وشمہ خان وشمہ 25 فروری 1988 کو ملیر کینٹ
، کراچی میں پیدا ہوئی ۔۔ وہ دس ماہ کی تھی کہ والدین ایک حادثے میں وفات
پا گئے ۔۔ سات سال تک نانی نے پرورش کی اور اس کے بعد سے ان کی پھوپھی کے
پاس پاکستان سے باہر چلی گی وشمہ کو کتابوں اور قومی زبان سے جنون کی حد تک
لگاؤ ہے ۔۔ جب ان کے ساتھ کی لڑکیاں اپنا جیب خرچ میک اپ خرچ کرتی تھیں تو
وہ اپنی تمام رقم کتابوں پر خرچ کر رہی ہوتی تھی ۔۔ بچپن میں کتابوں پر
اپنا نام لکھ کر اس میں رنگ بھرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ۔۔ ہر فن مولا
ہے وشمہ کی تربیت ایک سپائی کی طرح ہوئی وقت،ڈیسپلین،رولز،
تعلمی سلسلہ؛!!!! پانچویں سے ٓآٹھیویں تک پاکستان سے باہر پڑھی ۔۔
۱۔۔۔ میٹرک ایورگرین اسکول ملیر کینٹ سے کی۔۔
۲۔۔۔انٹرکا امحتان سعودیہ گلز کالج سے حاصل کی۔۔۔
۳۔۔۔بی اے جامشورہ یونیورسٹی سے کیا۔۔۔۔۔۔
کتابوں کا بہت شوق ہے اسی لیے لائبری کو دوست سمجھتی ہےلیکچر سننا ان سے
افادہ لینا پسند مشغلہ ہے
بچپن میں کہانیاں پڑھنا لکھنے کا بہت شوق رہا
ٹین ایج میں دوستو کے ساتھ شاعری کا شوق پڑھ گیا
محسن نقوی سے بہت متاثر ہوئی اور کب کیسے کہاں کیا ہوا بس ہوتا ہی چلا گیا
گھر کا ماحول بہت سخت رہا اجازت کیا سوچنا بھی مشکل تھا
مگر چپکے چپکے اپنے شوق کو جاری رکھا بہت حوصلے کی بات تھی
بہت سزائیں ملی مگر پیچے نہیں ہٹی اپنا شوق اور ذوق کو کتاب کی شکل میں
گھروالوں کے لیے ۲۰۱۲ میں ایک سرپرائز تھا
ان کے نزدیک پہلی غلطی تھی سزا کے طور پر ماسکو چھوڑنا پڑھا
رومانیہ پہنچ کر مجھے ایسا لگا اب شاعری کیا کچھ بھی نہیں ہوگا
وہا ں کی ایمولینس کی ٓٓاوازیں میرے دل ودماغ میں لگتی تھی
پھر اچانک محسن نقوی کے خیال نے ایک ٓاواز نے ہمت بڑھائی یہ شعر طاری ہوا
سنو وشمہ اگر جینا پڑا تم سے جدا ہوکر
تیری خاطر رہوں گا میں زمانے سے خفا ہوکر
ادب کے گلستاں کی بلبل بن
تمنا ہے میری یہ میری دعا ہے
اس طرح جان محسن کا دوسرا سرپرائز گھر والوں کو ملا
اس طرح پھر سزا ملی اور میں نیویارک ٓ چلی گئ
سنا تھا یا لوگ تبدیل ہوجاتے ہے بہت سی کہانیاں سنی
پھر مجھے ہائی اسکول کے امحتان میں بیھٹنا پڑاکہ بہت کچھ سیکھ جاوگی دراصل
شاعری سے دور کرنا ایک پلان تھا
لائبری جوائن کی
وہاں بھی ساری لائبریوں میں میں اردو کی کوئی کتابیں نہ پا سکی
یوں وہاں سے بھی میں نے ہمت پکڑی صاحب اور میں کتاب لےآئی۔
اب چونکہ ملایشیا میں ہوں یہاں عکس وشمہ پر کام کر رہی ہوں
فرسودہ رواج سے میں لپٹی ایسی وشمہ ہوں میں نے اپنی زندگی
ڈونیٹ کردی گھر کے ان لوگوں کے لیے جو ہینٹی کیپ ہے
جیتے تو سب ہے اپنے لیے لیکن دوسروں کے لیے جینا چاہئے
محبت سب سے ہوتی ہے مگر عشق ایک سے ایک ٓآسمان والے سے دوسرازمین سے
میں وہی لکھتی ہوں جو میرا دل کرتا ہے
شاعری بولتی ہے
میرا پسندیدہ مشغلہ؛ شاعری اور کوننگ
میرا اسٹار حوت
مجھے بلیاں بہت پسند ہیں مجھے پرندے بہت پسند ہیں
میرا پہلا شعری مجموعی ’’ سرگوشیاں ‘‘ 2012 میں لاہور سے شائع ہوا دوسرا
مجموعہ ’’ جان محسن 2013--کراچی سے-- --تیسرا مجموعہ--- صاحب اور میں
2015----چھوتھا مجموعہ—عکس وشمہ ۲۰۱۶اسی سال آپ کے ہاتھوں میں ہوگا
میں بھی وہی لکھتی ہوں جو میرا دل کہتا ہے
میرے چند اشعار؛!!!!!
رہِ الفت کے سفیروں میں مرا ذکر تو ہے
تری راہوں کے فقیروں میں مرا ذکر تو ہے
کب یہ حالات لے جاتے ہیں ترے در پہ مجھے
ترے ہاتھوں کی لکیروں میں مرا ذکر تو ہے
بتاو ں کس طرح تم کو ،وطن کا حال مت پوچھو
قفس میں رہنے والے سے چمن کا حال مت پوچھو
کٹے ہوں جس کے بال و پر کبھی ایسے پرندے سے
بھلے سب پوچھ لو لیکن گگن کا حال مت پوچھو
اک شخص کے پیچھے یوں "دوانہ" نہیں ہونا-
تم ٹھہرو ابھی شہر روانہ نہیں ہونا
یہ آئینہ توڑا ہے اسی سوچ کے پیچھے
اب اپنی ہی نظروں کا نشانہ نہیں ہونا
وشمہ میں کیا کروں ترے حزن و ملال سے
رہتی ہے جنگ اپنے ہی ذہہن خیال سے
جب تیرا کرب میری نگاہوں میں بس گیا
اب واسظہ نہیں ہے کسی ماہ و سال سے
اب نہیں ہے حوصلہ میرے وجودِ خاک میں
بے بسی پھر آج چہرے سے نمایاں ہوگئی
یاد وہ آتی رہی عہدِ وفا کی داستاں
جب دیا بجھنے لگا تھا میں فروزاں ہو گئی
میں نے تو محبت میں کئی نفل پڑھے ہیں
اندازِ وفا دیکھ تمہارا ہی الگ ہے
میں اپنی کسی جیت کی طالب بھی نہیں تھی
یہ عشق مگر جیت کے ہارا ہی الگ ہے
پلکوں پہ ہیں آباد مرے خواب جذیرے
قسمت کی لکیروں میں لکھا کچھ بھی نہیں ہے
خالی مرے ہاتھوں میں یہ تاثیر بہت ہے
ان پیار کی پیاسی ہوئی آنکھوں میں جکڑ لو
اک تیری محبت کی یہ زنجیر بہت ہے
حالات یہ گر تجھ کو اگر میرا بنا دیں
تجھ رانجھے کو یہ پیار کی اک ہیر بہت ہے
تو نے پلٹ کے دیکھا نہ ہی زندگی نے پھر
میرا جہان لٹ گیا ہے جب سے پیار میں
پھیلے ہیں اس قدر تری یادوں کے سلسلے
مت چھیڑ مجھ کو آج کہ میں ہوں خمار میں
اب مطمئن ہے میرے بھی آنگن میں مفلسی
کچھ خواہشوں کا جسم سے دھبہ اتار کر
وہ رفتہ رفتہ اپنا ہی رستہ بدل گیا
بھیجا تھا جس نےپیار کا نقشہ اتار کر
چاندی اگنے لگی ہے بالوں میں
اک تو سونے کی اب ڈلی لکھ دے
کامیابی جھکے گی قدموں میں
تُو بھی وشمہ علی علی لکھ دے |