گونگے نمائندے!

 پنجاب اسمبلی کے بارے میں ایک تحقیق سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ الیکشن کے موقع پر منتخب ہونے والے ارکان میں سے 164معزز ارکان ایسے ہیں جنہوں نے پونے تین برس میں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ایوان میں ادا نہیں کیا، نہ علاقے کے مسائل کی بات کی ، نہ کسی سلگتے مسئلے پر کوئی تحریک جمع کروائی، نہ کسی اہم ایشو پر کوئی سوال کیا۔ بس خاموشی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اور محض اپنی حاضری کے عوض خزانے پر بوجھ بنے رہے۔ جمہوریت میں عوام کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کی ضرورتیں کونسی ہیں جو حکومت پورا کرسکتی ہے، اور ان کے کونسے حقوق ہیں جو انہیں ملنے چاہیئں؟ ان تمام مسائل کے حل کے لئے الیکشن ہوتے اور ممبران منتخب ہوتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ فلاں پارٹی کو ہی ووٹ دے، دباؤ وغیرہ کی روایت بہت کم جاگیر دارانہ نظام میں رہ گئی ہے، شہروں اور قصبات میں یہ وبا نہیں ہے، ویسے بھی ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے وقت کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا۔ گویا اس سلسلہ میں عوام آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں، بلکہ یہ الیکشن ہی کا موقع ہوتا ہے، جب عوام کو کچھ نخرہ وغیرہ کرنے کا موقع میسر آتا ہے، اس کے بعد تو یہ نمائندے اگلے الیکشن میں ہی دوبارہ دکھائی دیتے ہیں۔
 
اگر اتنے سارے نمائندوں نے اسمبلی میں کوئی کردار ہی ادا نہیں کیا، تو ان سے کونسی باز پرس ہوئی؟ باز پرس کرے بھی کون، خود وزیر اعلیٰ بھی سال بھر میں ایک دو مرتبہ ہی اسمبلی کو رونق بخشتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وزراء اور پارٹی کے ممبران اسمبلی کو زیادہ فکر نہیں ہوتی، وزیراعلیٰ ہوں تویہ لوگ بھی چہرہ دکھانے، نمبر ٹانکنے وہاں پہنچ جائیں۔ اسمبلی میں پونے تین برس تک ایک لفظ بھی نہ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ ان صاحبان کو اپنے حلقے کے عوام کی کوئی پرواہ نہیں، دراصل یہاں کسی کو بھی کسی کی پرواہ نہیں۔ اگر وزیراعلیٰ اسمبلی میں نہیں آتے اور ان کے معزز ممبران تین تین سال ایک لفظ بھی اسمبلی میں نہیں بولتے تو بھی عوام ناراض نہیں ہوتے، ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ابھرتی، اگر ایسا ہوتا تو ووٹر آگے بڑھ کر ضرور اپنے نمائندے سے معلوم کرتے کہ جناب ہم نے آپ کو خاموشی کا روزہ رکھنے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ جن حلقوں کے نمائندہ اسمبلی میں اپنے حلقے کے مسائل بیان کرتے، قانون سازی میں مشورے دیتے ، کسی مسئلے کی تائید یا اس پر تنقید کرتے یا صوبے کی بہتری کے لئے منصوبہ بندی میں حصہ لیتے ہیں، ان کے حلقوں کے عوام کے سر بھی فخر سے بلند ہوتے ہیں۔

معاملہ خاموشی پر ہی ختم نہیں ہوتا، اور یہ خاموشی صرف پنجاب اسمبلی میں ہی نہیں ہے، قومی اسمبلی کے ارکان نے (حسبِ روایت) اپنی تنخواہوں میں اضافہ کے مطالبہ پر ایکا کر لیا ہے، یہ لوگ کہنے کو تو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوتے ہیں، ملکی اور عوامی مفاد میں بھی کم ہی اکٹھے ہوتے ہیں، مگر جب تنخواہوں میں اضافہ کی بات ہو تو آپس میں شیر وشکر ہوجاتے ہیں۔ ایسی جذباتی ہم آہنگی اور کسی موقع پر دیکھنے میں نہیں آتی۔ قومی اسمبلی میں معزز ارکان نے شور مچایا کہ ہماری تنخواہیں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کے برابر کی جائیں، ہم ساٹھ ستر ہزار روپے لیتے ہیں تو وہ لاکھوں روپے۔ ارکان نے بات سپیکر پر اور سپیکر نے وزارت خزانہ پر ڈال دی۔ بات سیکریٹری اسمبلی تک پہنچی تو سپیکر نے بتایا کہ ان کی تنخواہ تو مجھ سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔ عوام کے لئے یہی معلومات کافی ہیں، کہ ہمارے ارکان کی تنخواہیں کتنی ہیں، اور بیوروکریسی کی کتنی؟ اور یہ بھی کہ یہ تمام لوگ نہایت خاموشی اور یکسوئی سے عوام کی خدمت میں رات دن ایک کئے ہوئے ہیں، عوام کی بہبود اور فلاح کے لئے منصوبہ سازی کرتے ہیں، تاہم اس ساری محنت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ اسمبلی اجلاس میں بھی پہنچیں او رکورم پورا ہو سکے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ پورے پانچ سال اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نکالیں، بس مراعات ہوں ، تنخواہ ہو اور کچھ استحقاق و اختیارات، تاکہ الیکشن پر خرچ کئے جانے والے کروڑوں روپے پورے کئے جاسکیں۔ اپنی اسمبلیوں میں بہت سے ارکان ایسے ہیں جو ایوان میں تشریف ہی نہیں لاتے، مگر ان کی ’’دیہاڑی‘‘ بھی نہیں ماری جاتی، کیونکہ ملی بھگت سے ان کی حاضری لگ جاتی ہے اور دیہاڑی مل جاتی ہے۔ قوم کی خیر ہے اِن معزز نمائندوں کی آمدنی میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472352 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.