ہمارے مسیحا اور حکمرانوں کی ترجیحات

ہم اپنے حکمرانوں کوکیا کہیں؟بے حس،مفادپرست،ظالم،خودغرض،ضمیر فروش ان کے لئے اب یہ الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں،انہیں ذرا سی خراش آ جائے تو امریکہ ،برطانیہ کے ڈاکٹرز کے پاس علاج کے لئے فوراً پہنچ جاتے ہیں،مگر ان کی عوام کے بچے ماحولیاتی آلودگی،گندی اور ناقص غذا،آلودہ پانی کی وجہ سے انتہائی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں،لیکن ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ،ان سے ہسپتال بھرے پڑے ہیں،وہاں ادویات کا انتظام نہیں،ڈاکٹرز موجود نہیں، ڈاکٹر کیوں ہوں ؟انہیں تو پینے کے پانی تک کی سہولت میسر نہیں، وہ اپنی جیب سے پانی ،کھانا ،چائے پیتے ہیں،جب ڈاکٹرز 36گھنٹے کی ڈیوٹی دیتے ہیں تورات کو چند گھنٹے آرام کرنے کے لئے کمرے تک میسر نہیں ،انہیں خدمت خلق کا درس دیا جاتا ہے،رات دن کام کرتے ہیں لیکن انہیں ایک کلرک سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے، وہ مریض کو کیا دیکھیں گے،اسی لئے ایک سوچ ہے کہ جیسے ہی وہ پروفیسر بنتے ہیں ،دونوں ہاتھوں سے مریضوں کو لوٹتے ہیں،کیونکہ ان سے زیادتیاں ہوئی ہوتیں ہیں ،وہ مریضوں سے اس بے انصافی کا بدلہ لیتے ہیں،جو کہ غلط رویہ ہے،(ہر پروفیسر ایسی ذہنیت نہیں رکھتا)

ہمارے ہاں ڈاکٹروں سے زیادتی تو اپنی جگہ ،مگرہسپتالوں میں صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے، یہاں تک کہ بڑی تعداد میں چوہے عام چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں،وہاں کے باتھ روم،کچن ،واڈزکہیں پر بھی قابل رشک صفائی کا انتظام نظر نہیں آتا ،ان چوہوں سے بچوں کی وارڈز تک نہیں بچی ہیں، کئی شیر خوار بچوں کی آنکھیں نہیں کھلیں اور چوہوں نے انہیں کاٹ لیا ہے،لیکن جنہیں انہوں نے کاٹا تھا ،ان پر انہیں شک تھا کہ یہ ہماری بات سن رہے ہیں، مگر مان نہیں رہے ،کیونکہ وہ تو یہاں پیدا ہونے والے ہر بچے کو انسانی ہمدردی کے طور پر سمجھاتے ہیں کہ تم دنیا میں اس ملک میں پیدا ہو ئے ہو،جہاں زندگی مشکل اور موت آسان سے مل جاتی ہے، درد سہنے کی عادت ابھی سے ڈال لو،یہاں جنگل کا قانون ہے ،تم پیدا ہوتے ہی ایک لاکھ 20ہزار کے مقروض ہو گئے ہو،تم سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوئے ہو ،تمہیں یہاں سے پھولوں کا گلدستہ اور مستقبل میں صحت کی انشورنس نہیں بلکہ بیماریوں کا تحفہ ملے گا،تعلیم اتنی مہنگی ہے جو تم حاصل نہیں کر سکو گے،غلامی کا طوق تمہارا نصیب ہے جو تم نے ا گلے میں ڈال لیا ہے۔

حکمرانوں کو ان باتو ں کی نہ شرم ہے اور نہ ہی حیاء آتی ہے ۔اُن کا ذہنی معیار کچھ ایسا ہی ہے ،اس لئے انہوں نے ہسپتالوں میں چوہوں کی پیداوار بڑھنے کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے ، ہر سرکاری ہسپتال میں ان کے یہ نمائندے بڑی تعداد میں موجود ہیں ،جو ان کا کام بغیر کسی معاوضے کے کر رہے ہیں۔

انسان بیمار تو ہوتا ہی ہے،اس لئے ہر کسی کا ہسپتال سے واسطہ پڑتا رہتاہے ،ایسے حالات کو دیکھ کر وزارتِ صحت ،سیکرٹری صحت کے دفاتر میں اکثر شکایات جاتی رہتی ہیں، مگر ان کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگتی ،کیونکہ ان کی فیملیز تو برطانیہ ،امریکہ میں علاج کرواتیں ہیں، انہیں یہاں کے ہسپتالوں سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔ہسپتالوں میں پڑے بے بس مریضوں کی ایک سے بڑھ کر ایک درد ناک کہانیاں ہیں ، انتہائی مہنگی ادویات کا حصول مریض کو نہ صرف زیادہ مریض بناتا ہے بلکہ ان کے لواحقین کو بڑی اذیت کا شکار بنادیتا ہے۔ ڈاکٹرز کو مسیحا سمجھنے والے ان سے ادویات کا حصول بھی چاہتے ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ڈاکٹرز ان کی خدمت کرتے ہوئے خود بھی اکثر بیمار ہو جاتے ہیں ،انہیں بھی ہسپتال سے کوئی دوا نہیں ملتی تو وہ بے چارے ان کو کہاں سے ادویات لا کر دیں گے،لیکن ابھی انسانیت بلکل ختم نہیں ہوئی،کیونکہ ڈاکٹرر روزانہ موت کو بہت قریب سے دیکھتا ہے، اس لئے انسانیت کی قدر ان میں عام طور پر زیادہ ہوتی ہے ،وہ اپنے طور پر جتنا ہو سکے غریب مریضوں کے لئے مدد کرتے ہیں،جو کہ نا کافی ہے۔

حکومت کی ترجیحات میں صحت بلکل نہیں ہے،اس کا اندازہ ہسپتالوں کی خستہ حالی سے ہوتا ہے۔اسی لئے بعض دردِ دل رکھنے والے پروفیسرز نے اپنے طور پر اپنے وارڈز کو بہتر بنانے کے لئے ذاتی کاوشیں کرتے ہیں،اسی طرح کی بہت سی کوشش سروسز ہسپتال کے سرجیکل یونٹ میں دیکھنے میں آئی ،جو پروفیسر ڈاکٹر جاوید گردیزی کی قیادت میں کام کر رہی ہے،یہ پاکستان کے ایک قابل و معروف سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ نفیس اور شفیق انسان ہیں،ان کے والد محترم بھی پاکستان کے معروف سرجن رہے ہیں،وہ اپنے مریضوں اور شاگرد ڈاکٹروں میں انتہائی یکساں مقبول ہیں۔ وہ خود ایک مہربان شخصیت ہیں ،اسی لیے ان کے نیچے کام کرنے والے ڈاکٹرز بھی انہیں کی تائید کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے یونٹ کو انتہائی منظم رکھا ہے،یونٹ کے ڈاکٹرز نے مل کر ایک چیرٹی بنا رکھی ہے،جو ان کے اپنی جیب خرچ سے چلتی ہے، انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سا مریض مجبور ہے،اس لئے وہ اس کا علاج چیرٹی سے کرتے ہیں۔ یہ بڑی کاز میں چھوٹا سا حصہ ہے لیکن ان مریضوں کے لئے بہت بڑا ہے جو آپریشن تھیٹر میں موت کے منہ سے نکل آتا ہے۔اگرچہ ادویات سپلائی کرنے والے دوسروں کی طرح انہیں بھی بہت سی آفرز کرواتے ہیں ،مگر ڈاکٹر جاوید گردیزی اور ان کے یونٹ کے دوسرے ڈاکٹر ان آفر کوقبول نہیں کرتے ،ایسے مسیحا ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں جو ہمارے ہیروز ہیں ،جنہیں صرف بے بس لاچار لوگوں کی دعائیں چاہیں،تاکہ وہ خداتعالیٰ کے حضور خشنودی حاصل کر سکیں۔

ہم ڈاکٹروں پر تنقید تو بہت کرتے ہیں ،مگر ان کی خدمت خلق پر ستائش دینے میِں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔اگر ان شب وروز خدمت کرنے والے مسیحاوں کا معاوضہ دیکھا جائے تو شرم آتی ہے ،مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات دوسری ہیں ۔وہ سڑکیں ،بریج ،اورنج ٹرین بنا کر آئندہ اقتدار کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ،اسی لئے عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کر رکھی ہے۔ ۔حکومت پنجاب کے بلندو بانگ دعوے تو بہت ہیں ،مگر کام کی صورت حال بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ایک وزٹ سے کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔انہیں اپنے ذاتی مفاد ہو تو دنیا کی کوئی طاقت میٹرو،گرین ٹرین جیسے متنازعہ پروجیکٹ بند نہیں کروا سکتے ،مگر اگر بے بس عوام کی خراب صحت کی باری آئے تو بجٹ کی عدم دستیابی کا رونا رویا جاتا ہے۔انہیں ہوش کے ناخن لینے ہونگے ،حقیقت میں صحت کے شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے،جہاں غریب عوام کو صحت کی سہولیات دینے کے علاوہ ڈاکٹرز کی پریشانیوں کو بھی سمجھنا ہو گا،یہ درست ہے کہ یہ ایک خدمت خلق کا پیشہ ہے ،مگر ہر انسان کی زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں،انہیں بہت زیادہ نہیں تو کم سے کم ان کے معیار اور عہدے کی حیثیت کے مطابق بہتر سے بہتر سہولیات دینا حکومت کافرض بنتا ہے۔اگر حکمرانوں نے اپنی ترجیحات کی سمت کودرست نہ کیا اور عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کا سلسلہ برقرار رکھا تووہ دن دور نہیں جب ان مسیحاؤں اور مریضوں کی آہیں ہی دردر کی ٹھوکریں کھلوانے کے کافی ہوں گی۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.