شام سے روسی افواج کا انخلا ۰۰۰ کہیں کوئی جنگی سازش تو نہیں؟

کیا روس نے شام میں فوجی مداخلت کے ذریعہ صدر بشارالاسد کی پوزیشن کو مضبوط و مستحکم بنادیا ہے؟ کیا شام کے ان علاقوں پر بشارالاسد کی افواج اپوزیشن اور شدت پسند تنظیموں کو پسپا کرکے اپنے کھوئے ہوئے علاقے حاصل کرلئے ہیں؟ ستمبر 2015میں روس نے ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بشارالاسد کی درخواست پر اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا اورراتوں رات خطرناک فضائی حملے کرتے ہوئے دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیا تھا اور اب صرف چند ماہ بعد یعنی 15؍ مارچ2016سے اپنی افواج کا شام سے انخلا کئی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔

روسی صدر ولادیمیرپوتن نے اپنی فوج کے ’’مرکزی حصے‘‘ کو شام سے انخلا کا حکم دیا ہے اور اسے ایک غیر متوقع اقدام کے طور پر سمجھا جارہا ہے۔ انخلا کا عمل شروع ہونے سے قبل کہا گیا ہے کہ روس شام میں اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ روسی صدر کی جانب سے شام میں روسی افواج کے انخلا کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سوئزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں شام میں جاری پانچ سالہ خانہ جنگی کے مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات جاری ہیں ۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ روس نے ستمبر 2015میں شامی صدر بشارالاسد کی درخواست پر شام میں جاری خانہ جنگی میں اپنی کارروائی کا آغاز کیا اور خطرناک فضائی حملے کرتے ہوئے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا ان حملوں میں کتنے بے قصور افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اس کی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ۔ روس کی مداخلت سے شامی حکومت کو تقویت ملی اور اس کے بعد ـــذرائع ابلاغ کے مطابق شامی حکومتی افواج نے اپوزیشن کے ہاتھوں سے کئی علاقے دوبارہ حاصل کرلئے۔کریملین میں ایک اجلاس کے دوران روسی صدر ولادیمیرپوتن کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں وزارت دفاع اور مسلح افواج کو جو مشن سونپا گیا تھا وہ مکمل کرلیا گیا ہے‘‘۔ چنانچہ انہوں نے وزارت دفاع کو حکم جاری کیا کہ وہ 15؍ مارچ بروز منگل سے فوج کے مرکزی حصے کو عرب جمہوریہ شام سے واپس بلانا شروع کردیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ شامی صوبے لاذقیہ میں روس کے ہمیمم ایئر بیس اور بحیرۂ روم میں طرطوس میں اس کے بحری اڈے پر سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں اثاثوں کی زمین، فضاء اور سمندر سے تحفظ کیا جائے گا یعنی کسی بھی شدت پسند کارروائی اور شامی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی کارروائی کے خلاف روس مستعدی سے جواب دے گا۔ روس کی جانب سے فوجی انخلا کے اعلان کے بعد شامی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے گروپ ترجمان سلیم المصلات نے کہا کہ اگر انخلا کے اعلان پر عمل درآمد میں سنجیدگی پائی جاتی ہے تو یہ مذاکرات کے لئے مثبت ہوگا۔ادھر امریکی حکام نے بھی روس کے اس اعلان کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے ، وائٹ ہاؤز کے ترجمان ارنسٹ کے مطابق ’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روس کے اصل ارادے کیا ہیں‘‘۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما اور روسی صدر پوتن کے درمیان شام سے روسی افواج کے جزوی انخلا اور جنگی اقدامات کی مکمل روک تھام کے لئے درکار اقدامات پر بات چیت ہوئی۔ امریکی صدر کے بیان کے مطابق شام میں تشدد کے خاتمے کے لئے سیاسی تبدیلی ضروری ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سیاسی تبدیلی سے کیا مراد ہے کیونکہ عالم عرب کا اہم ملک سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے شام میں بشارالاسد کی حکومت کو بے دخل کرنے کے لئے امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک پر زور دیا جارہا تھا، سیاسی تبدیلی سے مراد بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ بشارالاسد کی حکومت کو ایک طرف ایران اور شیعہ ملیشیاء کا تعاون حاصل ہے تو دوسری جانب ستمبر 2015سے روس کی تائید نے اسے مزید تقویت پہنچائی ہے۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران شام میں لگ بھگ تین لاکھ افراد خانہ جنگی کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوچکے ہیں جن میں معصوم بچے، خواتین اور ضعیف حضرات شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں پہنچتی ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد بتائی جارہی ہے جبکہ لاکھوں بچے تعلیم و تربیت سے محروم ہوچکے ہیں، پناہ گزیں کیمپوں کابُرا حال ہے، اشیائے خوردو نوش کے علاوہ ادویات کی شدید قلت کی خبریں بھی ہیں۔ شام کی خانہ جنگی اگر ختم بھی ہوتی ہیتو اس کے اثرات کئی سال تک جاری رہیں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ جنیوا میں جاری مذاکرات کس نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ شام میں روس کی مداخلت ، امریکہ کے لئے بھی چیالنج سے کم نہیں۔ امریکہ پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا شدید ترین دباؤ بھی بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ نہ کرسکا کیونکہ روس کی جانب سے بشارالاسد کی تائید و حمایت امریکہ کو بھی خاموش رہنے پر مجبور کردیا۔شام کے حالات کو دیکھتے ہوئے سمجھا جارہا تھا کہ دو بڑی طاقتیں یعنی امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان ناخوشگوار تعلقات کی بناء پر تیسری عالمی جنگ کا آغاز عالم عرب سے نہ ہوجائے ۔ اب جبکہ روس کی جانب سے جزوی فوجی انخلا امریکہ اور دیگر ممالک کو سوچنے پر مجبور پر کردیا ہے کہ روس کے کیا مقاصد ہے اور وہ مستقبل میں کیا لائحہ عمل طے کرتا ہے ، کہیں اس میں کوئی جنگی سازش تو نہیں؟ داعش اور دیگر تنظیموں کا خاتمہ اتنا آسان نہیں لہذا ایک نئی جنگی حکمت عملی کے ذریعہ دشمن کو گھیرنے کا کہیں ایک حربہ تو نہیں؟ خیر داعش اور دیگر اپوزیشن جماعتیں و تنظیمیں روسی افواج کے انخلا کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا البتہ بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ شاید اتنا جلد ممکن نہیں۔اگر جنیوا میں جاری مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو دوبارہ جنگ ہی متبادل تصور کیا جارہا ہے۔

ایران کیلئے امریکہ اور سعودی تعلقات میں بگاڑ کے آثار
شام، عراق، یمن نے مشرقِ وسطی کے حالات کو شدید خراب کردیا ہے اور مستقبل میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر مزید حالات بگڑسکتے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جس طرح سعودی عرب کا دباؤ امریکہ پر ہے اسی طرح ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور مستقبل میں اس میں کوئی بہتری کے آثار دکھائی نہیں بلکہ مزید ابتر ہونے کے اندیشے کو رد نہیں کیاجاسکتا۔ ایران کی جانب سے شام میں بشارالاسد کی افواج اور یمن میں باغی حوثیوں کی مدد نے ان ممالک میں سنیوں کی ہلاکت کا سبب بنا ہے۔ شیعہ ملیشیاء کو ایرانی تائید و حمایت اور فوجی امداد نے ان ممالک میں مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قاتل بنادیا ہے۔ عراق ، افغانستان میں امریکہ نے مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے جس طرح الزامات عائد کرکے خطرناک فضائی حملے کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند روز میں ان عظیم اور تاریخی شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ۔ اور آج امریکہ چاہتا ہیکہ سعودی عرب ، ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں جسے سعودی حکمراں نہیں چاہتے۔ مشرقِ وسطی کے حالات کے پیشِ نظر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے جس طرح اپنی حفاظت کیلئے کروڑوں ڈالرز کے ہتھیار امریکی اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے حاصل کیا ۔ ان ہتھیاروں کی ترسیل امریکہ اور دیگر ممالک کے لئے نعمت سے کم نہیں کیونکہ انکے اکسپائر ہونے والے ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے سے قبل کروڑوں ڈالز حاصل کرلئے ۔ اور اب امریکی صدر کا بیان سعودی عرب کیلئے ایک ایسا طمانچہ ہے جس کے بعد سعودی عرب امریکہ سے دوستی ختم کردینا تھا لیکن اس کے کیا مجبوریاں ہیں جس کا امریکہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اس سلسلہ میں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے امریکی صدر بارک اوباما کے بیان پر شدید ردِ عمل کا اظہارکیا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ سعودی امریکہ کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ہوا دیتا رہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب قدیم اتحادی ممالک ہیں تاہم امریکی کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے پر حمایت سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ پرنس ترکی الفیصل نے اپنے بیان میں امریکہ سے کہا ہے کہ ’’آپ ہم پر شام، یمن اور عراق میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا الزام لگا رہے ہیں، آپ نے ہم سے ایران کے ساتھ اپنی دنیا بانٹنے کیلئے کہہ کر ہمارے زخم تازہ کردیئے ہیں، ایران جسے آپ خود دہشت گردی کا حامی ملک کہتے ہیں۔‘‘پرنس ترکی الفیصل نے مزید کہاکہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ 80سالہ دوستی کو چھوڑ کر ایسی ایرانی قیادت کی جانب بڑھ رہا ہے جو ہمیشہ امریکہ کو سب سے بڑا دشمن کہتی آئی ہے اور مسلم اور عرب دنیا میں فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کی مسلسل مالی مدد کے ساتھ انہیں اسلحہ فراہم کرتی رہی ہے۔ پرنس ترکی نے ان خیالات کا اظہار بارک اوباما کی جانب سے’ دی ایٹلانٹک‘ جریدے کو دیئے گئے ایک بیان کے بعد کیا۔ بارک اوباما نے دی ایٹلانٹک کو دیئے گئے بیان میں کہا تھا کہ ’’سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی سے مفت میں فائدے اٹھاتا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب پر مذہبی عدم برداشت بڑھانے اور ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے انکار کرنے پر بھی تنقید کی۔ اوباما کے اس بیان پر پرنس ترکی الفیصل نے کہا کہ ’’نہیں مسٹر اوباما ہم مفت میں فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ امریکیوں کو اپنا اتحادی سمجھیں گے کیونکہ ہم ایسے ہی ہیں۔صدر امریکہ کا کہنا تھا کہ ایران سعودی عرب کے درمیان کشیدگی سے شام، عراق اور یمن میں پراکسی وار کو بڑھاوا ملا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں کے ساتھ ساتھ ایرانیوں کو بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ قیام امن کیلئے کوئی موثر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ ایک طرف ایران سے تعلقات بہتر بنارہا ہے تو دوسری جانب سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ عراق، افغانستان کے بعد اب سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو نشانے پر رکھا ہے۰۰۰

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے دہشت گردی کی ازسرنو تعریف پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس میں ان کو بھی شامل کیا جاسکے جو ایسی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک بندوں بردار یا بم رکھنے والے دہشت گرد اور ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا جو اپنا عہدہ اور قلم دہشت گردوں کے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ ان افراد میں صحافی، رکن پارلیمنٹ یا کوئی سرگرم کارکن بھی ہوسکتا ہے۔ رجب طیب اردوغان ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں 13؍ مارچ کی شام ہونے والے دھماکے کے بعد کیا۔ جس میں 37افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.