آج ان تاریخی گھڑیوں کو گزرے76سال ہو گئے
جب لاہور کے اقبال پارک میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن
حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔انہوں نے عہد و پیمان کی اس شمع کو اپنے خون سے
روشن کرکے اس وقت تک جلائے رکھا جب تک آزادی کی منزل حاصل نہ کرلی۔خواب سے
تعبیر تک کا یہ سفر بڑا کٹھن اور صبر آزماتھا۔انہوں نے نہ صرف انگریزوں کے
ظلم و جبر کا مقابلہ کیا بلکہ ہندوؤں کی سازشوں اور مکاریوں کا بھی خوب
مقابلہ کیا۔
23 مارچ 1940ء کو لاہو کے منٹو پارک میں قائد اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں
مولوی فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی ، جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے
نام سے مشہور ہوئی۔ چوہدری خلیق الرحمان مولانا ظفر علی خاں،سردار اورنگ
زیب خان ،سر حاجی عبداﷲ ہارون،نوا ب اسمٰعیل خان ،قاضی محمد عیٰسی نے بھی
اس قرارداد کی بھرپور تائید کی۔اس قرارداد کے بعد تحریک پاکستان اپنے زور
شور سے شروع ہوگئی ۔ 23 مارچ 1940ء مسلمانان برّصغیر کی
تاریخ،تدبیر،تقدیراور قسمت کا ایک سنگ میل ہے،لاہور کے منٹو پارک میں
مسلمانان ہند کو اپنے نشان منزل نظر آنے لگے،اسلامیان ہند کا لہو گرم تو
تھا ہی،اس تاریخی قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعدنظریہ پاکستان کو حقیقت
کا روپ دینے والی ہر راہ میں آرزؤ ں کے دیپ روشن ہونے لگے۔قائد اعظم محمد
علی جناح نے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے قوم پرست مسلمان علماء کا بھی
مقابلہ کیا جو قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ایسے ہی حالات کی طرف علامہ محمد
اقبال نے اشارہ کیا تھا:
ملا کو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
جو قدم مسلمانان ہند اٹھانے جارہے تھے، وقت کے اعتبار سے وہ قدم اٹھانا
اتنا آسان ہرگز نہ تھا۔ کیونکہ ایک طرف انگریز اپنے خلاف ایک طویل جدوجہد
کے بعد مسلمانان ہند کے خون پینے کی متمنی تھے تو دوسری طرف ہندو اپنی سفاک
اور مکارانہ فطرت کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے غلام بنانے کی خواہش
دلوں میں رکھتے تھے۔
مسلمانان ہند کے عزم و استقامت اور غیر متزلزل ایمان کا نتیجہ تھا کہ وہ
کسی بھی ممکنہ خطرے کی پرواہ کیے بغیر نہایت جوش و جذبے کے ساتھ اس منزل کی
جانب بڑھ رہے تھے جسکا نام پاکستان تھا۔ مسلمان رہنماؤں نے یہ فیصلہ کرلیا
کہ اب ہم بحیثیت قوم ہندوؤں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے، بلکہ ہم اپنے لیے
ایک الگ ملک جو اسلامی اصولوں پر قائم ہو ،لے کر رہیں گے۔23مارچ 1940کو
لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد پاکستان کے قیام کی کوششوں میں
تیزی آئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے بر صغیر میں پاکستان کے قیام کے
مطالبے کو دوام بخشا ہر طرف ایک ہی نعرہ بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں
گے پاکستان گھونج رہا تھا۔ تو پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح نہایت ہی
قلیل عرصے میں مسلمان اپنے لیے ایک الگ ملک لینے میں کامیاب ہوئے۔
ہم ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ کبھی ہم نے غور
کیا ہے کہ آخر کیوں ہم اس دن کو مناتے ہیں؟ کیا گھر پر پاکستان کا پرچم لگا
کر، فوجی پریڈ دیکھ کر اور دفتر سے چھٹی لے کر اس دن کا حق ادا ہوجاتا ہے؟
ہر گز نہیں۔
قراردادپاکستان کے اغراض و مقاصد اور تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس مقصد
کی خاطر ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا، جہاں پر مذہب، مسلک، برادری اور علاقے
کی بنیاد پر کسی سے کوئی برا سلوک نہ ہو۔
آئیے تجدید عہد کریں کہ پاکستان کو اپنے قائد کے دیے ہوئے راہنما اصولوں کی
روشنی میں چلانے کی کوشش کریں گے اور صحیح معنوں میں ایک فلاحی مملکت
بنائیں گے۔آپس کے اختلافات بھلا کر پہلے پاکستانی اور بعد میں پنجابی،
سندھی، بلوچی اور پٹھان ہونے کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ہم اپنی آنے والی
نسلوں کو ایک محفوظ اور روشن مستقبل دینے کے لئے جدوجہد کریں گے، تاکہ وہ
باقی اقوام سے ترقی کی دوڑ میں بھی مسابقت کریں۔
آج جب پاکستان پھر مشکلات کی ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ دشمن کی سازشیں
عروج پر ہیں وہ پاکستان کو تباہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ دہشت گردی کا
عفریت ہمارے وجود کو نگلتا جارہا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں
فرقہ واریت اورصوبائیت میں الجھایا جارہا ہے۔ہمارا دشمن ہمارے قومی اتحاد
کو پارہ پارہ کرنے کے لئے معصوم ذہنوں میں زہر گھول کر انہیں اپنے بھائیوں
سے ہی دست وگریبان کروا کر ہماری حرمت کو پامال ، ہماری آزادی کو یرغمال
بنا لینا چاہتا ہے۔آئیے 23مارچ کے دن یہ عہد کریں کہ دشمن ِوطن کو منہ توڑ
جواب دیں گے اورغدار ِوطن کو ختم کرکے یک جان ہونے کا ثبوت دیں گے۔ اپنے
قائد محمد علی جناح کے دیئے ہوئے اس وطن عزیز پاکستان کی ہر حال میں حفاظت
کریں گے اور اس کی ترقی وخوشحالی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کریں گے۔ |