آئین کو توڑنے اکا الزام بھی کچھ کام نہ
آیا۔ ملک کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی دھرے
کا دھرا رہ گیا۔ ملک میں دہشت گردی کو عروج دینے کے اسباب بھی لا حاصل رہے۔
پتہ نہیں کیا بیماری تھی۔ جس نے سب کو خاموش کر دیا۔ یہاں غریب اور مفلس کا
علاج ہو سکتا ہے۔ حکمرانوں کا نہیں۔ یہ وزیر، مشیر، اشرافیہ چھینک آنے پر
ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ خرچہ بھی قومی خزانے سے ہوتا ہے۔ میڈیکل کی مد
میں لاکھوں روپے ادا ہو جاتے ہیں ۔ بڑے افسروں نے اپنی ’’انٹائٹلمنٹ‘‘ہی
اسی طرح رکھی ہوتی ہے۔ کچھ افسر تو ایسے مغرور اور فرعون صفت ہوتے ہیں کہ
وہ کسی دوسرے کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ وہ چھوٹے ملازمین کو کیڑے مکوڑے
سمجھ کر ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں۔ ہر ادارے میں ان کی لابیاں
بنی ہیں۔ یہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں پلک چپکتے ہی اضافہ کر لیتے ہیں۔
لیکن ان کے ماتحت چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں۔ پھر مظاہرے ہوں، ہڑتالیں کی
جائیں ، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ ادارے کو ان سے نقسان پہنچانے کے
الزام میں یہ سارا الزام بے چارے ملازم پر دال دیتے ہیں۔ یہی سچ ہے کہ ہر
ادارے میں طبقہ بندیاں ہیں۔ پروٹوکول کے مختلف اصول ہیں۔ یہ اونیچ جاہلیت
کے زمانہ سے چلی آ رہی ہے۔ بڑا چھوٹا، امیر غریب، آقا و غلام کا سلسلہ نیا
نہیں ہے۔ ڈسپلن اور نظم و ضبط کے نام پر کیا کچھ ہوتا ہے، سبھی کو معلوم
نہیں۔ میڈیکل مراعات کی وجہ سے یہ تمہید تھی۔ کبھی کبھی انسان ان طبقہ
بندیوں کو دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے۔ پھر قانون اور آئین کی وجہ سے خاموش
ہو جاتا ہے۔ یہ قانون کہ جس کے تحت ایک غریب کو سخت سزا ملتی ہے اور اسی
قانون کے تحت طاقت ور اس سزا سے بچ جاتا ہے۔
پرویز مشرف اس وجہ سے بچ کے نکل گئے کیوں کہ وہ جنرل(ر)پرویز مشرف تھے۔
مغرب کے لاڈلے۔ اب لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کوئی کسی کا ایک دھاگا
بھی توڑ دے تو قید کر لیا جاتا ہے اور کوئی قانون کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو
کوئی بات نہیں۔ پیشہ یا شعبہ کوئی بھی ہو۔ کل آپ کسی ادارے کے ملازم تھے تو
آپ کی وابستگی کے اثرات اس ادارے پر بھی پڑتے تھے۔ آج آپ ریٹائر ہو گئے تو
پھر آپ کی سرگرمیوں سے اس ادارے کو کیا لینا دینا۔ آپ جو کرتوت کرٰیں گے،
اس کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ پرویز مشرف فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ جسے طرح
دیگر محکمہ جات ہیں ، اس طرح ایک ادارہ فوج بھی ہے۔ جس طرح دیگر پر قانون
نافذ ہوتے ہیں۔ اسے طرح اس ادارے پر بھی۔ کوئی جرم کرے تو اس کا تعلق جس کے
ساتھ بھی ہو، اسے سزا ملنی چاہیئے۔ کسی وابستگی کی وجہ سے ملکی آئین و
قانون سے کوئی بچ جائے تو یہ اس قانون کے ساتھ مذاق ہو گا۔
پرویز مشرف بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے نکل گئے۔ دوبئی پہنچ کر وہ ایک
دم ہشاش بشاش ہیں۔ پارٹی سرگرمیاں بھی شروع کر دی ہیں۔ طویل اجلاس بھی ہو
رہے ہیں۔ موقع ملا تو طبی معائنہ بھی کرائیں گے۔ لیکن ابھی یہ چیک اپ ضروری
نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ بیمار ہی نہ تھے۔ یہ سب بہانہ تھا۔ دوبئی پہنچنے پر وہ
بہت بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہاں وہ لڑ کھڑا رہے تھے۔ سانس لینے میں دشواری
تھی۔ کمر میں درد تھا۔ موہروں کا بھی مسلہ تھا۔ سانس رک جاتی تھی۔ آکسیجن
پر گزارا ہو رہا تھا۔ مگر دوبئی میں سب ٹھیک ہو گیا۔ دیار غیر بہت لوگوں کو
راس آتا ہے۔ اپنے گھر میں یہ لوگ کافی گھٹن محسوس کرتے ہیں۔
اس میں سارا فائدہ پرویز مشرف کا نہیں ۔ کچھ وزیراعظم نواز شریف کا بھی ہو
گا۔ انہیں بھی کوئی یقین دہانی ملی ہو گی۔ ملکی آئین کو توڑنے والے، سابق
وزیراعظم کے قتل کے ملزم کی رہائی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جو لوگ قانون
اور آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لے بھی ایک پیغام ہے۔ عدالتوں پر بھی
سوالیہ نشان ہے۔ اب اگر کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہے ، کوئی ظلم ہو
اہے ۔ تو آپ قانون اپنے ہاتھ میں لیں تو پہلے سوچ لیں۔ طاقتور ہیں تو کئی
بات نہیں ۔ کمزور ہیں تو سزا سے بچ نہ سکیں گے۔
کل ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے فلاں محکمے میں اس کے ساتھ ظلم ہو
رہا ہے۔ کیا کروں۔ میرے قریب بیٹھے ایک اجنبی نے فوری کہا، اپنے افسر کو
کرسی سے اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ اس کی گاڑی چھین لیں۔ بس چلے تو اس کی
کوٹھی پر قبضہ جما لیں۔ اگر یہ سب نہیں کر سکتے۔ تو اس سب کو آگ لگا دیں یا
اسے توڑ دیں۔ مجھ سے یہ سن کر رہا نہ گیا۔ میں نے قانون ہاتھ میں لینے کے
نقصانات بیان کئے۔ مگر وہ بھی دل جلا تھا۔ کہا کہاں کا قانون ، کہاں کا
انصاف۔ آج ایک پر ظلم ہوا ہے کل دوسرے پر ہو گا۔ مگر انصاف نہیں ملے گا۔ اس
لئے اس درد سر کو ہی ختم کر دیا جائے۔ شاید اب لوگ جرائم کی جانب بھی رجوع
کریں گے۔ جب ہر کوئی خود ہی منصف بن جائے گا۔ تو کیا ہو گا۔ پہلے کوئی
ناانصافی ہو تو لوگ عدالت جاتے تھے۔ جرگے ہوتے تھے۔ بڑوں کو بیچ میں ڈالا
جاتا تھا۔ عفو و در گزر کی بات ہوتی تھی۔ خوف خدا کا ذکر ہوتا تھا۔ انجام
سے ڈرایا جاتا تھا۔ مگر اب لوگ نڈر ہو رہے ہیں۔ انہیں انجام کی کوئی پروا
نہیں۔ اپنے کیس میں خود ہی جج بننا چاہتے ہیں۔
اگر انصاف اٹھ جائے۔ تو کیا ہو گا۔ سب تباہ ہو جائے گا۔ ہر کوئی خود ہی
اپنا فیصلہ کرے گا۔ یہ قبائلی نظام بن جائے گا۔ جب ایک تکرار پر قبائل میں
جنگ شروع ہو جاتی تھی۔ جو کئی سال تک جاری رہتی تھی۔ لا تعداد لوگ مارے
جاتے تھے۔ مگر یہ جنگ ختم نہ ہوتی تھی۔ جس ملک میں دوہرا نظام ہو۔ انصاف کا
الگر الگ معیار ہو۔ میرٹ پامال ہو رہا ہو۔ جس کی لابی طاقتور ہے ، اس کو
تمام مراعات مفادات حاصل ہوں تو وہاں ایسا ہی ہو گا۔
پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دیا گیا۔ کیوں کہ وہ سابق فوجی چیف اور صدر
مملکت تھا۔ اگر کوئی جج، سیاستدان، سول سرونٹ ، ملازم جرم کرے تو کیا اس کا
ادارہ اس کے جرم کو معاف کرنے کے لئے میدان میں آئے گا۔ مجرم کا معاون و
مددگاربھی مجرم ہوتاہے۔ اگر کوئی سابق فوجی جرم کا مرتکب ہو تو اسے بھی
ملکی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہیئے۔ مجرم کو سزا کسی کی توہین کیسے ہو
سکتی ہے۔ بلکہ مجرم کو سزا نہ ملنا پوری قوم کی توہین ہے۔ اب کوئی کہتا ہے
کہ پرویز مشرف واپس نہ آئے تو حکومت ذمہ دار ہو گی۔ کوئی کہتا ہے کہ واپس
نہ آئے تو انٹرپول سے واپس لائیں گے۔ وہی چڑیا والی کہانی ہے۔ چڑیا کو آزاد
کرنے کے بعد اس سے کسی فائدے یا پچھتاوے کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
مجرم ہی مجرم پر رحم کھاتا ہے۔ اس کو رعایت دے سکتا ہے۔ اسے آزاد کرتا ہے۔
تا کہ کل یہی سلوک اس کے ساتھ بھی روا رکھا جائے۔ |