ڈاکٹرانور سدید روشن راہوں کے مسافر ہوگئے
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
عالی جیؒ کا اپنے رب کے حضور پیش ہونا،کمال
احمد رضوی صاحبؒ کا بھی عدمِ آباد روانہ ہونا۔ بچوں کے عظیم ادیب جناب
اشتیاق احمدؒ کا بھی روشن راہوں کا مسافر بن جانا۔ انتہائی عظیم شخصیت جناب
جسٹس امیر عالم خان کا بھی اُٹھ جانا ہمارئے معاشرئے کے لیے بہت بڑئے
نقصانات حالیہ دنوں میں ہوئے۔ عظیم سماجی شخصیت جناب عطا المصطفیٰ نوریؒ کا
رخصت سفر باندھنا، قحط الرجال کے دور میں اِن ہستیوں کو زندگی سے منہ موڑنا
درحقیقت ہم لوگوں کے لیے امتحان کا سبب بنتا جارہا ہے کہ ہے کوئی اُن کی
تقلید کرنے والا۔جناب انتظار حسین کے بعد جناب ڈاکٹر انور سدید جیسی عظیم
شخصیت جو کہ کسی تعارف کی محتاج نہیں کا دُنیائے فانی کو الوداع کہنا یقینی
طور پر پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سانحہ ہے۔ عالم کی موت جہان کی
موت تصور کی جاتی ہے موت مومن کے لیے تحفہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ بیان کی گئی
ہے کہ موت مومن کی اپنے رب سے ملاقات کا سبب ہے۔اِس دُنیا کو مردار سے بھی
گھٹیا شے قرار دیا گیا ہے۔اور اِس دنیا کی طلب کرنے والوں کوگدھ سے تشبیہ
دی گئی ہے۔ کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی نبی پاکﷺ کی ہے۔ اور اگر موت
آنے سے انسان مٹی ہوجاتا اور آخرت کی زندگی کا کوئی اتا پتہ نہ ہوتا تو پھر
کائنات بننے کا عمل ہی لایعنی ہوجاتا۔ اور ہر نفس نے موت کا مزا چھکنا ہے
کا نظریہ اپنی اہمیت کھو دیتا اور کائنات کی سب سے افضل ترین ہستی نبی پاکﷺ
کی ہے وہ موت کا مزہ نہ چھکتی۔موت کے بعد والی زندگی عالم برزخ کی زندگی ہی
حقیقی زندگی ہے۔ زندگی وہی قرار پاتی ہے جو کہ موجود ہو۔زندہ ہو۔ اِس جہاں
کی زندگی میں تو دیرپائی ہی نہیں ۔دیرپائی تو اِس جہان سے منتقل ہو کر اگلے
جہان میں جانے کے بعد والی زندگی میں ہے۔اِس لیے مومن کی اِس دنیا میں موت
عارضی ہے اور زندگی بھی عارضی ہے اور ہمیش رہنے والی زندگی ہی آخرت میں
مومن کی منتظر ہے۔ بندئے نے منتقل ہوجانا ہے اِس جہاں سے اگلے جہان میں ۔یہ
چیز تھی کہاں کہاں ڈال دی گئی، بوڑھے بدن میں روح جواں ڈال دی گئی، اردو
ادب کے مشہور نقاد صحافی، شاعر، ادیب محمد انوار الدین جن کو لوگ انور سدید
کے نام سے جانتے ہیں آج سرگودھا میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ 4 دسمبر
1928 کو قصبہ میانی بھلوال سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ افسانہ، تنقید، انشائیہ،
خاکہ، ادارت، شاعری، تبصرہ، اَدبی صحافت، جائزہ نویسی، شخصیت نگاری جتنی
بھی اَدب کی معلوم جہات و اصناف ہیں، اگر کسی نابغہ عصر ہستی نے سب میں اور
سب سے زیادہ تاریخ ساز، بے مثال اور یادگار کارکردگی اور تخلیقی سطح پر
اظہار کیا ہے تو وہ صرف اور صرف بابائے اَدب ڈاکٹر انور سدید کی ذات باصفات
ہے - شاہینوں کے شہر سرگودہا کے ایک اور عظیم سپوت ڈاکٹر انور سدید روشن
راہوں کے راہی بن کر اپنے خالق کے حضور پیش ہوگئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا
اور ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 1944ء میں ایف ایس سی کے لیے اسلامیہ کالج
لاہورمیں داخلہ لیا لیکن تحریک پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے امتحان نہ
دے سکے۔ گورنمنٹ انجینئرنگ سکول منڈی بہاؤالدین سے سول انجینئرنگ کا ڈپلوما
اوّل درجہ اوّل میں گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کیا اور محکمہ آبپاشی پنجاب میں
ملازمت اختیار کی، ڈھاکہ سے بی ایس سی سٹیڈرز کا امتحان اے۔ایم۔ آئی۔ ای
پاس کیا، پہلے ایس ڈی او پھر ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی حاصل کی،
دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہوا تو سپرنٹنڈنگ انجینئر کے گریڈ میں داخل ہوچکا
تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عملی صحافت میں قدم رکھا، قومی ڈائجسٹ، زندگی،
روزنامہ خبریں کے بعد روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ رہے۔ پانچ سال قبل
ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تو جناب مجید نظامی نے فرمایا کہ صحافی اور اَدیب
کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور زندگی کے آخری لمحے تک لکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر
اُنھوں نے اپنے عظیم ادارے کا ساتھ وابستہ رکھا اور گھر پر کام کرنے کے لیے
نیا پیکج دے دیا۔ دریں اثناء میں نے ایم اے تک کے امتحانات پرائیویٹ حیثیت
میں پاس کیے اور مقالہ اُردو اَدب کی تحریکیں لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی،
اس مقالے کے داخلی نگران ڈاکٹر وزیر آغا تھے جبکہ ممتحن میں ڈاکٹر شمس
الّدین صدیقی اور ڈاکٹر سید عبداﷲ تھے۔اصل نام: محمد انوارالدین قلمی نام:
انور سدید تھا۔کالم نگاری: روزنامہ مشرق لاہور ہفتہ وار اَدبی کالم سدیدیات
1989ء تا 1999ء۔ روزنامہ جسارت لاہور ہفتہ وار اَدبی کالم دیدوبازدید 1983ء
تا 1990ء۔ ہفت روزہ زندگی لاہور حالات جہاں کا کالم عالم تمام 1991ء تا
1995ء۔ روزنامہ حیرت کراچی ہفتہ وار اَدبی کالم سدیدیات 1985ء تا 1989ء۔
ماہنامہ قومی زبان کراچی ماہانہ کالم کچھ وقت ہندوستانی کتابوں کے ساتھ
1982تاحال۔ روزنامہ خبریں لاہور کالم گفتنی 1995ء تا 1998ء۔ روزنامہ نوائے
وقت گفتنی 1999ء تا دم حیات۔انگریزی کالم نگاری:پاکستان ٹائمز لاہور ہفتہ
وار اَدبی کالم 1993ء تا 1995ء۔ دی اسٹیٹس مین کراچی:ہفتہ وار اَدبی کالم
1986ء تا 1990ء۔اعزازات: کتاب اقبال کے کلاسیکی نقوش رائٹرز گلڈایوارڈ داؤ
اَدبی انعام۔ مقالہ اُردو اَدب میں حج ناموں کی روایت نقوش۔بے شمار کتابیں
تخلیق کیں۔ اتنی بڑی شخصیت کے اُٹھ جانا یقینی طور پر بہت بڑا نقصان ہے۔ اﷲ
پاک ڈاکٹر انور سدید صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔یقینی
طور عالم کی موت عالم کی موت ہے۔ |
|