ایم ایم عالم .......ہیرو کبھی نہیں مرتے

میں 17 مارچ 2016ء کو ائیر وائس مارشل (ر)فاروق عمر صاحب کے گھر میں ان کا انٹرویو کررہا تھا ۔ اچانک ان کے موبائل پر گھنٹیاں بجنے لگیں ۔ابھی وہ ایک ٹی وی چینل سے بات ختم کرتے تو کوئی دوسرے چینل کے پروڈیوسر لائن پر ہوتے ۔ میں نے حیرت انگیز لہجے میں پوچھا فاروق صاحب آج اخبارات اور ٹی وی چینلز والے آپ کے تعاقب میں کیوں ہیں ۔پاک فضائیہ سے ریٹائر ہوئے آپکو چوبیس سال ہوچکے ہیں ۔آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ پریس والے آپ کا تعاقب کررہے ہیں ۔ انہوں نے نہایت دھیمے لہجے میں بتایا کہ 18 مارچ کو ایم ایم عالم کی تیسری برسی ہے ۔ میں چونکہ ایم ایم عالم کے ساتھ کئی فضائی معرکوں میں شریک رہا ہوں اور پاکستان ائیرفورس میں میرا کا فی وقت ایم ایم عالم کے ساتھ گزرا ہے اس لیے اخبارات اور ٹی وی چینلز والے مجھ سے ایم ایم عالم کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ میں خود بھی ایم ایم عالم کا بہت بڑا مداح ہوں پھر بھی میں ان کی یوم وفات سے لاعلم تھا ۔ لیکن مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ اگر میں ایم ایم عالم کے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کرسکا تو کم ازکم ان کے ساتھی ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کے ساتھ بات کرنے کا اعزاز تو مجھے حاصل ہورہا ہے ۔ بات چونکہ ایم ایم عالم کی ہورہی ہے اس لیے فاروق عمر صاحب کی شخصیت اور دفاع پاکستان کے حوالے سے ان کے کردار پر پھر کبھی لکھوں گا کیونکہ وہ بھی ایم ایم عالم جیسی خوبیوں کے مالک ایک عظیم انسان ہیں۔ بہرکیف ایم ایم عالم کو ہم سے جدا ہوئے تین سال ہوچکے ہیں ۔ تین سال پہلے جب وہ کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے تو میں نے اپنے اردگرد بیٹھے نوجوانوں سے پوچھا کیا آپ ایم ایم عالم کو جانتے ہیں تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کسی ایک نے بھی ہاں نہیں کی بلکہ سب نے یہی کہا کہ ہم ایم ایم عالم روڈ کو تو جانتے ہیں لیکن ایم ایم عالم کو نہیں جانتے ۔یہ کس قدردکھ کی بات ہے کہ ہماری موجود ہ نسل ایم ایم عالم کو ہی نہیں جانتی ۔حالانکہ وہ ایک ایسا عظیم فضائی سرفروش ہے جس کے ذکر کے بغیر پاک فضائیہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں جو اپنے ہیروز کو فراموش کردیتی ہیں ۔ اس لیے ہمیں عظیم فضائی سروش ایم ایم عالم کے کارناموں سے موجود ہ اور آنے والی نسلوں کو آراستہ کرنا ہوگا اگر ہوسکے تو تعلیمی نصاب کا حصہ بھی بنانا چاہیئے۔ ایم ایم عالم پاک فضائیہ کے وہ عظیم فرزندہ ہیں جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں صر ف ایک منٹ میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیاروں کو گرا کر ایک ایسا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا جو پینتالیس سال بعد بھی ٹوٹ نہیں سکا ۔ مجموعی طور پر انہوں نے 9 جنگی طیارے گراکر بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی تھی ۔ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 ء کو ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدین کا تعلق بہارسے تھا ۔ جب بھی انہیں کوئی بہاری کہہ کر پکارتا تو وہ جواب دیتے کہ میں صرف اور صرف پاکستانی ہوں اور پاکستان ہی میرا وطن ہے ۔ انہوں نے ڈھاکہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔1952ء میں وہ پاک فضائیہ کا حصہ بنے ۔ 2 اکتوبر 1953ء انہیں کمیشن ملا ۔ اس کے باوجود کہ والدین انہیں سی ایس پی افسر بنانا چاہتے تھے لیکن ایم ایم عالم فائٹر پائلٹ بن گئے ۔ چنانچہ پاک فضائیہ میں ان کی شمولیت والدین کی خواہش کے برعکس تھی ۔ یہ وہ عظیم پاکستانی مجاہد تھا جس نے اپنی شادی کو کشمیر کی آزادی سے منسوب کررکھا تھا جب بھی دوست احباب انہیں شادی کے لیے مجبور کرتے تو وہ مسکراتے ہوئے یہی جواب دیتے کہ جس دن کشمیر آزاد ہوگا اسی دن میں شادی کرلو ں گا ۔ وہ اپنے دل میں شہادت کی تمنا رکھتے تھے ۔ انہوں نے نہ صرف پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے بھارتی فضائیہ پر بڑھ چڑھ کر حملے کیے تاکہ شہادت کامرتبہ حاصل کیاجاسکے بلکہ انہیں برادر اسلامی ملک شام کی فضائیہ کو تربیت دینے کے لیے بھی دمشق بھیجا گیا وہاں ایم ایم عالم کو ایک دیو مالائی کردار کے طور پر جانا اور پہچانا جاتاتھا ۔ جب بھی اسرائیلی پائلٹوں کو ایم ایم عالم کی آمد کی خبر ہوتی تو وہ بغیر حملہ کیے ہی واپس لوٹ جاتے ۔ 1973کی عرب اسرائیل جنگ میں شامی پائلٹوں نے جس بہادری سے اسرائیل کے فضائی حملوں کا مقابلہ کیا وہ ایم ایم عالم کے ہی تربیت یافتہ تھے ۔ شہادت انہیں پاک عرب جنگ میں بھی نصیب نہ ہوئی ۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد مجاہد کا روپ اختیار کیا اور وادی کشمیر میں چلے گئے ۔ شہادت انہیں وہاں بھی میسر نہ آئی ۔ جن دنوں سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کررکھی تھی تو ایم ایم عالم ایک مجاہد کا روپ اختیار کرکے افغانستان جا پہنچے اور وہاں نہ جانے کتنے سال مصروف جنگ رہے ۔ مرتبہ شہادت انہیں وہاں بھی نہ ملا ۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ محفوظ ہے کہ حضرت خالد بن ولیدبہت علیل ہوئے توان کی عیادت کے لیے لوگوں کا تانتا بندھ گیا سب آپ ؓ کی بہادری کی تعریفیں کررہے تھے۔ آپ ؓ نے فرمایا مجھ سے تمام فتوحات لے لو لیکن شہادت کی موت دے دو ۔ قدرت نے یہی معاملہ ایم ایم عالم کے ساتھ روا رکھا ۔وہ شہادت کی تلاش میں دشمن کی صفوں میں بڑھ چڑھ کر حملہ کرتے رہے لیکن شہادت انہیں نہ مل سکی ۔ اس کے باوجود کہ وہ 18 مارچ 2013ء کو کراچی کے ہسپتال میں انتقال کرچکے ہیں لیکن بھارتی پائلٹوں کی مائیں اب بھی ایم ایم عالم کا نام لے کر انہیں ڈراتی ہیں ۔ بے شک وہ پاکستان کا ایک عظیم ہیرو تھا اور ہیرو کبھی نہیں مرتے بلکہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.