آج ایک بار پھر یوم پاکستان ہے۔آج راولپنڈی
میں 31اور مظفر آباد، گلگت سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں,21 21توپوں
کی سلامی سے دن کا آغاز ہو تاہے۔کئی سال بعد یوم پاکستان پریڈ ہو رہی ہے۔
74سال قبل اسی دن منٹو پارک یا اقبال پارک لاہور میں قرارداد لاہور یا
قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ
آزاد وطن کے قیام کا عہد کیا۔
پاکستان کا لفظ سب سے پہلے چودھری رحمت علی نے 1933میں دیار غیر برطانیہ
میں دوران تعلیم Now or Never کے زیر عنوان لکھے گئے پمفلٹ میں پیش کیا
تھا۔جبکہ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصوردیاتھا۔ 23 مارچ 1940 ء کو لاہور
میں وہ قرار داد پاکستان منظور کی گئی جس میں یہاں کے مسلمانوں کیلئے الگ
وطن کا مطالبہ کیا گیا۔22 مارچ سے 24 مارچ 1940 ء تک آل انڈیا مسلم لیگ نے
منٹو پارک لاہور جسے اب مینار پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں
سالانہ اجلاس منعقد کیا ۔ یہ اجلاس تاریخی اجلاس ثابت ہوا۔ اجلاس کے پہلے
روز قائد اعظم محمد علی جناح نے گزشتہ چند ماہ کے واقعات کا جائزہ لیا۔
انہوں نے مسئلے کا حل یوں پیش کیا کہ انڈیا کا مسئلہ فرقہ وارانہ طرز کا
نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اسے اسی انداز سے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں
نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان
اختلافات اتنے زیادہ اور اتنے خطرناک ہیں کہ وہ ایک مرکزی حکومت کے تحت
متحد ہو کر نہیں رہ سکتے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس لئے ان کے لئے دو الگ الگ
ریاستوں میں رہنا ناگزیر ہے۔کنہیا کمار نے بھارت میں آزادی کا تصور بد ل
دیا ہے۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی یا جے این یو طلباء لیڈر نے
بھارت کے اندر آزادی کا نعرہ لگا کر بائیں اور دائیں بازو میں تصادم کی
خوفناک تصویر پیش کی ہے۔
قائد اعظم نے کہا ’’ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب ، فلسفوں، سماجی
رسومات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ تو شادی بیاہ
کرسکتے ہیں اور نہ ہی مرسکتے ہیں، ان کا جینا مرنا ساتھ نہیں، وہ دو مختلف
تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو جداگانہ نظریات پر قائم ہیں، زندگی کے بارے
میں ان کا تصور جدا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف
ذرائع سے جڑے ہیں۔ ان کی مختلف کہانیاں، ہیرو اور معاملات ہیں، ایک کا ہیرو
دوسرے کا ولن ہے، اسی طرح ایک کی شکست دوسرے کی جیت ہے۔اس طرح کی دو قوموں
کو ایک ملک اور وہ بھی جب ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں ہو ، جمع
رکھنا خطرناک ہے۔‘‘ قائد اعظم نے مزید کہا ’’ مسلمان کسی بھی قوم کی تعریف
کے تحت ایک قوم ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ جذبے ، ثقافت، معیشت، سماجی
اور سیاسی زندگی اس طرح گزاریں جسے ہم بہتر سمجھتے ہوں اور جو ہمارے اسلاف
کے طریقوں کے مطابق ہو ۔‘‘
اقبال پارک اجلاس میں کشمیر سے ایم اے حفیظ،ایم اے عزیز،اسماعیل ساغر،پیر
ضیاء الدین اندرابی،اسحاق قریشی،حسن گردیزی،سردار فتح محمد،مفتی گل
احمد،غلام حیدر جنڈالوی نے شرکت کی۔انہیں اندازہ تھا کہ مستقبل میں کسی
مقبول بٹ اور کسی افضل گورو کو ہندو انتہا پسندوں کی خواہش اور اجتماعی
ضمیر کی تسکین کے لئے پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی
کامیابی پر تالیاں بجانے پر کشمیری طلباء پر تشدد ہو گا اور انہیں بھارتی
تعلیمی اداروں سے نکال دیا جائے گا۔ ان پر جرمانے ہوں گے۔ بغاوت کے مقدمے
قائم ہوں گے۔
قائد اعظم کے خیالات کی روشنی میں بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیر بنگال
اے کے فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کی جو قرار داد لاہور یا قرار داد
پاکستان کے نام سے معروف ہے۔ تصور پاکستان اور قیام پاکستان میں بنگالیوں
کا اہم کردار رہا۔ لیکن بنگالیوں کو برابری کا مقام نہ ملا۔ ان کے حقوق کو
تسلیم نہ کیا گیا۔ اگر بنگالی بھی ملک کی دوسری سرکاری زبان قرار دی جاتی
تو کوئی غلط بات نہ تھی۔ بھارت میں بھی اس وقت کل 22سرکاری زبانیں ہیں۔
17زبانیں بھارتی کرنسی نوٹوں پر دی جاتی ہیں۔لیکن یہاں دو سرکاری زبانوں کو
بھی برداشت نہ کر کے فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا۔
آج اتحاد اور پاکستان توڑنے کے مخالفین کو اسی بنگلہ دیش میں پھانسی دی جا
رہی ہے جہاں سے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے قیام کی چنگاری سلگی تھی۔
پاکستان میں آج بھی اسلام پر متحد ہونے کے بجائے قومیت کو ہوا دی جا رہی ہے۔
سندھی اور بلوچی قومیت بھی بنگالی طریقہ کار پر عمل پیرا نظرآتی ہے۔ کراچی
میں اردو بولنے والے اسی تناظر مین سرگرم ہیں۔ ان کے نام پر سیاست کی
گئی۔مصطفےٰ کمال اور ان کے احباب راء کے تعلق کے بد نما داغ کو دھونے کے
لئے الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ مساوی اور برابری کے حقوق اور احترام سے ہی
ایسی صورتحال پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔
قرار داد پاکستان کے تحت مسلمانوں کو ہندوؤں کی پالیسی کے باعث الگ وطن کا
مطالبہ کیوں کرنا پڑا۔ مورخین نے اس کے کم از کم 8 بڑے عوامل پیش کئے ہیں۔
(۱)یہ بات واضح تھی کہ اسلامی تہذیب ایک منفرد وممتاز ہے جو ہندو تہذیب سے
بالکل مختلف ہے۔ اسلام کو ہندوازم ہڑپ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
(۲) انگریزوں کی سرپرستی میں ہندوؤں نے جس قدر مسلمانوں کی تہذیب کو ختم
کرنے کی کوشش کی ،مسلمان اسی قدر بیدار ہوئے اور بالآخر انہوں نے اپنے حقوق
کے تحفظ کیلئے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ منوایا۔
(۳) قائد اعظم کی کوششوں سے میثاق لکھنو ہوا اور ہندو مسلم اتحاد قائم
ہوگیا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے قومی تشخص کو تسلیم کیا، انہیں جداگانہ
انتخاب کا تحفظ دیا اور ان کی رضامندی کے بغیر قانون سازی نہ کرنے کا وعدہ
کیا۔ لیکن چند سال بعد وہ اپنے وعدوں سے مکُر گئے اور مسلمانوں کو محمڈن
ہندؤ بنانے کی باتیں شروع کردیں۔
(۴)نہرو رپورٹ نے ہندو مسلم اتحاد کے خواب کو توڑ دیا اور اتحاد کے خواہش
مند مسلم قائدین بھی اس رپورٹ میں کم از کم ترامیم بھی نہ کراسکے۔
(۵)ہندو مسلم فسادات نے ملک بھر میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا اور
دونوں قوموں کا اکھٹے رہنا محال ہو گیا۔
(۶) کانگریس نے 1937 ء سے 1939 ء تک اکثرصوبوں میں وزارتیں قائم کیں اور
مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ اور امتیازی سلوک روا رکھا۔
(۷)مسلمان ہمیشہ آزادی کے خواہش مند رہے ۔ اس کے لئے وہ ہندوؤں کے ساتھ
تعاون کرنے پر آمادہ ہوئے۔ لیکن انہوں نے جان لیا کہ انگریز سے آزاد ہونے
کے بعد وہ ہندو کے غلام بن جائیں گے، انہوں نے دونوں سے نجات پانے کیلئے
الگ وطن کا مطالبہ کیا۔
(۸) مسلمان اسلامی نظام چاہتے تھے، لیکن یہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر
ناممکن تھا۔
قرارداد پاکستان میں صرف اصولوں کا تعین کیا گیا اور اس کی تفصیلات کو
مستقبل پر چھوڑ دیا گیا۔ 1941 ء میں اسے ہی آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا
حصہ بنایا گیا۔ اسی قرارداد کی روشنی میں 1946 ء میں مسلم لیگ نے مسلمانوں
کے لئے ایک ملک بنانے کا فیصلہ کیا، اس قرارداد کا پس منظر گورنمنٹ آف
انڈیا ایکٹ 1935 ء تھا۔ اس کی روسے مرکزی حکومت کو ایک ایسی فیڈریشن کی شکل
دی گئی تھی جس میں برطانوی حکومت میں شامل تمام صوبے اور خواہش مند ریاستیں
شامل ہوں۔ اس ایکٹ میں مسلمانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے۔ قائد اعظم
نے اس ایکٹ کو مکمل طور پربرا اور ناقابل قبول قرار دیا۔1937 ء میں جب
ہندوستان میں صوبائی خودمختاری متعارف کرائی گئی اور انتخابات میں کانگریس
نے 6 صوبوں میں اکثریت حاصل کرلی تو مسلمانوں کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی
لحاظ سے کچل دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا۔ان کو روز گار اور
تعلیم کے مواقع نہ دیئے گئے۔کانگریس وزارتوں نے وردھا سکیمیں شروع کیں یہ
تعلیمی سکیمیں تھیں جن کا مقصد مسلمان بچوں اور نوجوانوں کو اسلام سے
لاتعلق کرنا تھا۔ اڑھائی سالہ کانگریس کی حکمرانی نے مسلمانوں پر واضح
کردیا کہ وہ نہ صرف الگ ملک میں ہی محفوظ رہ سکتے ہیں انکا ہندوؤں کے ساتھ
رہنا بالکل نامناسب ہے۔جس کے باعث مسلمانوں نے ایک آزاد اور خودمختارملک کا
مطالبہ کیاجس کی انگریزوں اور کانگریس نے کھل کر مخالفت کی۔ کانگریس کے
رویہ سے مسلمانوں کا عزم پختہ ہوا کہ وہ صرف آزاد ملک میں ہی آزادی سے
زندگی گزار سکتے ہیں۔ اور پھر 23 مارچ 1940 ء کو مسلمانوں نے قرار داد پاس
کرکے اپنے مطالبے کو عملی شکلی دیدی۔
متذکرہ بعض وجوہات کے باعث قرار داد پاکستان منظور ہوئی۔ اس وقت پاکستان کا
نام نہیں لیا گیا بلکہ سب سے پہلے ہندو اخبارات نے مذاق اڑانے کیلئے اسے
قرار داد پاکستان کہا ۔ قرار داد پاکستان کا ایک حصہ درج ذیل ہے۔
’’ اس ملک میں کوئی دستوری خاکہ قابل عمل اور مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہ
ہوگا جب تک وہ مندرجہ ذیل اصول پر مرتب نہ کیا جائے یعنی جغرافیائی لحاظ سے
متعلقہ علاقے خطے بنادئیے جائیں ۔ اس مقصد کیلئے جن علاقائی تبدیلیوں کی
ضرورت محسوس کر لی جائے تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن
علاقوں کے اندر مسلمانوں کو ازروئے آبادی اکثریت حاصل ہے وہ یکجا ہو کر
خودمختار اور کامل الاقتدار ریاستیں بن جائیں۔ اقلیتوں کیلئے آئین میں
مناسب، مؤثر اور واجب التعمیل تحفظات کا خاص طور پر انتظام ہو ناچاہیے…………
تاکہ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی ، انتظامی اور دوسرے حقوق کی حفاطت
ہو سکے۔‘‘
اس قرار داد کی چوہدری خلیق الزمان نے تائید کی، مولانا ظفر علی خان، سردار
اورنگزیب(سرحد)، سر عبداﷲ ہارون (سندھ)، نواب محمد اسماعیل ( اتر پردیش)،
قاضی محمد عیسیٰ ( بلوچستان)، آئی آئی چندریگر ( ممبئی)، بیگم مولانا محمد
علی جوہر، مولانا عبدالحامد بدیوانی اور سیدذاکر علی نے قرار داد کی حمایت
میں تقاریر کیں۔اجلاس کے شرکاء میں سر سعد اﷲ خان ( آسام) ، سرسکندر حیات (
پنجاب)، سید حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین (بنگال)، سید حسن امام
( بہار)، سر محمد یامین اور مولانا فرنگی محل ( اترپردیش) ، ملک برکت علی (قرار
داد کا متن تیار کیا تھا)، مولانا ظفر علی خان( قرارداد کا اردو میں ترجمہ
کیا) اور جی ایم سید ( سندھ) بھی شامل تھے۔
قرارداد پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے دل کی آواز تھی۔ مسلمانوں نے جان
لیا تھا کہ کانگریس انگریزوں کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے۔اس
لئے قائد اعظم نے مسلمانوں کیلئے آزاد اور خودمختار وطن کیلئے جدوجہد کی
اور بالآخر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے تعاون سے وطن کو
حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اب ہم آزاد فضاؤں میں زندگی گزاررہے ہیں۔
لیکن سچ یہ ہے کہ ہندوستان نے ابھی تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ شروع
دن سے ہی وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں لگا ہوا ہے۔ اس لئے جب بھی
ہندوستان میں کوئی واقعہ ہوا تو اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگادیا تاکہ وہ
دفاع اور تحفظ پاکستان کی ضامن اس جانباز خفیہ سروس کی حوصلہ شکنی کرسکے۔
لیکن قوم نے بھارتی عزائم کو ہمیشہ ناکام بنادیا۔ بھارت نے 1948 ء،1965
ء،1971 ء،1993 ء میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی۔ جبکہ پاکستان کو 1971 ء
میں اعلانیہ طور پر توڑنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان کا ایک بازو کاٹ
دینے کے بعد بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے میں ناکامی پر
یہاں فرقہ واریت کو ہوا دی اور پاکستان کی جانباز افواج پر دہشت گردانہ
حملے کرائے۔اور اس کیلئے افغانستان کو اپنا بیس کیمپ بنالیا ہے جہاں دہشت
گردوں کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کیلئے تربیت اور اسلحہ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے احتجاج کے باوجود ان کیمپوں کو بند نہیں کیا گیا بلکہ قونصل
خانے نما ان کیمپوں میں بھارتی کمانڈوز کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا
ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ یہ اہلکار افغانستان میں تعمیر نو میں مصروف
بھارتی انجینئرز کی حفاظت کیلئے تعینات ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
پارلیمنٹ پر حملے ، ممبئی اور پٹھانکوٹ حملے کی آڑ میں پاکستان سے بات چیے
کا سلسلے ختم کر کے جنگی ماحول پیدا کیا گیا۔ جنگ کے لئے فوج سرحدوں پر جمع
کی گئی۔ بی جے پی انتہا پسندی سے الگ ہونے کے ڈرامے رچا رہی ہے۔ واجپائی کی
لاہور آمد اور وزیر اعظم مودی کی لاہور آمد میں نمایاں فرق محسوس کیا جا
سکتا ہے۔ کانگریس کی مختلف پالیسی ہے۔ وہ سیکولرا زم کا پرچار کرتے ہوئے
انتہا پسندی کی مرتکب ہوئی ہے۔ بھارتی پالیسی نے ثابت کر دیا کہ کانگریس 7
دہائیاں قبل بھی متحدہ قومیت کا نعرہ لگا رہی تھی اور آج بھی اس کی پالیسی
یہی ہے۔ کانگریس کے ہی دور اقتدار میں بابری مسجد سمیت سینکڑوں مساجد کو
شہید کیا گیا، کانگریس نے ہی پی وی نرسہماراؤ کے دور حکومت میں اسرائیل کو
تسلیم کیا اور اسے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا۔ بھارتی میڈیا بھی انکشاف
کررہا ہے کہ اسرائیلی کمانڈوز نے بھارتی فوجیوں کے ساتھ مل کر کشمیریوں کے
خلاف نسل کشی کے آپریشن میں حصہ لیا۔ بھارت اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار
دادوں کے باوجود کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے سے انکار کررہا ہے جبکہ اس
نے بھارت میں کروڑوں مسلمانوں کے حقوق غصب کررکھے ہیں۔ ہندوستان میں
مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیازانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے بلکہ ان کی
منصوبہ بندی سے نسل کشی بھی کی جارہی ہے۔ گجرات، سورت اور میرٹھ میں مسلم
کش فسادات اس کی چند مثالیں ہیں۔اور اس نسل کشی کے ہیرو مودی کو بھارت کا
وزیر اعظم بناکر ہی دم لیا گیا۔
ہندوستان کے مسلمان اپنے ایک الگ وطن کے خواہش مند ہیں۔بھارت سے آزادی اور
بھارت میں آزادی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔سبھی پاکستان کو عطیہ خداوندی قرار
دیتے ہیں۔ قراردادپاکستان ہمیں دعوت دیتی ہے کہ جو ملک لاکھوں جانوں کی
قربانیوں سے حاصل کیا گیا اس کی تعمیر وترقی کیلئے بڑھ چڑھ کر کردار ادا
کیا جائے۔اور تمام تر علاقائی، مسلکی، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر
دفاع واستحکام پاکستان کیلئے کام کیا جائے۔
افضل گورو کی شہادت اور کشمیریوں کے قتل عام نے1945 ء میں قائد اعظم کے اس
اعلان کو سچ ثابت کر دیا کہ صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔
اور قائد اعظم کا یہ دعویٰ اس وقت درست ثابت ہواجب 1946 ء کے انتخابات میں
مسلم لیگ نے مرکز میں 100 فیصد اور صوبوں میں 80 فیصد نشستیں جیت لیں۔
23 مارچ کو ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مملکت خدادادپاکستان 23 مارچ 1956 ء
کو اسلامی جمہوریہ بنا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک
ہے جس کی سرحدیں وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے ملتی ہیں۔ اس خطے پر آریاؤں،
ایرانیوں،یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، افغانوں اور انگریزوں نے حملے
کئے اور قبضہ جمایا۔
23 مارچ کو قرار داد پاکستان کا منظور ہونااور ملک کا اسلامی جمہوریہ
پاکستان بننا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل یہ دن تجدید عہد و عزم کا
دن ہے۔ اس دن تجدید عہد کرنا چاہیے کہ پاکستانی اس ملک کی تعمیر وترقی میں
اہم کردار ادا کریں گے۔ اس ملک کو خوشحال بنائیں گے۔ اور اتحاد واتفاق سے
اس ملک کو آگے لے کر جائیں گے اور اس کا نام روشن کریں گے۔
قرار داد پاکستان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلا شبہ پاکستان ایک
نظریئے کی پیداوار ہے۔ دو قومی نظریہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں
جاسکتا۔مسلمان اور غیر مسلم کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔ بلا شبہ ان کے رنگ ،
زبانیں، لباس ایک جیسے ہوں لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کرسکتے اور
نہ ہی ایک تھالی میں کھانا کھاسکتے ہیں۔ وہ گائے کا پیشاب پیتے ہیں اور سور
کا گوشت کھاتے ہیں۔ وہ مورتیوں، ستاروں، سورج، درختوں،سانپوں، چوہوں، گائے
، سور کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان حلال کھاتے ہیں، ایک خدا کو مانتے ہیں اور
نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔پاکستان ایک معجزہ ہے اور اب استحکام اور تحفظ
پاکستان ایک آزمائش ہے۔ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان جنوبی ایشیا کے
مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے اور مضبوط ومستحکم پاکستان سے ہی
مسئلہ کشمیر حل کرنے میں مدد ملے گی اور اس خطے کے مسلمانوں کے مفادات کو
فروغ ملے گا۔اگر یہاں قرآن وسنت کو من وعن نافذ کردیا جائے تو ہر ایک کو
آزادانہ زندگی گزارنے میں کوئی مشکل نہ ہو گی۔کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں
کی نسل کشی کی قیمت پر بھارت سے یک طرفہ دوستی اور تجارت قرار داد پاکستان
کے منافی ہے۔قربانیوں سے حاصل کیا گیا ملک استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس
میں ہر کسی نے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ۔ |