قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد

23 مارچ 1940 کا تاریخ ساز دن ہماری قومی تاریخ میں ایک زریں باب کی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ دل نواز ساعت اور خوشنصیب گھڑی تھی جب ہماری قسمت کا ستارہ چمکا تھا یہ اسلامیان ہند کی قومی تاریخ کا روز سعید ہے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک اہم موڑ... پاکستان کے جلیل القدر بانی محمد علی جناح کی سخن دلنواز قیادت میں لاہور کے منٹو موجودہ اقبال پارک میں عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا تھا جس نے ہندو لیڈروں کو کانپنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس میں برصغیر کے کونے کونے سے مسلمانوں کے برگزیدہ رہنماؤں کے علاوہ عام مسلمانوں نے بھی آزادی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے شرکت کی تھی .. اس قرارداد میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا تعین کیا تھا ایک علیحدہ اسلامی مملیکت جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہوگی جس میں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی تہذیب و تمدن اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گذاریں گے …….. وہ مذہبی و سماجی احترام اور معاشی خوشحالی حاصل کرنا چاہتے تھے جو انہیں ہندوستان میں معتصب ہندؤں کی اکثریت تلے حاصل نہیں ہو سکتے تھا...

یہ دن تحریک آزادی کا اہم سنگ میل تھا جس دن مسلمانوں نے اپنی آزادی اور حقوق کے لیئے مارچ کو قرارداد پیش کی جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور یہ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت ہی کا کرشمہ تھا کہ مسلمانان ہندنے نہ صرف آزاد ریاست کا مطالبہ کیا بلکہ سال کی قلیل مدت میں آزادی کی جدوجہد میں جیت حاصل کی اور منزل کی جانب کبھی …….نہ رکنے کے لیئے آگے بڑھتے گئے 23مارچ قومی جشن کا دن ہے جسے ولولہ تشکر کے ساتھ منایا جاتا ہے یہ دن جہاں خوشی و احساس تفاخر کا ہے وہیں قومی اعمال کے محاسبے کا بھی ہے ...اور محاسبہ بھی ضروری ہے کہ خوشیوں کے ساتھ ان مجاہدوں ان شہیدوں ان دلیروں کو بھی خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے ظالم , معتصب ہندؤوں کیخلاف ایک سو سالہ جدوجہد کرکے عزم پیہم کیساتھ ایک اسلامی جمہوری مملیکت کے قیام کے لیئے راہیں ہموار کی۔

پروفیسر محمد اسحاق قریشی جن کا تعلق ریاست کشمیر سے ہے انہوں نے 23مارچ کو اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھا تھا کہ 23 مارچ 1940 کی قرارداد کو گذرے اکاون برس ہوگئے مجھے لگتا یوں ہے کہ یہ کل کی بات ہے…….اس منہ زور اجلاس کی تمام یادیں میری زندگی کی متاع عزیز ہیں ً۔

ساتھ ہی 23مارچ کی قرارداد کا خوبصورت کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ً موسم بہار اپنے جوبن پر تھا , ہر سو ہریالی اور پھول کھلے تھے , خوشگوار موسم ودلوں اور نگاہوں کو مخمور کر رہا تھا …….. رنگین موسم…….. لاہور کا خوبصورت شہر……. منٹو پارک…… اور اس پر بادشاہی مسجد میناروں کا سایہ …….. ایک آراستہ و پیراستہ پنڈال میں ہندوستان کے کدنے کونے سے آیا ہوا اسلامیان ہند کا سمندر اپنا مسقبل تعمیر کر رہا تھا ……. جلسہ گاہ خود ایک پررونق شہر کا سماں پیش کر رہی تھی ……. مسرت دلاسے سے مسکراتے چہرے ... روشن آنکھیں ……دھڑکتے دل……خود منزل کی طلب اور شوق منزل کا نظارہ بنے ہوئے تھے اور انکی منزل کے دظرمیان ایک جست کا فاصلہ باقی تھا ... موسم بہار اور قرداد پاکستان میری خوشگوار یاد کی دو ہم رنگ تصویریں ہیں جن کے نقوش روح و دل پر ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔

یہ بات ہر شک سے پاک ہے کہ مسلمانان برصغیر نے صرف اسلام کے نام پر قرارداد پاکستان منظور کروائی تھی اور لاکھوں جانوں و مال و متاع کی قربانیوں کے بعد پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے
مگر بدقسمتی سے بعض نام نہاد دانشوروں کو جب اپنے وجود کے جواز کی ضرورت پڑی تو وہ تاریخی حقائق مسخ کرتے چلے گئے -

تحریک پاکستان کے محرکات اور اسلامیان ہند کی بے مثال اور عظیم قربانی اور جدوجہد کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں روز اؤل سے جاری و ساری ہیں اور بھارتی استعمار نے تو اب تک تاریخی سچائیوں کو قبول تک نہیں کیا بلکہ وہ اپنے ذہنوں میں تعصب و برائی لیئے ہمہ وقت پاکستان کو مسخ کرنے کی ناپاک منصوبے بناتے رہتے ہیں مگر وہ شاید لاعلم ہیں کہ یہ مملیکت خدا کا مسلمانوں کے لیئے ایک تحفہ ہے جسے نہ حاصل کرنے سے تمھارے ناپاک ارادے روک پائے تھے نہ تم اس زمین نگاہ غلط ڈال سکتے ہو نہ تمھاری غلیظ سوچیں ہماری راہ میں روکاوٹ پیدا کرسکتی ہیں ہمارا فخر اور شاعر مشرق کہہ گذرے ہیں
نقش توحید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغامح سنایا ہم نے

مگر افسوس تو ہے ان آستین کے سانپوں پر ان کچھ نام نہاد دانشوروں اور سیاست دانوں پر جو ایک طرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف وطن عزیز کی نظریاتی اساس پر خود ساختہ دانشوری کی دیمک بکھیرنے سے باز نہیں آتے۔

ہمارے نام نہاد قومی نمائندوں اور اعلی ایوانوں میں بیٹھے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سیاست دانوں نے اپنے الو سیدھے کرنے کے لیئے بدقسمتی ہمارے نصیب میں لکھ دی ہے کہ آج بھی ستاسٹھ سال گذرنے کے باوجود پاکستانی سوال کرتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا؟
تو یہی کہوں گی کہ
دل کے کانوں سے سنیئے !!!
روح کے کانوں سے سنیئے!!!
بیدار آنکھوں سے مشاہدہ کیجیئے!!!
خیبر سے راس کماری تک اسلامیان ہندکے اس نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے جو ہر بچے , بوڑھے , جوان نے لگایا تھا کہ
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ
یہ سعادت صرف پاکستان ہی کو حاصل ہے کہ اس کی بنیاد عظیم کلمہ انقلاب پر رکھی گء جس کا اقرار بالسان و تصدیق بالقلب کرکے انسان کا کارواں اسلام میں داخل ہونے کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے۔

وطن عزیز کی فضائیں پھر سے ایک صدا سننے کو بے تاب ہیں …….. مسلمانان پاک کو پھرسے رشتہ مواخات میں جوڑنے کی ضرورت ہے۔

23مارچ ایک عہد کا دن کا دن بھی ہے کہ ہم یکجان ہو کر اس وطن عزیز کے لیئے پھر سے قربانیاں دیں جو اس وطن کے قومی وقار کا تقاضہ ہو .. ہم وطن عزیز کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان اور اقبال کے خواب کی حسین تعبیر بنادیں۔

ہر کوئی پاکسستان کے لیئے ایک الگ تصور رکھتا ہے کوئی آزاد ریاست چاہتا ہے تو کوئی اسلامی قوانین کا نفاذ کا حامل پاکستان…….لیکن میں تو یہی کہوں گی کہ چلے چلو ابھی منزل آئی نہیں۔

یوم آزادی زندہ و بیدار قوموں کے لیئے ایک سنگ میل ہوتا ہے تاکہ اس دن وہ ٹہر کر ایک نظر اپنے گذرے ہوئے کل پر ڈالیں , سرزرد ہونے والی کوتاہیوں کا مشاہدہ کریں اور آئندہ کے لیئے ان غلطیوں کے ارتکاز سے گریز کریں۔ ملک کو اسکے قیام کے بعد حالات و واقعات نے منزل مقصد سے دور کر دیا ہے , ریاستی اجزائے فکر و عمل کو پس پشت ڈالنے کے باعث ہم ایسی قوم بن گئے ہیں جس کی جڑوں میں بے یقینی خود غرضی اور اجتمائی بے حسی رچ بس گئی ہے ہمیں ان تمام قومی بیماریوں سے چھٹکارہ پانا ہوگا اگر ہم ایک قوم کے طور پر باقی رہنا چاہتے ہیں تو وہی سبق پھر سے دھرانے ہونگے جن پر دین اسلام کا قلع قائم ہے جنہیں ہمارے جلیل القدر بانی نے اپنا کر محبت اخوت و بھائی چارے ثابت قدمی و استحکام کا سبق پڑھایا تھا۔

بڑی سے بڑی قربانی دیکر بھی ہمیں اپنی مذہبی اقداراور ملکی سالمیت کیلیئے میدان میں میں آنا ہوگا …… ہمیں آگے بڑھنا ہوگا …… اپنی منزل پانے کے لیئے اپنی رفتار بڑھانی ہوگی اور تیز دوڑنا ہوگا جوش کے ساتھ ہوش میں رہ کر...

ایک اور یوم پاکستان ہمیں پھر سوچنے کا موقع فراہم کر رہا ہے کہ جن مقاصد کے لیئے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی حاصل نہیں ہوئے , جو زندگی گذارنے کے لیئے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی کسی حد تک خواب ہی کی حیثیت رکھتا ہے جو معاشی آزادی ہم چاہتے تھے وہ ابھی خاصے فاصلے پر ہے اس خطے میں ہم اپنے پڑوسی ملک سے ترقی کی دوڑ میں خاصے پیچھے ہیں لیکن عزم کرنے کی دیر ہے یقین رکھنے کی ضرورت ہے اور پھر ہم اپنی صدیاں تعمیر کرلیں گے انشااﷲ۔ اپنی جگہ پانے کو لفظ بے تاب لکھنے کے لیئے سوچیں ہزار مگر اسی دعائی مصرعے کے ساتھ اختتام کی سمت بڑھوں گی کہ……

خدا کرئے کہ میرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے کھلا رہے صدیوں تک
یہاں خزاں کے گذرنے کی کبھی مجال نہ ہو

آمین ثمہ آمین
 
Kosar Naz
About the Author: Kosar Naz Read More Articles by Kosar Naz: 18 Articles with 14887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.