حفصہ مسعودی کا ایک کالم بعنوان ’’ وطن
ہمارا آزاد کشمیر‘‘ شائع ہوا ہے جس میں آزاد کشمیر کے ترانے کو موضوع بنایا
گیا ہے۔اس حوالے سے کچھ سنجیدہ اور کچھ طنز و مزا ح پر مبنی باتیں بھی
ہوئیں جو قارئین کے دلچسپی کے پیش نظر پیش خدمت ہیں۔آزاد کشمیر میں قبیلائی
و علاقائی بنیادوں پر جائز و ناجائز مفادات کی بنیاد پر شروع ہونے والی
کشمکش ،دھینگا مشتی میں تبدیل ہو چکی ہے۔پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر
حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے بجائے اس کا دائرہ کار خطے
کی جغرافیائی حدود تک محدود کرنے سے آزاد کشمیر میں ’’قبلہ و کعبہ‘‘ بدل
گیا،آزاد کشمیر اپنی تاریخ اور تحریک سے یکسر لا تعلق ہو گیا،چناچہ آج کے
نوجوانوں کو آزاد کشمیر کا ترانا کچھ عجیب سا لگتا ہے،انہیں اس ترانے اور
حقائق میں بہت زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے۔اس حوالے سے مرکزی کردار ہمارے
سیاسی رہنماؤں کا ہے جو بدقسمتی سے قیادت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکے۔
خطے کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے کہ نوجوان ’’ بہتی گنگا ‘‘ میں بہہ جانے یا
’’ اشنان‘‘ کرنے کے بجائے مثبت طرز عمل کو اہمیت دیں،اس کے لئے کوشش
کریں،تاہم اپنی شاندار اور پرفخر تاریخ اور تحریک سے آگاہی اور وابستگی کے
ساتھ۔ترانا ، اساس اور عزم و یقین کا اظہار ہوتا ہے۔ترانے میں اصلاح ضروری
ہے لیکن اس کے لئے آزاد کشمیر کے عوام کو اپنے اپنے عزم و یقین کا تعین
کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ماضی سے اپنی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں یااپنی ثقافت اور
تاریخ کے طویل سفر میں ایک مثبت اضافہ کرتے ہیں۔
پیشگی معذرت کے ساتھ عرض کیا کہ آزاد کشمیر میں بدکرداری،خرابیوں ،خامیوں
کے نظارے اور موجودہ صورتحال میں مناسب تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ہر
حکومت کو اپنا ترانا بنانے کا اختیار دیا جائے،مثلا موجودہ حکومت کا ترانا
کچھ اس طرح کا ہو سکتا ہے کہ
اسی آں ملنگ تے مجاور بی بی دے مزار دے
گورمنٹ وچ آ کے اساں دھمال وی آں پاندے
اور’’ اتحاد‘‘ سے بننے والی آئندہ آنے والی حکومت کا ترانا کچھ یوں ہو سکتا
ہے کہ
لیڈر ہمارا نواز شریف ،راحیل شریف
میر پور والوں کی برادری پہن چکی تاج آزادی
تم بھی اٹھو پہاڑ والی،باری ہے اب تمہاری
اوہ ،پی ٹی آئی کا ترانا کچھ اس طرح کا ہو سکتا ہے ،،
دل میں اب ارماں لئے چلے
کوئی چلے نہ چلے عمران چلے
چاند تاروں سے بھی آگے چلے
کوئی چلے نہ چلے عمران چلے
میر پور سے چلتے چلتے چناری چلے
کوئی چلے نہ چلے عمران چلے
اس طرح کے ترانے بنائے جائیں تو دیکھیں کتنے’’ہٹ‘‘ ہوں گے۔
ہمارے پیارے صحافی دوست ناز بٹ ناجی صحافت چھوڑ کر ،یہاں سے امریکہ پرواز
کر گئے ہیں اور وہاں سے رنگین عینگ لگا کر یہاں کے حالات و واقعات پر کبھی
کبھی تبصرہ بھی دے مارتے ہیں۔گزشتہ دنوں بٹ صاحب نے ایک پوسٹ پر طویل کمنٹس
کر کے جواب طلب کیا تھا لیکن جواب آنے کے بعد خاموش ہو گئے۔’’ادھر ڈوبے
ادھر نکلے ‘‘ کے مصداق سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے ترانے کی تجویز و مثال
بٹ صاحب کو مایوسی نظر آئی ہے اور کہتے ہیں کہ’’ انسان جو فصل بوتا ہے وہی
کاٹے گا ‘‘۔بٹ جی ، میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے لیڈر ستاروں پہ کمند
ڈال سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ کے رہنما تو کسی کی فصل کو اپنی محنت
قرار دے سکتے ہیں ،سوکھی ہوئی مچھلی کے ’’ اعضائے مخصوصہ‘‘ بھی ڈھونڈ سکتے
ہیں، آپ جیسے’’ جواں عزم و یقین والے کارکن ‘‘ اور ایسے کارکنوں کے لیڈر
کہاں ملیں گے؟
خاک رہ جائے گابھرم حکومت میں آنے کو
رسوائے سیاست کی باتیں عام نہیں کرتے |