۲۳ مارچ یوم پاکستان ۲۰۱۶ء
(Mir Afsar Aman, Karachi)
جب سے پاکستان بنا ہے ہر سال ۲۳ مارچ آتا
ہے ۔وقت کی حکومتیں اور پاکستانی قوم اس دن کو یوم پاکستان کے طور پر مناتے
ہیں۔ دنیا کی مروجہ رسم کے مطابق توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔مسلمانوں کے
دینوی روایات کے مطابق مساجد میں پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے اﷲ تعالیٰ
سے دعائیں مانگی جاتیں ہیں۔ اس خوشی کے موقعہ پر حکمران کچھ قیدیوں کو رہا
اور کچھ کی سزاؤں میں کمی کا اعلان بھی کرتے ہیں تاکہ وہ بھی خوشی میں شریک
ہوں۔ دارلخلافہ اسلام آباد میں یوم پاکستان کی شاندار پریڈ منعقد کر کے
فوجی قوت کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ اﷲ کے فضل سے پاکستان دنیا کی ساتویں
ایٹمی قوت ہے اس کا بھی اس سال بھرپور مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔ ہم بیلسٹک
میزائل میں خود کفیل ہو چکے ہیں اس کا بھی اس شکل میں مظاہرہ کیا جائے کہ
ان پر ایٹمی وار پیڈ نصب کئے جائیں ۔تھنڈر لڑاکا طیارے بھی پاکستان تیار کر
رہا ہے اس کا بھی مظاہرہ کیا جائے گا۔ امریکا سے حاصل کردہ جدید ایف سولہ
طیارے بھی پاکستان کی فضاؤں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ پاکستان کی
تینوں مسلح افواج کے چاک و چوبند دستے بھی اسلام آبادکی شاہراؤں پر سلامی
دیتے ہوئے گزریں گے۔ملک کے سارے ثقافتی حلقے اپنے اپنے فلوٹز پر بھر پور
مظاہرہ کریں گے۔ غرض طاقت کا بھر پور مظاہرہ ہو گا تاکہ پاکستان کے دشمن اس
کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکیں۔ پاکستانی ایک پر امن اور بہادر قوم ہے
جس کا اظہار کیا جائے گا۔ پورے ملک میں خوشی کا سمع ہو گا۔ پاکستان کی پوری
قوم عہد کی تجدید کرتی ہے کہ ہم اس ملک کو اس کے بنانے والے حضرت قائد اعظم
محمد علی جناح ؒ کے وژن کے مطابق چلائیں گے۔قائد محترم ؒ کا وژن کیا تھا وہ
ان کے صرف ایک ہی تقریر سے ثابت سے واضح ہو جاتا ہے جوانہوں نے ۱۹۴۰ ء کی
قراداد سے ایک سال پہلے ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ
کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا’’ مسلمانو! میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔
دولت،شہرت اور آرام و راحت کے بہت لطف اُٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا
یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جب مروں
تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا
ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی،
تنظیم اور مدافعت میں اپنا حق ادا کر دیا میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا
طلب گار نہیں ہوں میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان
اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدا فعت اسلام کا حق ادا
کر دیا اور میرا خدا یہ کہے کہ جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے مسلمان جئے
اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے‘‘ یہی
قائد ؒ کا وژن تھا ۔یہی دو قومی نظریہ تھا۔یہی نظریہ پاکستان تھا۔ یہی شاعر
اسلامی علامہ اقبال ؒ کا خواب تھا۔ اس پر برصغیر کے مسلمانوں نے لا الہ الاﷲ
کا نعرہ مستانہ بلند کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ
الا ﷲ۔ پھرہر طرف سے یہ آوازیں اُٹھنے لگی تھیں بن کے رہے پاکستان۔ لے کے
رہیں گیں پاکستان۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ حالا نکہ قائد محترمؒ نے
تحریک پاکستان کے دوران ایسی سیکڑوں تقریروں میں پاکستانی کے اسلامی
جمہوریہ پاکستان ہونے کو برصغیر کے مسلمانوں اور دنیا کے سامنے کھول کر
بیان کر دیا تھا۔پاکستان بھارت کے مشرقی اور مغربی سمت میں مشرقی پاکستان
اور مغربی پاکستان کی شکل میں دنیاکے نقشے پر مسلمانوں کے سب سے بڑی مملکت
کے طور پر سامنے آیا تھا۔ہندوؤں نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں
کیا تھا۔ وہ پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہا ۔ پھر ۱۹۷۱ء میں
پاکستان کے مشرقی حصہ کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس کا
اعلان بھارت کی حکمران اندرا گاندھی نے اس طرح کیا تھا کہ میں نے دو قومی
نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ مسلمانوں سے ہزار سال کا بدلہ بھی لے لیا
ہے۔بھارت کا موجودہ دہشت گرد وزیر اعظم مودی اس کا انعام لینے جب بنگلہ دیش
گیاتھا تو پاکستان کو توڑنے کا بر ملا اعلان بھی کر چکا ہے۔ ابھی بھی ہندو
باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کر رہا ہے۔پاکستان نے بلوچستان ،فاٹا
اور کراچی میں پاکستان کو توڑنے کے ثبوت اقوام متحدہ اور پوری دنیا کے
ملکوں کو پیش کر چکا ہے۔ صاحبو! کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں
آیا تھا لہٰذا پاکستام قائم بھی اسی نام کے ساتھ باقی رہ سکتا تھا اور رہ
سکتا ہے۔ مگر ہماری قومی کوتاہیاں ہیں کہ ہم اسے اسلام کی فلاحی ریاست نہیں
بنا سکے۔دینی جماعتوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے پاکستان کا آئین تو ۱۹۷۲ء
میں اسلامی بن گیا مگر ہمارے مغرب زدہ حکمرانوں نے آج تک اس پر عمل نہیں
ہونے دیا۔وہ ہمیشہ مغرب کی کاسہ لیسی میں لگے رہے۔فوجی ڈکٹیٹروں نے بھی
یہاں طرح طرح کے تجربے کئے۔ایوب خان ،یحییٰ خان، ضیاء الحق اور مشرف نے
پاکستان میں مغربی اثر رسوخ کو تقویت پہنچائی اور اس کی اصل منزل اورقائد
کے وژن پر نہیں چلنے دیا۔پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کی موجودہ قیادت اس
سے دو قدم آگے بڑھ کر پاکستان کو لبرل اور روشن خیال بنانے کے اقدام کر رہی
ہے۔مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام کے خلاف قانون سازی کر کے مسلمان
معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلہ کر رہی ہے۔ان حالات میں پاکستان میں پھر سے
تحریک پاکستان کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جیسے قائد محترم کی قیادت میں چلی
تھی اور اﷲ نے ہمہیں پاکستان عطیہ کے طور پر دے دیا تھا۔ اس کے بعد تحریک
ختم نبوت چلی تھی تو اﷲ نے پاکستان کو اس فتنہ سے محفوط کیا اور قادیانیوں
کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ پاکستانی قوم نے ایک بار پھر
نظام مصطفےٰ کا نعرہ لگایا تو پورا پاکستان اُمنڈھ آیا تھا اور سوشلزم کو
شکست ہوئی تھی۔ اب پھر پاکستان کے اسلامی تشخص کو بچانے کے لیے دینی قوتیں
اکٹھی ہو رہی ہیں۔جب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان جو مثل مدینہ ریاست ہے کو
اسلام کے دشمنوں کی طرف سے خطرہ ہوا تو پاکستان کے مسلمان اُٹھ کھڑے ہوئے
اور اﷲ نے ان کی مدد کی اب بھی اﷲ سے مدد کی امید رکھ کر مغرب زدہ حکمرانوں
سے پاکستان کو بچانے کا وقت آ گیا ہے لہٰذا پاکستان کی عوام کو دو قومی
نظریہ رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ بھارت
کے ہندوؤں انتہا پسندوں نے آر ایس آر جماعت، جس کا مقصد بھارت کو ہندو
ریاست بنانا ہے، کے بنیادی رکن دہشت گرد مودی کو کامیاب کر کے دو قومی
نظریہ کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ اب پاکستانیوں کو بھی نظریہ پاکستان پر
ایمان رکھنے والی جماعتوں کا ساتھ دے کر دو قومی نظریہ کو پھر سے زندہ
کرناچاہیے ۔ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو یہی اس وقت کا سبق اور موقعہ ہے
اور یہی قائد ؒ کا وژن تھا اور ہے اور اس سال اسی پر عمل کر کے ہم یوم
پاکستان منا کر اس کو صحیح مقام دے سکتے ہیں۔ اﷲ ہمارے پاکستان کو دشمنوں
سسے بچائے آمین۔ |
|