مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں
انتہائی عظمت و اہمیت کا حامل دن ہے23مارچ وہ عظیم دن ہے انگریز اور ہندؤں
سے نجات پانے کیلئے مسلمانان ہند نے الگ مملکت کی قرارداد منظور کی تھی
لیکن افسوس در افسوس وہ قرارداد جس مقصد کے تحت منظور کی گئی تھی وہ مقصد
آج75سالوں بعد بھی پورا نہ ہو سکا ،22,23,24مارچکو بادشاہی مسجد کے قریب
وسیع و عریض میدان موجودہ اقبال پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تین روزہ
اجلاس منعقد ہوا جس میں لاکھوں مسلمانان ہند اکھٹے ہوئے اس تاریخی اجلاس
میں وہ قرارداد منظور کی گئی جو بعد میں قرارداد لاہور قرار پائی 22مارچ
1940کو اس اجلاس کی افتتاحی نشت سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح
نے دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کی مسلمان ہرگز ایک اقلیت
نہیں بلکہ ایک قوم ہے ہندو اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے جس
کی بنیاد باہم ودیگر متضاد خیالات اور نظریات پر ہے ایسی اقوام کو ایک واحد
ملک میں اکھٹا رہنے پر مجبور کرنے سے جبکہ ایک قوم آبادی کے لحاظ سے اکثریت
اور ایک اقلیت میں ہے تو ضرور بے چینی اور کشمکش میں اضافہ ہو گا اسی اجلاس
میں قائد اعظم نے پہلی بار یہ تصور پیش کیا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ
وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی دو قوموں کا مسئلہ ہے اور
انہوں نے کہا ہندؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا واضح ہے کہ ایک مرکزی
حکومت کے تحت انکا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا انہوں نے کہا اس کی ایک
راہ ہے کہ انکی علیحدہ مملکتیں ہوں جہاں مسلمان اپنی پسند اور امنگوں کے
مطابق اور اپنے نصب العین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی،ثقافتی،سماجی و
سیاسی زندگی کو بھر پورطریقے سے ترقی دے سکے دوسرے دن 23مارچ کو انہی خطوط
پر اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی
جسمیں کہا گیا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ
مسلمانوں کو قبول ہو گا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی
جداگانہ حد بندی نہ ہو -
یہ محض ایک خواب تھا کہ ہندو اور مسلم اکھٹے چل سکتے ہیں ہندو اور مسلم دو
جدا ،جدا فلسفہ رسمو رواج سے تعلق رکھتے تھے نہ تو وہ آپس میں شادی کر سکتے
ہے اور نہ ہی مل سکتے ہیں دونوں کی تہذیب مختلف ،نظریات مختلف،ثقافت مختلف
اور زندہ رہنے کے بارے میں دونوں کے عقائد متضاد تھے یہاں کہ ایک قوم کا
ہیرو دوسری قوم کا دشمن دونوں ایک دوسرے کی شکست و فتح ہے اسی منظر نامے
میں 23مارچ 1940کو ہمارے درمیان ایک جوش تھا ایک جنون جو لہو میں سرائیت کر
چکا تھا آنکھوں میں آنسوں تھے ساتھ کھڑے لوگوں سے کوئی رشتہ نہ تھا لیکن وہ
سبھی اپنے ہی محسوس ہوتے کیونکہ سب ایک احساس کی مالا میں پروئے ہوئے تھے
ان سب کے دل و زبان کا ایک ہی نعرہ تھا پاکستان،بن کے رہے گا پاکستان اور
قیام پاکستان کے حصول کی جدوجہد نے انہیں ایک کر دیا تھا اور یہی تحریک
قیام پاکستان کا نقطہ آغاز بنی 7سالوں میں شب و روز کی کی ہوئی محنتوں کا
ثمر تھا لاکھوں مسلمانوں کی شہادتوں کا ثمر تھا ہزاروں افراد جنہوں نے اپنی
آنکھوں کے سامنیت اپنے لخت جگروں کو جلتے دیکھا ان کے صبر و حوصلے کو داد
دینے کا ثمر تھا اور بالاخر 14اگست1947کو مملکت اسلام آزاد ہوئی -
آج 23مارچ2016کوپاکستان آزاد ہوئے 68سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان
68سالوں میں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒکا خواب تعبیر نہ ہو سکا بانی پاکستان
محمد علی جناح کی رحلت کے بعد قرارداد پاکستان کے اصل مقاصد کے خلاف ایسی
سازشیں شروع ہوئی جن کا تسلسل تاحال جاری ہے پاکستانی کی آزادی کے بعد
انگریز تو یہاں سے دفع ہو گیا تھا لیکن اپنے کارندے یہاں چھوڑ گیا تھا
جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں شروع کر دی تھی قیام پاکستان
کے وقت جب گورے ،کالے ،پھٹان،پنجابی،سندھی، بلوچی،سرایئکی ،دیوبندی ،بریلوی
حتی کے تمام مسلمان ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد تھے اور سب کا ایک ہی مقصد
تھا کہ قیام پاکستان اور اسلامی نظام جس میں ہم سب مسلمان اپنی امنگوں کے
مطابق زندگی گزار سکیں لیکن دشمنان اسلام،دشمنان پاکستان نے ہمارے اندر
قومیت کی وباء پھیلائی،فرقہ واریت کی وباء پھیلائی ،سیاسی وباء پھیلائی،ملا
و مسٹر کی وباء پھیلائی اور آج ہم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں اﷲ تعالی
قران مجید میں فرماتے ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے لیکن یہ دشمن کی
ایک سازش ہے کہ اس نے آج بھائیوں کو آپس کا دشمن بنا دیا ہمارا خدا ایک ہی
ہے ہمارا پیغمبر ایک ہی ہے ہماری کتاب ایک ہی ہے ہمارا مشن ایک ہی ہے ہمارا
قاز ایک ہی ہے ہم سب پاکستان کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں ہم سب پاکستان کو
اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے ہیں لیکن پھر ہمارے راستے جدا،جدا کیوں ؟آج ہم
آزاد ہو کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے نظریہ پاکستان کا اصل مقصد ہی یہی
تھا کہ اس پاک وطن میں نظام خلافت راشدہ نافذ کرکے عالمی برادری کے سامنے
بطور نمونہ پیش کریں گے قیام پاکستان سے پہلے علی گڑھ میں قائد اعظم محمد
علی جناح سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح ہو گا ـ؟تو ان کا جواب
تھا کہ میں کون ہوتا ہوں آئین دینے والا ہمارا آئین وہی ہے جو 1300برس پہلے
ہمار ے عظیم پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیدیا تھا ہمیں تو صرف اس آئین کی
پیروی کرتے ہوئے اس کا اخذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اسلام کاعظیم نظام
نافذ کرنا ہے اور یہی پاکستان کا آئین ہے 23مارچ کو جو قرارداد پیش کی گئی
تھی اس کا حقیقی مقصد کیا تھاـ؟ہمیں اپنے ملک پاکستان میں آزادی کس غرض سے
درکار تھی ؟کیا ہم ناچ گانے کی آزادی چاہتے تھے؟کیا ہم جوا کھیلنے کی آزادی
چاہتے تھے؟کیا ہمیں عریانی،فحاشی اور بے راہ روی کی آزادی درکار تھی ان
چیزوں میں کون سے آزادی ہے جو کہ ہمیں انگریز کہ دور میں میسر نہ تھی جس
غرض کیلئے آزادی درکار تھی وہ تو یہ تھی کہانگریز نے ہمارے جن قوانین کو
منسوخ کیا تھا انہیں پھر سے جاری کرنے کے قابل ہوں انگریز نے ہماری جس
تہذیب کو مٹایا تھا ہم پھر سے اس کو تازہ کریں واقعہ یہ ہے کہ اگر تقسیم سے
پہلے اگر کسی کو بتایا جاتا کہ پاکستان اس غرض کیلئے نہیں بنایا جا رہا ہے
کہ اسلامی تہذیب کو وہاں زندہ کیا جائے اور اسلامی قانون کو وہاں نافذ کیا
جائے تو مسلمان اپنے خون کا قطرہ تو درکنار اپنے پسینے کا قطرہ بھی بہانے
کو تیار نہ ہوتے ․․․․اس ملک کیلئے ہمارے جن آباؤ اجداد نے اپنی جانوں کے
نذرانے پیش کیے تھے آج ان کی آنکھوں کے سامنے وہی یہودو نصاری کی نام نہاد
ثقافت،وہی انگریز کا نظام تعلیم، وہی مغرب کے بے ہودہ لباس ،وہی معیشت،وہی
سیاست جو پاکستان بننے سے قبل تھی جن شہداء نے پاکستان کے حصول کیلئے اپنی
جانوں کو قربان کیا تھا اسی مقصد کے تحت کہ وہاں مسلمانوں کو تحفظ حاصل
ہوگا آج اس زمین کو مسلمانوں کیلئے تنگ کیا جا رہا ہے -
قائد اعظم نے اپنی بیماری کے دوران اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے
کہا کہ گویا ان کی آخری خواہش تھی جس کا اظہار انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ
کیا ’’تم جانتے ہو مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میرے روح کو
کس قدر اطمینان ہوتا ہے یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا کبھی نہیں کر سکتا
تھا میرا ایمان ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ
پاکستان وجود میں آیا اب پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اسے خلافت راشدہی کا
نمونہ بنائیں -
آج ہمیں تجدید عہد کرنا ہو گا کہ آپس کی تمام رنجشیں مٹا کر غلبہ اسلام و
استحکام پاکستان کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ،آج ہمیں اپنے اندر
23مارچ1940والا جذبہ بیدار کرنا ہو گا ،قومی،لسانی،مسلکی،سیاسی و دیگر
تفاریق کا خاتمہ کر کے ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہو گا قرارداد
پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل قائد اعظم اور ودیگر رہنماؤں کے خواب کو
عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا قرارداد پاکستان کی
روشنی میں مملکت خداد پاکستان کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعیطور
پر شاعر مشرق کا شاہین بننا ہو گا اور عزم کرنا ہو گا اس پاک ملت کے تحفظ
کیلئے اپنے خون کا قطرہ تک بہا دیں گے،انشاء اﷲ
خون جگر دسے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے |