23 مارچ ، تجدید عہد کا دن

23مارچ کو مسلمانان برصغیر نے اپنے جذبات و احساسات اور امنگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے لاہور کے منٹو پارک میں ایک قرار داد پیش کی جسے قرارداد لاہور کہا گیا۔تاریخ گواہ ہے کہ یہی قرارداد بعد میں پاکستان بننے کا سبب بنی ۔ اس عظیم الشان جلسے کی صدارت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔ قرارداد پاکستان مولوی فضل حق نے پیش کی اور چوہدری خلیق الزمان نے تائید کی۔ اس طرح علامہ اقبال کے تخیل کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ایک مہم کا آغاز ہوا اور ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر کے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھایا۔برصغیر کی تقسیم سے قبل ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی حکومت کرتی تھی اور اس وقت پورے ہندوستان میں کانگریس واحد سیاسی جماعت تھی مسلمان ظلم واستحصال کی چکی میں پس رہے تھے وہ نہ تو مادی طور پر خوشحال تھے اور نہ ہی تعلیمی میدان میں ہندوؤں سے آگے تھے۔سرکاری ملازمتوں‘ فوج اور پولیس میں کوئی خاطر خواہ نمائندگی حاصل نہ تھی۔ کانگریس مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتی تھی۔ اور اس کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں صرف ایک ہی غالب قوم بستی ہے جس کا نام ہندو ہے گویا ہندو ہندوستان میں رام راج قائم کرنا چاہتے تھے۔ کانگریس کے اس رویے سے مسلمانوں کو اس بات ک احساس ہو گیا تھا کہ کانگریس مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر رہی اور قائداعظم نے کانگریس کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کو ایک نعرہ ‘ ایک جھنڈا‘ ایک پلیٹ فارم اور ایک نصب العین دے کر علیحدہ آزاد اسلامی مملکت کا مطالبہ کیا جس کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوگئی۔ مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں انگریزوں اور ہندوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

1938ء میں صوبائی سندھ مسلم لیگ کا اجلاس کراچی میں قائداعظم محمدعلی جناح کی زیرِ صدارت ہوا اور اس میں یہ بات واضح طور پرسامنے آئی کہ ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے جس میں ایک مسلم ریاست کہلائے اور دوسری غیر مسلم ریاست۔ چنانچہ 23 فروری 1940 ء کو ڈھاکہ میں ایک اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے سالانہ اجسلاس میں علیٰحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ اس قرارداد کا مسودہ 21مارچ 1940ء کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش ہوا۔ اور کچھ ردوبدل کے بعد 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس عام میں پیش کیا گیا۔ مولوی فضل حق نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں ان کو ایک جگہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک طاقت بنانا ہے۔‘‘

بعد میں قائداعظم نے اپنے خطاب میں اس قرارداد کو کنفرم کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ متعین ہو گا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لئے ایک خطے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس عام کا نقشہ ایک عینی شاہد خورشید احمد یوسفی نے یوں کھینچا ہے۔ ’’منٹو پارک (اقبال پارک) کے وسیع و عریض پنڈال میں ساٹھ ہزار افراد کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ ارد گرد دو ردور تک سفید رنگ کے سینکڑوں خیمے لگے ہوئے تھے۔جہاں باہر سے آنے والے مندوبین قیام پذیر تھے۔ باقاعدہ اجلاس اڑھائی بجے شروع ہونا تھا مگر مقررہ وقت سے خاصا عرصہ قبل ہی پورا پنڈال کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ مندوبین کے علاوہ عام لوگوں کیلئے ایک روپے کا داخلہ ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ شائقین یہ ٹکٹ خرید کر شریک جلسہ تھے۔ اندر جگہ نہ ملنے کے باعث بے شمار لوگ باہر کھڑے تھے جن کے لئے خصوصی لاؤڈ سپیکر کا انتظام تھا۔ پنڈال کے اندر جانے والے راستے محراب اور ارد گرد ہر طرف مسلم لیگ کے سبز جھنڈے لہرا رہے تھے۔ مسلم نیشنل گارڈ کے چاق چوبند نوجوان سبز رنگ کی وردیوں میں ملبوس جلسے کے انتظامات میں مصروف تھے۔ کچھ عرصہ تک شعرا مسلم لیگ اور قائداعظم کی تعریف میں نظمیں سنا کر حاضرین سے داد وصول کر رہے تھے۔ ٹھیک 2بج کر 25منٹ پر قائداعظم تشریف لائے۔ وہ سیاہ اچکن اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھے۔ سر پر جناح کیپ تھی صدر مجلس استقبالیہ نے خوش آمدید کہا۔ قائداعظم پنڈال کی طرف روانہ ہوئے۔ دونوں طرف خاکی وردیوں میں ملبوس نیلی ٹوپیاں پہنے بمبئی صوبائی نیشنل کارڈ کے دستے کے نوجوان چل رہے تھے پوری فضا ایک لاکھ افراد کے پر جوش نعروں قائداعظم زندہ باد مسلم لیگ زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ تلاوت کے بعد چند نظمیں جن میں میاں بشیر احمد کی نظم ’’ملت کا پاسبان نے محمد علی جناح‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے‘ پڑھی گئی۔ نواب شاہ نواز ممڈوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ جب قائداعظم تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو فضا زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی اور ابتدا میں کچھ دیر اردو میں تقریر کی پھر معذرت کرتے ہوئے انگریزی میں تقریر شروع کی۔ قائداعظم کی یہ برجستہ اور فی البدیہہ تقریری دو گھنٹے جاری رہی۔ ان کی شخصیت نے حاضرین کو اس درجہ مسحور کر رکھا تھا کہ انگریزی سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود بعد پورا ہجوم تمام وقت دم بخود بیٹھا رہا۔ سوائے اس دوران کبھی کبھی تالیاں بجائی جاتیں یا نعرے لگتے۔یہ مسلمانان ہند کا نمائندہ اجتماع تھا۔ پنجاب بنگال اور آسام کے وزراء صحافی اور مرکزی اسمبلی ممبران کی بہت بڑی اکثریت موجود تھی۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خواتین بہت بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ برصغیر کو پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کرنے سے متعلق جب یہ قرارداد کھلے عام اجلاس میں پیش کی گئی تو کروڑوں مسلمانوں نے اﷲ اکبر کے نعروں کی گونج میں متفقہ طور پر اسے منظور کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی منزل کیا ہے اور وہ ہندوستان میں اپنا جائز مقام لے کر رہیں گے اور انہوں نے قیام پاکستان کو اپنا نصب العین بنا لیا۔

23مارچ کو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے عہد کیا اور جس قدر جذبہ آزادی اور اخوت کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں ٹھیک سات برس بعد ایک ایسا پاکستان معرض وجود میں آیا جس نے ہمیں انگریزی اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی اور انہیں مستقبل کا مالک بنایا۔ پاکستان ہم سب کی امانت ہے۔ اور اس کے ترقی و خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنا ہر پاکستان کا فرض ہے۔تاہم آج جبکہ ہم یوم قرارداد پاکستان کی 76ویں سالگرہ منا رہے ہیں، ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ کیا واقعی ہم نے اپنے اسلاف کی طرح اس وطن کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کیا۔ کیا ہم نے ان کی طرح ملک کے لئے کوئی قربانی دی۔ وہ تو آزادی کی شمع ہمیں پکڑا گئے تھے۔ ہم نے آپس میں الجھ کر اس روشنی کو کم کردیا۔ آج بھی اپنوں اور غیروں کی سازشیں اس چراغ کو بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت ہمیں اندر سے چاٹ رہا ہے۔ مقام شکر ہے کہ ملک میں جہاں سازشی عناصر موجود ہیں، وہاں محب وطن اور قائدو اقبال کے جاں نشین اس شمع کو روشن رکھنے کے لئے اپنا تن من دھن قربان کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی عزم و ہمت اور کردار سے دشمنوں پر واضح کردیا ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ اس سلسلے میں افواج پاکستان خراج تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ تیاریوں، صلاحیتوں اور جدت کے ذریعے ملک کو دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس وطن، آزادی و خود مختاری کی قدر و اہمیت کو اجاگر کریں اور اسے برقرار رکھنے کے لئے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 62974 views Columnist/Journalist.. View More