ ابلاغ خلائی سیارے سے ممکن تھااور اتنی دور سے شعاؤں کا سفر انکی
چوری کے امکان کو قوی کر دیتاہے کیونکہ پاکستان اور چین کے ممالک سے بھارت
کی حکومت کو’’بہت خطرات‘‘لاحق ہیں۔چنانچہ بھارتی آبدوزمیں فونکس ٹوای ایم
سسٹم کے مضبوط اور طاقتورٹرانسمیٹرنصب کیے گئے ہیں جس سے آبدوز کا بیرونی
دنیاسے مسلسل رابطہ ممکن ہو سکے گا۔اسی طرح اگرچہ جرمنی نے اپنا ریڈارسسٹم
دیاتھا لیکن بھارت نے اپنے تحقیقاتی اداروں کوساتھ شامل کر کے خود سے
آزمائے ہوئے ریڈارزکو بہترین فریکونسی کے ساتھ نصب کیاہے۔اگر یہ آبدوز امن
کی خاطر بنائی گئی تھی تو اس تک پیغام رسانی کے اس قدر محفوظ طریقے کیوں
اختیار کیے گئے کہ جن کی تلاش میں برسوں صرف ہوئے اور جن کے چوری ہونے کے
ہر اندیشے سے امن اختیار کیاگیا؟؟اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت
سیکولرازم کی آڑمیں جہاں ہندو پرستی کرتاہے وہاں امن کی آڑ میں بہت بڑی
دہشت گرد ریاست ہے جس کی قلمرو میں مشرق سے مغرب تک کئی اقوام اپنی آزادی
کی جنگ میں برہمن استعمار سے نبردآزماہیں۔
روسی طرز کی اس ایٹمی آبدوز کے ڈیزائین میں اابتداََتو بلیسٹک میزائل نصب
کرنے کی ہی گنجائش تھی لیکن بعد کے ڈیزائین جس طرح تیار کئے گئے ان میں
’’امن کی خاطر‘‘بنائی گئی اس آبدوز میں متعدد اور بھی کئی طرح کے میزائل
نصب کرنے کی گنجائش رکھی جاتی رہی۔’’پرتھوی‘‘میزائل جو تین سو کلومیٹر تک
اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے،کروز میزائل جو ساڑھے چارسو
کلوگرام دھماکہ خیز موادلے جانے کی صلاحیت
رکھتاہے،’’سگریکا‘‘میزایلزجوکروزمیزائل کی طرز کے ہیں انکی تیکنالوجی بہتر
ہے،’’کورل‘‘میزائل جو بحری جہازوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اور اگنی
میزائل ان سب کے علاوہ ہیں جواس وقت بھارتی افواج کے پاس موجود ہیں۔بھارت
کتناہی امن پسندی کا دعوی کرتارہے اسکا ماضی گواہ ہے کہ وہ کسی بھی میزائل
پر ایٹمی ہتھیار نصب کر کے تواسے اپنی ایٹمی آبدوز میں نصب کرسکتاہے۔اس
منصوبے کے ایک ذمہ دار افسر کے دعوی کے مطابق یہ ایٹمی آبدوزچھ ہزار ٹن
وزنی ہے،ایک سو دس میٹر لمبی ہے،گیارہ میٹر چوڑی ہے اورسات سو کلومیٹر تک
مار کرنے والے بارہ سے پندرہ بلسٹک میزائل ایک وقت میں اٹھا سکتی ہے ۔روسی
ٹیکنالوجی سے تیارکردہ یہ بڑا جنگی ہتھیارجدید ترین تکنالوجی کا حامل ہے
اور ہلکے پانی کے ریئکٹرسے توانائی حاصل کرتاہے۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے
ایٹمی آبدوز تک اہل مغرب نے نہ صرف یہ کہ خاموشی اختیار کی بلکہ بعض مقامات
پر تو کھل کر اس کاساتھ دیااس کے مقابلے میں عراق کے ایٹمی ری اکٹراڑا دیے
گئے،پاکستان اب تک ’’اسلامی بم‘‘کے دباؤمیں ہے اور ایران کاایٹمی پروگرام
پوری یورپی اور امریکی دنیاکے ناک پر لڑا ہے۔ دنیاکے ان معاملات میں
آخرمغربی سیکولرازم کے پردھان منتریوں کی یہ دو رنگی کیوں ہے ؟؟؟ |
|