را کے ایجنٹس

آج کل ملک میں اور خصوصاً کراچی میں ’’را‘‘ کے ایجنٹس کا بڑا چرچا ہے۔ ملک کی تیسری بڑی جماعت کے سربراہ اور کارکنوں پر بے دریغ را کے ایجنٹ ہونے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ ما ضی میں بھی کئی اہم سیاسی شخصیات پر را کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ یقینا ملک خداداد میں را کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سرگرمیوں کو روکا جائے، اور جو لوگ ایجنٹس اور سہولت کاری میں ملو ث ہوں ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

لیکن اس سے پہلے ’’را‘‘ اور ان کے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے، ’’را‘‘ ( ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ) 1962 میں بھارت چائنہ جنگ اور 1965 بھارت پاکستان جنگ کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے ستمبر 1968 میں قائم کی گئی، اسکے ظاہری مقاصد چاہے کچھ بھی ہوں لیکن اس کے اصل مقاصد میں اپنے پڑوسی ممالک پاکستان ، چین، بنگلا دیش، نیپال اور سری لنکا میں خصوصیت کے ساتھ ایسی کاروائیاں کرناشامل ہے جن سے ان ممالک کو غیر مستحکم کیا جا سکے، اسکے لئے وہ ان ممالک کو معاشی طورپر کمزور کرنے اور علاقائی سطح پر علیحدگی کی تحاریک شروع کروانے اور ان کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی کاروائیاں کرتے ہیں، مزید یہ کہ ان ممالک کے فوجی راز حاصل کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

چونکہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا ہے، اور اوئل سے ہی وہ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اس لئے پاکستان را کاسب سے بڑا ہدف رہا ہے، اس نے اپنے قیام کے فورا بعد سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی کاروائیوں کا بھر پور طریقے سے آغاز کیا، اور صرف چند برسوں میں ہمیں ایسا ناسور دیا کہ ہم قیامت تک اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔

را اپنے مقاصد کی تکمیل میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقامی سطح سے اس کو مدد نہ ملے، اسکے لئے اسے اپنے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایجنٹس درکار ہوتے ہیں۔ را کے ایجنٹس کا انتخاب ان کے مقاصدپر منحصر ہوتا ہے۔یعنی ایجنٹ وہ ہی لوگ بنائے جاتے ہوں گے جو ان کے مقاصدکی تکمیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اسکی مثال کچھ اس طرح ہے کہ اگر آپ نے قراقرم کی کسی چوٹی کو سر کرنا ہے تو اس کے لئے آپ کو جن معاونین کی ضرورت پڑے گی وہ آپ کو اسی علاقے سے مل سکتے ہیں، ظاہر ہے کہ ساحلی علاقے کے لوگ آپ کے لئے بے کار ہیں۔ اگر ’’را‘‘ کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم را کے ایجنٹ تلاش کریں تو وہ ہمیں وہیں ملیں گے جہاں را اپنی کاروائی کرنا چاہتی ہو، اسکے لئے ہم را کے کچھ مقاصد کو لیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ ایجنٹس کہا ں سے مل سکتے ہیں۔

را کا ایک اہم مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے اسکے لئے ضروری ہے کہ اسکی معیشت کو تباہ و برباد کیا جائے، چونکہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس لئے پانی کی اہمیت کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت یہاں زیادہ ہے، انڈیا پہلے ہی کئی ڈیم تعمیر کر کے پاکستانی دریاوؤں کا پانی روک چکا ہے جس سے پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہو چکا ہے۔مستقبل میں اس کمی کو پورا کرنے کیلئے کالا باغ کا مقام پاکستان کے لئے اﷲ تعالی کا ایک بیش قیمت تحفہ ہے، یہاں بنایا جانے والاڈیم پاکستان کی معیشت میں بڑا انقلاب لا سکتا ہے اور انڈیا اس بات کا بخوبی ادراک رکھتاہے، وہ نہیں چاہتا کہ کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے، کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے انڈیا اربوں روپیہ سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ دوسرا پروجیکٹ جو پاکستانی معیشت کو انتہائی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے وہ ہے اقتصادی راہداری، کالا باغ ڈیم کی طرح یہ پروجیکٹ بھی انڈیا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، اسکی تعمیر کو رکوانا بھی را کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مقصد کے حصول کے لئے جن معاونین یا ایجنٹس کی ضرورت ہے وہ وہیں سے ہی مل سکتے ہیں جہاں پہلے ہی سے ان پروجیکٹس کی مخالفت موجود ہے یعنی دیہی سندھ،خیبر پختو ں خواہ اور وہ علاقے جہاں سے اقتصادی راہداری کا روٹ متوقع ہے۔

انڈیا ، پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے جن خطوط پرروز اول سے ہی کام کررہا ہے ان میں سر فہرست پاکستان کے مختلف صوبوں کے لوگوں میں احساس محرومی کے جذبات کو ہوا دے کر علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دینا اور پروان چڑھانا ہے۔ اس سلسلے میں انڈیابنگلہ دیش کی صورت میں ایک بہت بڑی کامیابی سمیٹ چکا ہے، یہاں بھی احساس محرومی کو بڑھاوا دینے کے لئے مقامی بنگالیوں کو ایجنٹ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا اور با قاعدہ ایک عسکری طاقت ’’مکتی باہنی‘‘ تیا ر کی گئی تھی۔ ’’را‘‘ کی یہ کامیابی اسکی آخری منزل نہیں تھی، خدانخوستہ اسکی منزل پاکستان کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ جس کے لئے اس نے سندھودیش اور بلوچستان پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اپنے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے اسے یہاں بھی ایجنٹس کی ضرورت تھی، اور یقینا بے شمار را کے ایجنٹس ان کی مدد کررہے ہیں اور یہ بات قطعی طور پر کہی جاسکتی کہ یہ ذمہ داریاں صرف خالصتاً سندھی اور بلوچی لوگ ہی انجام دے سکتے ہیں، لیکن ان دونوں خطوں میں ان کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اس کی وجہ بھی ان دونوں خطوں کے لوگ ہی ہیں ، را کی بھر پور کوششوں کو سندھی اور بلوچی عوام نے ہی خاک میں ملایا ہے ۔

ایک اور حربہ جو ’’را‘‘ استعمال کرتی رہی ہے وہ ہے مذہبی انتہا پسندی کو انتہا تک لے جاکر نہ صر ف امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا بلکہ اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر عالمی برادری میں پاکستان کے امیج کو بگاڑنا ہوتا ہے، اس طرح اس کو دو رس فائدے حاصل ہوتے ہیں اول یہ کہ عالمی برادری میں انڈیا کے لئے ہمدردی کے جذبات بڑھتے ہیں دوم پاکستان کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، ماضی میں پاکستان کو کئی مرتبہ اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا ہے جس سے ملک کا معاشی ڈھانچہ بے حد متاثر ہوا ہے۔ مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کو ابھارنے کے لئے ’’ را‘‘ کو جو ایجنٹس درکار ہوتے ہیں وہ ملک کی مذہبی جماعتوں سے کثیر تعداد میں مل سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں طالبان اور داعش کی کاروائیوں نے نہ صرف دنیا کا امن تباہ و بر باد کر دیا ہے بلکہ ان کی وجہ سے پاکستان کو ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ، اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان تنظیموں کی فنڈنگ اور اسلحہ سپلائی کرنے والے ممالک میں انڈیا بھی شامل ہے ۔

انڈین خفیہ ایجنسیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دشمن ممالک کی مستقبل کی فوجی حکمت عملی سے با خبر رہے۔ وہ پاک فوج کی حال کی کاروائیوں سے لیکر مستقبل کی ہر ہر منصوبہ بندی پر نظر رکھنا چاہتے ہیں، تو کون لوگ اس سلسلے میں مدد گار ہو سکتے ہیں یہ جاننے اور سمجھنے کے لئے کسی کو پی ایچ ڈی کرنے ضرورت نہیں۔

لیکن آج کل صرف ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر را کے ایجنٹس ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں وہ را کے مددگار کے طور پر مندرجہ بالا کسی بھی حوالے سے فٹ نہیں اترتے۔ ہو سکتا ہے کہ را کے پاس ایسے پروجیکٹس بھی ہوں جن کیلئے یہ لوگ موزوں ہوں ، مگر ابھی تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ ایم کیو ایم کے لوگوں سے را نے کیا کام لیا۔ اور جو پروجیکٹس بالکل واضح ہیں اور ان کے لئے کام کرنے والے بھی نظر آرہے ہیں ان پر نہ تو الزامات لگائے جارہے ہیں اور نہ میڈیا ان کا ٹرائل کر رہاہے۔
Muhammad Shafi Siddiqui
About the Author: Muhammad Shafi Siddiqui Read More Articles by Muhammad Shafi Siddiqui: 2 Articles with 1837 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.