تحریک آزادی کشمیر سے متعلق بہتری کے اقدامات !

جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چیئر مین محمد فاروق رحمانی کا شمار ان اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد کی کٹھن ترین صورتحال میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے قلمی اور سیاسی میدان میں سرگرم کردار ادا کیا۔محمد فاروق رحمانی1968سے 1989تک شعبہ صحافت سے بھی منسلک رہے۔رحمانی صاحب جموں و کشمیر پیپلز لیگ کے بانی چیئرمین رہے اور تحریک آزادی اور مسئلہ کشمیر سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کے سینئر رہنما محمد فاروق رحمانی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور جبر کی صورتحال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی پر خوشگوار و نا خوشگوار خبروں کا سلسلہ ہے۔ نا خوشگوار خبر یہ ہے کہ فوج اور پولیس نے نوجوانوں اور عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بھیا نک اقدامات تیز تر کئے ہیں۔ ہندوستان کو عالمی رسوائی یا داخلی لعنت و ملامت کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کشمیری آزادی سے کم سمجھوتوں اور معاہدوں کو اور اس کے ساتھ ہر پولیس کریک ڈان کو رد کرتے ہیں اور وہ ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک فوجی آپریشنوں کے دوران میں فوج اور پولیس کے خلاف سیاسی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، مردوں کے ساتھ عورتیں بھی بھر پور شرکت کے ساتھ غم و غصے کا اظہار کرتی ہیں ۔جس کا ثبوت جنوبی کشمیر، شمالی کشمیر، وسطی کشمیر اور چناب ویلی کے شہر او ر قصبوں میں ہونے والے مظاہرے اور ہڑتالیں ہیں۔ افسوس ہے کہ دنیا نے ابھی تک کشمیر میں ہندوستانی افواج کی پیدا کردہ تباہی اور انسانیت کے خلاف جنگ کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس نہیں لیا، جس کی وجہ سے کشمیریوں کا اعتماد عالمی اداروں پر اٹھتا جارہا ہے۔۔ افسوس ہے کہ فوج اور پولیس کے آپریشنوں میں بیشمار قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جن میں جنوبی کشمیر کا ایک اعلی ا تعلیم یافتہ محمد اسحاق، جو علاقے میں اپنی خداداد سائنسی صلا حیتوں کی وجہ سے نیوٹن کے لقب سے مشہور تھا، شہید ہوگیا۔ اس سے پہلے بھی باصلاحیت اور ہونہار نوجوانوں کی بڑی تعداد شہید ہوچکی ہے۔ ہندوستان کی حکومت چاہتی ہے کہ کشمیر کی مردم خیز زمین کو فوجی آپریشنوں کے ذریع سے بنجر بنایا جائے۔ اس اندوہ ناک صورت حال میں ایک خو شگوار بات یہ ہے کہ خود فا سسٹ ھندوتوا حکومت کے مظالم سے تنگ آنے والے ہندوستانیوں نے اپنے تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں میں کشمیر کے حق میں ایک زوردار آواز بلند کی ہے۔ یہ آواز جواہر لال یونیورسٹی کے استادو ں ، طلبہ اور طالبات کی ہے۔ وہ دبے ہوئے ہندوستانیوں کے لئے ملک کے اندر آزادی چاہتے ہیں، لیکن کشمیر میں عصمت دری کرنے والوں اور غارتگری کرنے والے فوجیوں کی مذمت کرتے ہیں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے نعرے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ آواز ہندوستان کے اندر ہمارے لئے فال نیک ہے اور اس کی پزیرائی اور وسعت ہماری طاقت میں اضافہ کرسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک آزادی کے لیڈر اور پارٹیاں اس تحریک کے بارے میں اپنے اپروچ، طریقہ کار اور طرز فکر کو صحیح معنی میں سیاسی اور عوامی بنا ئیں ۔ تحریک آزادی میں طالع آزماء اور منافقانہ نعرے بازی سب سے بڑی بیماری ہے، جو اس میں عود کر آرہی ہے۔ اپنے قد سے لمبا چوغہ اور اپنے پاؤں سے بڑا جوتا پہننے کی کوشش کرنا نا خوشگوار عمل ہے اور راہ حق کی خدمت نہیں۔

فاروق رحمانی صاحب نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے علاوہ چند ایسے امور بھی بیان کئے ہیں جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لئے نقصاندہ ہیں۔کشمیریوں کی مزاحمت کا ایک نیا انداز مقبوضہ کشمیر میں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ بھارتی فوجیوں کی جھڑپوں کے دوران کشمیری اپنے گھروں سے نکل کر مجاہدین کا محاصرہ کرنے والے بھارتی فوجیوں پر شدید پتھراؤ کرتے ہیں اور ایسے ہی کئی واقعات میں متعدد کشمیری پتھراؤ کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔بھارت اس بات سے بھی پریشان ہے کہ گزشتہ دو تین سال سے پڑھے لکھے کشمیری نوجوان ایک بار پھر بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کو بجا طور پر بھارتی فوج کی نگرانی میں ایک کھلی جیل سے تعبیر کیا جاتا ہے،یہ کشمیریوں کو عزم آزادی اور حوصلہ ہے کہ وہ کسی صورت جدوجہد آزادی اور بھارتی ظلم و جبر کی مزاحمت ترک کرنے کو تیار نہیں۔سوشل میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں عوامی مظاہروں کی مختلف وڈیوز میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح کشمیر کے گلی محلوں میں خواتین،بچے،لڑکے مسلح بھارتی فوجیوں کو اپنی سخت مزاحمت سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چند سال سے بھارت نے کشمیریوں کے مظاہروں کے خلاف شاٹ گن کا استعمال شروع کیا ہے جس کے چھرے انسان کے جسم میں درجنوں سوراخ کر دیتے ہیں۔مظاہروں میں اس کا نشانہ خاص طور پر نوجوان اور بچے بنتے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق ان چھروں سے زخمی ہونے والے کا علاج گولی کے زخم سے بہت زیادہ مشکل ہے اور اس سے کئی اندھے بھی ہو چکے ہیں۔اب مقبوضہ کشمیر میں عوامی مظاہروں کے خلاف خصوصی روبوٹ کے استعمال شروع کرنے کی بھی اطلاعات ہیں جن پر گن بھی نصب ہو گی۔

بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف بھرپور فوجی طاقت کے مسلسل ظالمانہ استعمال کے خلاف اب خود بھارت میں بھی آواز بلند ہو رہی ہے ،یہ آواز کمزور سہی لیکن اس حقیقت کا اظہار ہے کہ کشمیریوں کو ہمیشہ فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش نہ تو کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ اس سے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ناکام کیا جا سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان نیپال میں امور خارجہ کی سطح پر رابطے ہوئے ہیں لیکن اس میں مسئلہ کشمیر کے بجائے پٹھان کوٹ پر حملے جیسے واقعات حاوی نظر آتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی امور کے مشیران کے درمیان بھی رابطے قائم کئے گئے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتیں عشروں سے باہمی طور پر مسئلہ کشمیر کسی بھی طور پر حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور عالمی برادری کی طرف سے بھی مسئلہ کشمیر کو محض پاکستان اور بھارت کے باہمی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہوئے کشمیریوں پر مظالم کی صورتحال کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اب اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے مختلف شعبوں سے متعلق خرابیوں ،خامیوں اور کوتاہیوں کے امور کو مخاطب کرتے ہوئے بہتری کے اقدامات کئے جائیں۔یہ تاثر ختم کرنا ناگزیر ہے کہ کشمیر کاز سے متعلق کام کرنے والی تنظیموں میں مال و دولت بنانے کا’’ بول بالا‘‘ ہے۔کشمیریوں میں اس متعلق شکایات اور تشویش اب پرانی بات ہونے کو ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام تو اپنی استطاعت سے کہیں بڑھ کر بھارت جیسی بڑی طاقت کا ہر طرح سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنے عزم آزادی سے کسی طور بھی دستبردار ہونے کو آمادہ نہیں ہیں ،لیکن تحریک آزادی سے متعلق تنظیموں کا طریقہ کار ،انداز،ان کی سوچ ،’’ اپروچ‘‘،ترجیحات ،ان کے فیصلوں اور ان کے کام کرنے کے انداز سے کشمیری عوام نا تو مطمئن ہیں اور ناہی اس کو تحریک آزادی کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔کشمیر کاز سے متعلق اخلاص کم اورمادیت پرستی حاوی نظر آتی ہے۔آج کشمیری یہ پوچھتے ہیں کہ کیا کشمیریوں کا مقدر محض’’ روبوٹ‘‘ کے طرح حرکت کرنا ہی رہ گیا ہے؟
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698784 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More