آج پی پی پی کس منہ سے مشرف کے معاملے پر سیاست کررہی ہے..؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
پرویزمشرف کی سیاسی بیماری وعلاج اور ای سی ایل معاملہ سپریم کورٹ اور حکومتی اجازت . . . |
|
چلیں،یہ بہت اچھاہواکہ وزیرداخلہ چوہدری
نثارعلی خان نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے واضح کردیاکہ مُلک کے سابق صدر
اوراے پی ایم ایل کے سربراہ جنرل (ر)پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ سے
نکال دیاگیاہے، حکومت مشرف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتی ہے
اورسابق صدر نے 4سے 6ہفتے میں واپس آنے کا وعدہ کیاہے‘‘تاہم وفاقی
وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے اتنی سے با ت کہنے کے لئے نصف گھنٹے کی
پریس کانفرنس کا سہارالیا اور اِس میں زیادہ تر وقت تمہیدباندھنے میں ہی
گزاردیا بہرکیف چوہدری صاحب نے اپنی اِس پریس کانفرنس میں جو کہا؟؟ اور بعد
میں اِس کے مُلکی سیاست میں کیا اور کیسے اثرات مرتب ہوں گے ؟؟ اِس کے بارے
میں یقینی طور پر ایک طرف سیاسی اور مذہبی جماعتیں ضرور خائف ہوں گیں
تووہیں دوسری جانب ایک بظاہر نظرنہ آنے والا مگر سب سے زیادہ طاقتورترین
طبقہ ضرور خوش ہوگیاہوگا اور اَب وہ یہ ضرو رسوچ رہاہوگاکہ اِس نے حکومت سے
متعلق اپنا آئندہ کا جو پلان ترتیب دے رکھاہے اِس میں آیا کہ کوئی ردوبدل
ممکن ہوسکتاہے؟؟ یا حکومت کے اِس فیصلے کے بعد بھی سب کچھ ایساہی رہے
گاجیساکہ اُس کا پلان اور منصوبہ ہے تاہم وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خا ن تو
اپنی پریس کانفرنس میں پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ’’فیصلے کہ پیچھے کسی کا
سایہ نہیں‘‘ ۔
جبکہ یہاں یہ امرکئی حوالوں سے قابلِ تسائش اور لائقِ تعریف ہے کہ اِس
معاملے کے حل کے لئے سُپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت نے جس حکمتِ
عملی کا مظاہرہ کیا ہے آج یقینا اِس سے حکومت نے نہ صرف مُلک کو ایک بڑے
دھچکے سے بچایاہے بلکہ خود کو بھی آنے والے وقتوں میں ایک بڑے اور بُرے
سیاسی نقصان سے محفوظ بنالیاہے۔
اِس میں شک نہیں کہ آج بھی پرویز مشروف کا نام ای سی ایل میں رکھنے اور
نکالنے کے حوالوں سے حکمران جماعت کے اندر خود بھی دورائے پائے جاتی ہے اور
پائی جاتی تھی مگر اِس کے باوجود بھی حکومت نے اپنی دانشمندی سے کام لیاہے
اور اپنے کلیجے پر پتھررکھ کر کئے جانے والے اِس فیصلے کے بعد پی پی پی
سمیت دیگر اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے ہونے والی تنقیدوں اور بہت سوں کی
طرف سے بلیک میلنگ کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بس مُلک میں جمہوریت اور
قانون کی بالادستی قائم رکھنے کی ایک اعلیٰ مثال قائم کردی ہے ،جس کی تعریف
کئے بغیر نہیں رہاجاسکتاہے۔
اگرچہ ، حکومت پرویزمشرف کا نام نکالنے اور اِنہیں علاج کے غرض سے بیرونِ
ملک جانے کے بعد واپس وطن آنے اور مقدمات کا سامنا کرنے کا جنرل (ر) مشرف
سے تحریری ضمانت اور وعدہ چاہتی تھی مگر پرویزمشرف تحریری وعدہ کرنے اور
ضمانت دینے کے بارے میں ہچرمچر کا مظاہرہ ضرورکرتے رہے مگرچونکہ اِنہیں (اپنی
سیاسی بیماری) کے ا (سیاسی) علاج کے لئے باہر جانالازمی ہوگیاتھاسو پرویز
مشرف نے حکومت سے مصالحت کی راہ یوں اپنائی کہ پرویز مشرف نے زبانی وعدہ
کیااور حکومت کو یقین دلایا کہ وہ اپنے علاج کے بعد وطن ضرور واپس لوٹیں گے
اور سارے معاملے پھر وہیں سے جوڑیں گے جہاں یہ چھوڑکرجارہے ہیں اِس پرتو
حکومت نے تو پرویزمشرف کے زبانی وعدے پر اعتبارکرلیا اور مشرف کے اِسی
زبانی وعدے کی بنیاد پر اِن کا نام اپنی صوابدیدپرای سی ایل سے نکال کر
مشرف کو علاج کے غرض سے دبئی روانہ ہونے کی اجازت دے دی ہے اورایک نجی ٹی
وی چینل کی اطلاعات کے مطابق جنرل (ر)پرویز مشرف دبئی پہنچ گئے ہیں جہاں
اُنہوں نے اپناطبی معائنہ منسوخ کردیاہے اوراپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردی
ہیں اور یہ بھی اطلاع ہے کہ دبئی پہنچتے ہی مشرف نے اپنی پارٹی اے پی ایم
ایل کے عہدیدروں اور کارکنان سے رابطے شروع کردیئے ہیں اوربہت تیزی سے اپنا
آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل مرتب کرناشروع کردیاہے۔
مگراَب اِس منظر اور پس منظرمیں دیکھنا یہ ہے آیا کہ پرویزمشرف اِسی حکومت
میں اپنی سیاسی بیماری کے اپنے سیاسی علاج کے بعد وطن واپس لوٹتے بھی ہیں
کہ نہیں لوٹتے ہیں ؟؟ یا کسی ایسے وقت کا انتظار کریں گے کہ جب مُلک پر
اِنہی جیسے کسی کی حکمرانی قائم ہوگی تو یہ تب پاکستان واپس آئیں گے اور
اپنی جماعت اے پی ایم ایل کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور جب کبھی مُلک میں
جنرل انتخابات ہوں گے تو یہ اُس میں کامیابی حاصل کرکے مُلک کی کوئی نہ
کوئی اہم ذمہ داری انجام دیں گے۔
آج جہاں تک مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے اور اِن کی علاج کے غرض سے
بیرون مُلک جانے کی بات ہے تو قانون میں تو یہ موجود ہے کہ کسی بھی شخص (خواہ
وہ کوئی بھی ہو ،اوراِس پر جیسے بھی جرائم کی بنیاد پر عدالتوں میں مقدمات
چل رہے ہوں ہمارے مُلکی قانون اور آئین میں اِسے علاج کے لئے بیرون ممالک
جانے کی گُنجائش موجود ہے اور یہ تو ویسے بھی مُلک کے سابق صدرہیں اِس لحاظ
سے اِنہیں اتنی اہمیت تو حاصل ہے کہ وہ اپنے علاج کے لئے بیرون ملک جائیں
اور دنیاکے کسی اچھے اور ماہر ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائیں۔ یہ ایک الگ
معاملہ ہے کہ اِنہیں جو بیمار لاحق ہے اِس کا علاج ہمارے یہاں ہوسکتاہے کہ
نہیں ، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اکثر یہ پریکٹس دیکھی گئی ہے
کہ ہماراہر بڑاآدمی اپنی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بیماری حتی ٰ کہ
منہ کے دانت اور سر کے بال اور ہاتھوں اور پیروں کے ناخن تک کو نکلوانے
اورلگوانے کے لئے بیرون ممالک کے اسپتالوں اور ماہر ڈاکٹرز کے پاس
جاناپڑتاہے۔
بہرحال، پاکستان میں تو حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان پر جب
بھی کہیں (سِول یا آمر حکومتوں ) کی جانب سے احتساب کاشکنجہ کساگیاہے تو
اِنہوں نے ہمیشہ اِس سے اپنی جان چھڑانے اور اِن سے بچنے کے لئے اپنی
بیماری کا سہارالیااور لاکھ جتن کرکے یہ لوگ راتوں رات بیرون ممالک روانہ
ہوئے اور اپنی بخشش کا راستہ ڈھونڈاہے آج اگراپنے حریف نواز شریف کی اِس
حکومت پرویزمشرف نے بھی اپنی جان بچانے اور مقدمات سے بچنے کے لئے بیماری
کا سہارالیاہے تو اِس میں بیچارے پرویز مشرف نے کیا بُراکیاہے، اور ن لیگ
کی حکومت نے ای سی ایل سے مشرف کا نام عدالتی فیصلے کے بعد اپنی صوابدید
پرنکال کر پرویز مشرف کو باہر جانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیاہے تو کونساکوئی
قابلِ اعتراض کام کیا ہے ارے، یہ تو اُس احسان کا بدلہ ہے جب اِسی پرویز
مشرف نے اپنے آمرانہ سخت ترین دورِ حکومت میں ن لیگ کے سربراہ اور مُلک کے
موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور اِن کے بھائی شہباز شریف کو بھی تو ساری
فیملی سمیت ایک طیارے کے ذریعے رات کی تاریک میں سعودی عرب جانے کی اجازت
دی تھی اور آج اگر نوازشریف نے بھی پرویز مشرف کے ساتھ ایساکچھ کردیاہے تو
کیا ہواہے ویسے بھی احسان کا بدلہ احسان ہے۔
آج شاید پی پی پی والے یہ بھول چکے ہیں کہ احسان کا بدلہ احسان ہے اور قتل
کا بدلہ قتل ہے،ن لیگ کے موجودہ اقتدار سے قبل تو پی پی پی کی ہی حکومت
تھی،اور اِس حکومت نے مصالحتوں اور سیاسی افہام وتفہیم اور سیاسی جماعتوں
سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنی پانچ سالہ مدت کیسے؟؟ پوری کی یہ
بھی سب جانتے ہیں تب پی پی پی والوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرف ہی بی بی
کا قاتل ہے کیوں پرویز مشرف کاریڈ کارپٹ بیچھا محفوظ راستہ دیااور گارڈآف
آنر پیش کرکے تُزک و احتشام سے یوں رخصت کیا جیسے کہ یہ پر پاپ سے پاک ہوں
اور اِنہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی اُس وقت پی پی پی والوں نے
پرویز مشرف کو کیوں نہیں پکڑاتھااورکیوں نہیں سخت ترین سزادی تھی تب تو
مُلک میں بلاول کے باپ آصف علی زرداری کی حکومت تھی ،اور آج جب ن لیگ کی وہ
حکومت ہے جس پر مشرف نے احسان کیا ہے آج اِسی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے
کی روشنی میں اپنے محسن سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر)پرویز مشرف کا نا م ای
سی ایل سے نکال کر باہر جانے کی اجازت دے دی ہے تو پی پی پی سمیت مُلک کی
دوسری بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتیں والے ن لیگ کے اِس عمل پر طرح طرح
کی تنقید کرتے کچھ یو ں لب کُشائی کررہے ہیں کہ’’مشرف کو فرارہونے
دیاگیاتواہم کیس ادھورے رہ جائیں گے، سابق صدر کے خلاف میری والدہ کے قتل،
غداری سمیت کئی مقدمات زیرسماعت ہیں، ن لیگ کی حکومت نے مشرف معاملے میں
عدالت کے پیچھے خود کو چھپالیاہے، ن لیگ نے نظریہ ضرورت کے تحت اور اپنی
حکومت کو بچانے کے خاطر پرویزمشرف کا نام ای سی ایل سے نکالاہے‘‘ اور ایسی
بہت سے تنقید کے زہریلے خنجر میں ڈوبے جملے بولے جارہے ہیں اور ایسالگتاہے
کہ اَب یہ سلسلہ جو چل نکلاہے یہ رکنے والانہیں ہے اِس حوالے سے بالخصوص
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹواور پی پی پی کی اعلیٰ
قیادت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے گلی کوچوں اور بازاروں کے سرگرم جیالوں
سمیت مُلک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنمااور کارکنان اپنے منہ میں32
دانتوں کے درمیان موجود چمڑے کی گز بھر لمبی زبان سے حکومت کے فیصلے کے
خلاف ایسے ناگواراور نازیبا جملے اداکرتے پھررہے ہیں کہ جیسے ن لیگ نے کوئی
کیبرہ گناہ کردیاہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے۔
حالانکہ اِن سب کو سب کچھ پتہ ہے کہ اگرآج پرویزمشرف اِس طرح مُلک سے باہر
نہ جاتے اور حکومت کسی سے نہ چاہتے ہوئے بھی مصالحت پسندی اور سوچ بچار سے
کام نہ لیتی تو اِس میں کوئی شک نہیں تھاکہ عنقریب بیچاری حکومت سمیت یہ سب
بھی (جن کی حکومت کے اِس فیصلے پر خوب زبانیں چل رہی ہیں )بہت جلد ہی اندر
ہوتے(اُمیدہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کس اندراور کدھر کی بات
کررہاہوں) اور اِن کے گرد کسی کا ایسا شکنجہ کساجاتاکہ پھر اِن کی زبانیں
تو کیا ؟ سانسیں چلنابھی بندہوجاتیں۔ |
|