شام کاتاریخی شہرحلب روسی جنگی طیاروں کی
وحشیانہ بمباری سے ایک مرتبہ پھرلہولہوہے اور اس روسی بمباری کے کئی ہولناک
پہلو ہیں۔یہ علاقہ پہلے ہی بشارالاسدکے جنگی طیاروں اورٹینکوں کی اندھی
بمباری کے باعث عملاًکھنڈرات کامنظرپیش کررہاہے۔ بشار الاسدنے اپوزیشن سے
تعلق کی سزا دینے کیلئے اس علاقے کی ناکہ بندی کررکھی ہے جس سے اس علاقے کی
آبادی کابڑاحصہ پانی اورخوراک کاہی نہیں،زخمیوں اورمریضوں کیلئے ادویات کی
بھی سخت قلت کاشکارہے۔عالمی سطح پربشارالاسدکے سب سے بڑے اورکھلے سرپرست
روس نے اپنے اتحادی (بشارالاسد)کے سیاسی مخالفین اورمغربی ممالک کے حمائت
یافتہ شامی اپوزیشن اتحادکوبمباری کانشانہ بنایاہے۔ روسی بمبار طیاروں نے
یہ بمباری ایک ایسے پس منظرمیں کی ہے جب محض چنددن قبل میونخ میں عالمی
طاقتوں نے شام میں جنگ بندی کااگلے ہی ہفتے سے عملدرآمدشروع کرنے کیلئے
کہاگیاتھالیکن میونخ میں جنگ بندی کیلئے متفق ہونے کے بعدروس نے حلب میں
بمباری کرکے اپنی اس جنگ بندی کے پرخچے اڑادیئے ہیں۔
بشارالاسدنے اس بمباری کے بعداپنے ایک انٹرویومیں جاں بحق ہونے والے بچوں
اورشہریوں کے بارے میں کسی افسوس کا اظہارکرنے کی بجائے میونخ میں ہونے
والی جنگ بندی پرعمل شروع ہونے میں کئی تکنیکی اورعملی مشکلات کو
بطورعذرپیش کیا ہے،گویابشارالاسدنے پچھلے سال جولائی میں روس سے مداخلت کی
جودرخواست کی تھی کہ ان کے مخالف عوام اوراپوزیشن کو سبق سکھایاجائے،آج بھی
وہ اسی جبرکے ساتھ اپنے عوام سے نمٹنے کیلئے اپنے سب سے بڑے اتحادی کوکھلی
چھٹی دیئے رکھنے پرمصرہیں اورکسی قسم کی جنگ بندی قبول کرنے
کوتیارنہیں۔واضح رہے کہ بشار الاسد بنیادی طورپر ایک ڈاکٹرہیں لیکن اپنے
عوام کے ساتھ تقریباًپانچ برسوں سے حالت جنگ میں ہونے کے بعدوہ خونریزی کے
اس قدررسیا ہو چکے ہیں کہ روسی بمباری کے بعدایک باربھی اس جانب ان کی
نظرنہیں گئی کہ روسی طیاروں نے تین اسپتالوں میں زخمیوں،مریضوں اور دو
اسکولوں میں بچوں اوراساتذہ کوپوری بے رحمی کے ساتھ لہولہوکیا۔اس بمباری سے
جاں بحق ہونے والوں میں ننھے معصوم بچوں کی بڑی تعدادشامل ہے۔
صرف یہی نہیں پچھلے چندہفتوں کے دوران شام میں بمباری اوردوسرے آتشیں
بارودسے اب تک کم ازکم ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزارکوچھوچکی ہے لیکن بشار
الاسداوران کے اتحادی یادوسرے جنگی فریقوں میں سے کوئی بھی ارضِ شام پر
بہنے والے اس خون پرقطعاًپریشان نہیں بلکہ لگتایہ ہے کہ شام میں آئندہ دنوں
ایک بڑی جنگ لڑنے کی تیاری زوروں پرہے۔ اس ساری جنگ کاایک خطرناک
پہلوخالصتاًاقتداراوربالادستی کی آشاہے جس میں صرف بشارالاسداوران کے ہمنوا
جنگ بندی پراتفاق ہونے کے باوجود ظلم کرنے پرمصر ہیں ۔ عالمی فرانسیسی
تنظیم کاکہناہے کہ اسپتال کی تباہی سے اس علاقے میں مقیم چالیس ہزارسے
زائدافرادعلاج معالجے کی سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔روسی طیاروں نے
مہاجرکیمپ کے طورپر استعمال ہونے والے ایک اسکول اورایک دوسری اسپتال پربھی
حملہ کیا جبکہ ترکی سے بے گھرشامی شہریوں کیلئے امدادلانے والے قافلے کے
ٹرک بھی نشانہ بنے۔
مزیدبرآں ترکی نے خبردارکیاہے کہ وہ اپنی سرحدسے منسلک شامی علاقے عزیزیہ
پرکسی صورت روس نوازکردگروپ ''وائی پی جے'' کاقبضہ برداشت نہیں کرے گا۔ترک
فوج نے نے وائی پی جے کے ٹھکانوں پرگولہ باری کاسلسلہ جاری رکھااوراسے کافی
پیچھے دھکیل دیا۔ترک وزیراعظم نے وائی پی جے کو الٹی میٹم دیاہے کہ وہ حلب
میں ترک سرحدکے قریب بھی مت آئیں جہاں اب بیرونی قوتیں بھی پوری طرح ملوث
ہیں۔اب تک کے اعدادوشمارکے مطابق شام کی سرزمین پرجاری تقریباًپانچ سال
پرمحیط لڑائی میں چارلاکھ سے زیادہ شہری مارے جاچکے ہیں اوران مارے جانے
والوں میں وہ معصوم بھی شامل ہیں جنہیں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے موت کی
نیندسلادیاگیا۔اگرچہ کیمیائی ہتھیاروں کے اس بہیمانہ استعمال کے بعدشامی
رجیم کوان مہلک ہتھیاروں سے ایک معاہدے کے تحت محروم کرتے ہوئے تلف
کردیاگیا لیکن اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ان کے خلاف کشت وخون کایہ کھیل آج بھی
جاری ہے۔اس خونی کھیل کے نتیجے میں شام کے ٢٢ملین شہری بے گھراوربے وطن
ہوچکے ہیں اوردنیابھرمیں مختلف ممالک میں دربدرہیں یاموسمی شدتوں کاعارضی
مہاجرکیمپوں میں سخت مشکلات کا مقابلہ کررہے ہیں۔
ہزاروں بچے اپنے والدین کے اس سفرمہاجرت کے دوران عملاًبے وطن پیدا ہوئے
لیکن اس کے باوجودسنگدلی کایہ عالم ہے کہ پوری دنیاشام کے حوالے سے اپنے
اپنے ایجنڈے کے مطابق مفادات کی جنگ سے لگنے والی آگ پرتیل ڈال رہی ہے۔ایک
طرف داعش اورالنصرہ فرنٹ ہیں اور دوسری جناب بشار الاسدکی رجیم اپنے پورے
قہروغضب کے ساتھ سرگرم ہے۔بشاررجیم کاسب سے بڑاسرپرست روس،اس رجیم کاسب سے
بڑادوست ایران اپنی غیراعلانیہ فوجی قوت،مہارت کے ساتھ اورایران نواز شیعہ
ملیشیاحزب اللہ شام میں جنگی محاذ پرسرگرم ہیں۔ان کے مقابل مغربی ممالک کی
حمائت یافتہ شامی اپوزیشن جماعتوں کے اتحادکی چھتری تلے لڑنی والی آزادشامی
فوج ہی نہیں مغربی ممالک کا فوجی اتحادبھی فضائی کاروائیوں کے حوالے سے
مسلسل کاروائیوں میں مصروف ہے۔اس مغربی اتحادمیں عرب دنیا کے اہم ممالک
سعودی عرب اورمتحدہ امارات بھی شامل ہیں گویا ایک کثیرالجہتی خون آشام جنگ
نے پورے شام کولہولہو کررکھاہے۔
لیکن شام کی صورت حال میں صرف ایک خونی منظر نامہ اہم نہیں ہے بلکہ خطے میں
عراق اورشام کے توسط سے اپنی اپنی تزویراتی ہیئت کومضبوط تر کرنے،خطے میں
اپنے قدم جمانے اوردوسرے ملکوں کوکہنی مارکرآگے نکلنے کیلئے جنگی بنیادوں
کے ساتھ ساتھ جہاں مشرقِ وسطیٰ کے کئی کھلاڑی اپنا اپنا ہدف پاناچاہ رہے
ہیں،اس ناطے ایران،سعودی عرب،ترکی اوربعض دوسرے ممالک نئی دوستیوں
اورنفرتوں کے رشتوں میں ڈھل رہے ہیں۔یہ ممالک جہاں شام کے اندراپنے مفادات
کوتحفظ دینے کیلئے ہرقدم اٹھانے کیلئے تیارنظرآرہے ہیں ان میں سے کئی براہِ
راست مصروف پیکار اتحادوں کا فعال حصہ بھی ہیں اوربعض اپنے اپنے ملکوں کی
پراکسی وارلڑرہے ہیں،انہی میں سے کئی اپنی فرقہ وارانہ اورسیاسی قربتوں اور
دوریوں کی جنگ میں مصروف ہیں ۔مالی اورمعاشی مفادات ہی نہیںمشرقِ وسطیٰ میں
اپنی عسکری اورسیاسی بالادستی کیلئے کوشاں اسرائیل سمیت عرب وعجم سبھی
کااپناااپناگیم ہے اگرچہ بالادستی کی اس گیم میں خون کی بارش ہے کہ تھمنے
میں نہیں آرہی۔
شام میں بشارالاسدکے مستقبل کوبچانے کیلئے روس،ایران اوردوسرے نیم اتحادیوں
کی سرگرمیوں میں نسبتاًتیزی ہے ۔اس طرح امریکی قیادت میں مغربی وعربی
دنیابھی اپنے اپنے اندازردّعمل ظاہرکررہی ہے۔اوبامانے پیوٹن سے فون پر
رابطہ قائم کیاہے،اس فون کال پربظاہراتفاق امن کیلئے کوششیں تیزکرنے پر بات
ہوئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ امریکاسمیت پوری مغربی دنیاشام ہی نہیں مشرقِ
وسطیٰ کے حوالے سے بھی بری طرح مصلحتوں کاشکارہے۔یہی وجہ کے کہ یہ ممالک
شام کے بارے میں ایساکوئی قدام کرنے سے گریزاں ہیں جو خطے میں
پائیدارامن،بہتری اورسکون کاذریعہ بن سکتاہو۔امریکااورمغربی ممالک ایک جانب
شام میں بشاررجیم کوپسندنہیں کرتے لیکن دوسری جانب خطے میں شام کی سب سے
زیادہ حمائت کرنے والے ایران کومعاشی اورسفارتی تناظرمیں پوری طرح سہولت
کاری دے رہے ہیں۔روس کے ساتھ شام کے معاملے میں اختلاف ہے تاہم کوئی
ایساقدم اٹھانے سے لرزاں ہیں جواس ناطے ظاہری سردجنگ کو کسی ایسی جنگ میں
تبدیل کردے جس میں روس اوراس کے نئے پرانے اتحادیوں کے ساتھ کھلی مبارزت
کاباعث بن سکے البتہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکااور مغرب کوروس کے ساتھ
سردجنگ کیلئے ہی نہیں اسرائیل کے تحفظ کیلئے بہ اندازدیگربہت کچھ کرنے
اورعرب دنیاکی معیشت واستحکام کواس جنگ کی آگ کی نذرکرنے کے ساتھ ساتھ
اسلحہ بیچنے کایہ سنہری موقع بھی ہاتھ سے جانے دینے کوتیارنہیں۔
شام کے ساتھ ساتھ خطے کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظرسعودی عرب اور اس کے
اتحادی بھی ایک نئے طریقے سے منظم ہونے اورجواب دینے کیلئے اکٹھے ہورہے
ہیں۔سعودی عرب جواس سے پہلے بھی امریکی قیادت میں مغربی اتحادکا حصہ ہوتے
ہوئے شام میں فضائی حملوں میں شریک رہاہے،شاہ سلمان کی زیرقیادت اب مختلف
اندازمیں جواب کا عندیہ دے رہا ہے۔اس پیرائے میں سعودی عرب کی تیاریاں صرف
شام کے حوالے سے اہم نہیں بلکہ جس حجم اور وسعت کے ساتھ سعودی عرب
خودکوسفارتی وعسکری محاذوں پر گرم کررہاہے اس کے لامحالہ اثرات بشارالاسد
اوران کے قریبی دوست ایران اورخطے میں اس کے مفادات پربھی مرتب ہوں گے۔اس
کی تازہ علامت سعودی عرب کے شاہ خالد مرحوم کے نام سے منسوب فوجی شہر
حفرالباطن لگ بھگ ٢٠ملکوں کی مشترکہ فوجی جنگی مشقوں کااہتمام ہے۔خطے کی
تاریخ کی اہم ترین مشقوں میں جوہری صلاحیت اورمسلم دنیامیں تزویراتی
اعتبارسے غیرمعمولی اہمیت کاحامل پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔سعودی عرب میں
ان اہم مراحل پرجنگی مشقوں میں حصہ لینے والے ممالک سعودی عرب کے علاوہ
متحدہ عرب امارات،کویت،بحرین، مراکش،مالدیپ،اردن،مراکش،تیونس،
قطر،ملائشیا،جبوتی،اومان،موریطانیہ، ماریشس،سینیگال اورسوڈان نمایاں ہیں۔
ان فوجی مشقوں میںپاکستان کی شرکت کوحالیہ مہینوں میں سعودی عرب کی طرف سے
سعودی عرب کے تشکیل دیئے گئے ٣٠رکنی فوجی اتحادکے تناظر میں اہم سمجھاجائے
گا۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب جوحالیہ مہینوں میں ترکی کے نسبتاًزیادہ قریب
محسوس ہورہاہے،اس کے ساتھ سعودی فضائیہ کی پانچ روز پرمحیط جنگی مشقیں بھی
اہم پیش رفت ہے۔ ترک وزیر خارجہ کے تازہ دورۂ ریاض کے دوران یہ بھی دیکھنے
میں آیاکہ دونوں ممالک کم ازکم شام کے پس منظرمیں قریب قریب ایک جیسے مؤقف
پرقائم ہیں۔دونوں شامی اپوزیشن جماعتوں کے اتحادکوہرطرح کاتعاون اورحمائت
دینے کے علاوہ سفارتی محاذپر اس اتحاد کے ساتھ کھڑے ہیں۔سعودی عرب کی طرف
سے سفارتی میدان میں کی گئی تازہ پیش رفت کے ماحول میں سعودی عرب کی جانب
سے یہاں تک کہہ دینا کہ ہم ضرورت پڑنے پراپنی زمینی فوج بھی شام بھیج سکتے
ہیں۔اس بیانئے سے ایک نئی صورتحال بن سکتی ہے لیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں
کہ سعودی عرب یہ سب کچھ یکطرفہ اندازمیں کررہاہے۔ایران بھی اپنے اندازمیں
نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنی بالادستی کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے
جانے دینے کو تیارہے،وہ عسکری اعتبارسے عراق سے شام اورشام سے لبنان تک
اپنی براہِ راست یابالواسطہ موجودگی کسی نہ کسی صورت یقینی بنانے کیلئے
مسلسل متحرک ہے۔
خودایران کے اپنے ہاں سے دوسرے ممالک میں فرقہ وارانہ اسلوب سفارت و قرابت
بھی نیانہیں ہے،اس کی ایک حالیہ مثال سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو
پھانسی دینے کے بعدایران کاپوری شدت سے اپنے اندراورخطے میں ردّعمل دینا
اوربعدازاں تمام سفارتی آداب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے تہران میں سعودی
سفارت خانے پرحملہ کرکے اسے جلا دینا اس کے تعصب کا ایک بدترین اظہار ہے
۔اس پرمستزادمیونخ میں ایرانی وزیر خارجہ کی تازہ گفتگوبھی اس پس منظر میں
اہم ہے۔ایرانی نمائندے نے امن کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ کااظہاراس طرح کیا
کہ سعودی عرب ہی نہیں پاکستان اوردوسرے ممالک کیلئے بھی اپنے بھائیوں کی
اصطلاح استعمال کی ہے کہ وہ ہر ممکن تعاون کرتارہے گالیکن بھائیوں کی یہ
اصطلاح برادراسلامی ممالک کیلئے نہیں بلکہ متعلقہ ممالک میں شیعہ مسلک کے
وابستگان کیلئے ہے گویاایران دوسرے مسلم ممالک میں شیعہ کمیونٹی کے ذریعے
اپنی سیاست اور پراکسی کی شعوری کوشش سے پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں جبکہ اس سے
قبل ایران نے بھی خانہ جنگی سے تباہ حال عرب ملک شام میں اپنے کٹھ پتلی
صدربشارالاسدکے دفاع کیلئے فضائی کاروائیوں کااعلان کیاہے۔ایرانی فضائیہ کے
ترجمان کا کہنا ہے کہ صدربشار الاسدکی جانب سے مداخلت کی درخواست پرہماری
فضائیہ فوری حرکت میں آئے گی۔
ایک اورایرانی خبررساں ادارے نے ایرانی فضائیہ کے ترجمان فرزاداسماعیلی کے
حوالے سے بھی کہاہے کہ ان کاملک دمشق کی جانب سے فوجی مداخلت کی درخواست
پرفوری کاروائی میں ذرابھی تاخیر نہیں کرے گا۔فضائی شعبے میں بھی شامی فوج
کی بھرپوررہنمائی اورمعاونت کی جائے گی اگرچہ ایران ۲۰۱۱ء سے ہی شام میں
بشار الاسدکے دفاع میں ایرانی افواج باضابطہ حصے لے رہی ہے مگرتہران کی
جانب سے فوجی مداخلت کوعسکری مشاورت اور رہنمائی کا نام دیاجاتاہے حالانکہ
خودایرانی ذرائع ابلاغ تسلیم کرچکے ہیں کہ شام میں لڑتے ہوئے ایران کے
سینکڑوں فوجی افسر،سپاہی اورغیرسرکاری جنگجوہلاک ہو چکے ہیں،اس پر مستزادیہ
کہ ایرانی فضائیہ کے ترجمان نے کہاکہ شام میں تہران کی فوجی مداخلت سپریم
لیڈرآیت اللہ خامنہ ای کی براہِ راست ہدائت کے عین مطابق ہے۔
اس طرح کامؤقف روس کاہے کہ وہ بشارالاسدکی درخواست پرہی شام میں دہشت گردوں
کونشانہ بنا رہا ہے ۔اس ناطے روس کے پاس بشارالاسدکی جولائی۲۰۱۵ء کوملنے
والی دعوت اورماہِ اگست میں روس اوربشارالاسدکے مابین طے پانے والاایک
معاہدہ بھی ایک دلیل کے طور پر دیا جاتا ہے جبکہ روسی پارلیمنٹ کے ایوانِ
بالانے ستمبر۲۰۱۵ء میں روسی صدر پیوٹن کواپنی فضائیہ شام بھجوانے کی اجازت
دی۔یوں اگرایران کوبھی شامی رجیم کی طرف سے ایسی ہی دعوت مل گئی تومشرقِ
وسطیٰ میں ایک ایسی جنگی کھچڑی پکنے کاخطرہ ہے جس سے صرف یہ خطہ ہی نہیں
بلکہ دنیاکے دیگراہم ممالک بھی متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکیں گے۔سعودی عرب
کاشام میں داعش کے خلاف زمینی فوج اتارنے کا انتباہ سامنے آچکا ہے، ایسے
میں کیالہولہوحلب کے ساتھ پورے شام کوہی غسل خون دینے کاخطرہ پیدانہیں
ہوجائے گا؟
مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں،وہاں
کون بتلائے،کہاں ظلم ہوا،کس پہ ہوا،کس نے کیا؟ |