یوم ِ پاکستان

قیام پاکستان سے پہلے پاک و ہند کا علاقہ برصغیر کہلاتا تھا برصغیر پر مسلمانوں نے تقریبا ایک ہزار سال حکومت کی۔ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے اور آہستہ آہستہ اس ملک پر قابض ہوتے ہوتے مکمل طورپر قابض ہوگئے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد انگریزوں نے حکومت پر بھی قبضہ کرلیا۔ چونکہ انگریز نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے وہ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ ہندو خوشامدی بھی مسلم دشمنی کی وجہ سے انگریزوں کے حامی بن گئے اور مسلم دشمنی کے جذبات کو ہوا دینے لگے۔مسلمان ان پاٹوں کے درمیان پس رہے تھے۔ ایک طرف حکومت پر انگریزوں کا قبضہ تھا تو دفاتر پر ہندو قابض تھے۔وہ کسی مسلمان کو کسی افسر کی پوسٹ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔مسلمان دفاتر میں چپراس گیری پا چوکیدار کرکے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ انکا جینا دو بھر ہوگیا۔ دراصل ہندوؤں کا منصوبہ تھا کہ وہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد پورے برصغیر کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیں تاکہ اسلام کا نام ہی ختم ہوجائے۔ اسکے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کو شودر بنا کر انکے کردار کو مسخ کردیں۔ خدا نے مسلمانوں کو سرسید احمد خاں جیسا دوراندیش رہنما عطا کیا انھوں نے ہندوؤں اور انگریزوں کے ارادوں کو بھانپ لیا اسباب بغاوت ہند کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ اس رسالے میں انھوں نے 1857ء کی جنگ کے اسباب اور محرکات لکھ کر انگریزوں کی بدگمانی کو دور کیا اور ثابت کیا اس جنگ کے ذمہ دار نہ صرف مسلمان تھے بلکہ ہندو بھی برابر کے شریک تھے۔ انھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے مسلمانوں اور ہندوؤں کی جداگانہ حیثیت کو واضح کیا۔ ان کے مذاہب اور تہذیبوں کے اختلاف کو اجاگر کیا۔ مایوسی کے اس دور میں چند درد مند رہنماؤں نے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ سر سید احمد خان، مولانا حالی،مولانا ظفر علی خاں،علی برادران اور علامہ اقبال آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پھر کچھ درد مند مسلمانوں نے 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی 1913 میں قائد اعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی.1913ء سے 1920ء تک کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے وابستہ رہے۔ لیکن جب قائد اعظم نے یہ محسوس کرلیا کہ کانگریس ہندوستان میں صرف ہندو راج قائم کرنا چاہتی ہے تو انھوں نے کانگرس سے علیحدگی اختیار کرلی اور 1928ء میں نہرورپورٹ کے جواب میں چودہ نکات پیش کیے۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس آلہ آباد میں منعقد ہوا جسکی صدارت مفکر اسلام شاعر علامہ اقبال نے کی۔انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا. انہوں نے فرمایا کہ "جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقے مسلمانوں کو دے دیے جائیں اور جن علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ علاقے ہندوؤں کو دے دیے جائیں ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں جو کسی صورت بھی اکٹھے نہیں رہ سکتیں" علامہ اقبال کے اس خطبے کو تاریخی اہمیت حاصل ہوگئی جو آج تک خطبہ آلہ آباد کے نام سے تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے. اس خطبے کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ لیا.1934ء میں مسلمان طالب علم چوہدری رحمت علی نے مسلمانوں کیلئے الگ ملک کا نام "پاکستان" تجویز کیا جسے قائد اعظم نے بھی مان لیا. قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ ایک نیا جوش و ولولہ لیکر آگے بڑھی. تحریک آزادی نے زور پکڑ لیا. 21 مارچ 1940ء کو قائد اعظم لاہور کے تاریخی پارک منٹو پارک پہنچے جہاں آج مینار پاکستان ہے. آپکی آمد سے پہلے ہی مسلمانوں کے جلوس کو انگریزوں نے خون میں نہلا دیا۔آپ بہت دکھی ہوئے اس سانحے کی وجہ سے۔ آپ نے 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک قرارداد پیش کی جسے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے اس قرارداد کے منظور ہونے کے بعد تو مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ اس قدر بیدار ہوگیا کہ کبھی مدھم نہ ہونے پایا. ہندو نے طنز کے تیر برسانا نہ چھوڑے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کہہ کر مذاق اڑاتے مگر اﷲ کی کرنی ہوا بھی وہی. قرارداد لاہور قرارداد پاکستان بن گئی. اس قرارداد کے بعد ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا تھا. "بن کے رہے گا پاکستان، لے کے رہیں گے پاکستان،پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ" یہ نعرہ ایسا نعرہ تھا کہ جلد ہی سارے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا. تمام مسلمان ایک ہوگئے. انگریزوں اور ہندوؤں کی بے انتہا رکاوٹوں کے باوجود آزادی کی تحریک ہر مسلمان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگی. آخر کار قائد اعظم کی غیر متزلزل ارادوں کے سامنے انگریزوں اور ہندوؤں کو ہتھیار ڈالنے پڑ گئے. انگریزوں نے مسلمانوں کے مطالبے کو تسلیم کرلیا. 3 جون 1947ء کو دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا. یوں آخر کار مسلمانوں نے لاکھوں جانوں اور مال کا نظرانہ پیش کرکے 14 اگست 1947 ء کو ایک الگ ریاست پاکستان حاصل کرلی۔

پاکستان ایک دن کی محنت نہیں. یا اسے حاصل کرنے میں کسی ایک شخص کا ہاتھ نہیں. یہ تو صدیوں کی محنت ہے لاکھوں جانوں کا نتیجہ ہے. آج پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن یوم پاکستان کے طورپر مناتی ہے. اس دن ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے. تحریک آزادی کے روشن پہلوؤں پر تقریریں کی جاتی ہیں. جلوس نکالے جاتے ہیں. اس دن ریڈیو اور ٹی وی پر خصوصی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں. اخبارات خصوصی ایڈیشن نکالتے ہیں. قیام پاکستان کی کہانی بیان کی جاتی ہے. تحریک آزادی کے دوران پیش آنے والے دلخراش واقعات سنائے جاتے ہیں. جنکو سن کر بے شمار لوگ روتے ہیں اپنے آباؤ اجداد کی ہمت و استقلال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔سپیشل پریڈ کی جاتی ہے. مگر اس سب کے باوجود آج ہم آزادی کا اصل مقصد بھول چکے ہیں. سوچوں کی غلامی میں جکڑ چکے ہیں. مفاد پرستی عام ہے۔ جس مقصد کیلئے ملک حاصل کیا تھا وہ تو کہیں کھو گیا ہے. ہم پھر سے اپنی مرضی سے آزادی کا نام دے کر غلامی کی زنجیروں میں خود کو جکڑتے جارہے ہیں۔ آج ہماری نظر میں آزادی پرچم لہرا دینے، گھروں اور عمارتوں کو سجا دینے، دو چار ملی نغمے کہہ دینا یا پھر تقریر کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جس ملک کو ہم نے اتنی مشکل سے حاصل کیا وہی ملک ہمیں اپنے مستقبل کیلئے غریب لگ رہا ہے۔ہم آج اس ملک سے لینا تو بہت کچھ چاہتے ہیں مگر دینا کچھ نہیں چاہتے۔ ہم ایسے تہواروں پر وطن سے محبت کا عہد تو کرلیتے ہیں مگر نبھانے میں سرے سے قاصر ہیں۔وہ مذاق جو کبھی ہندو ہمارا اڑاتے تھے آج ہم خود اپنا مذاق اڑا رہے ہیں۔ آزادی کے مقصد کی قدر کرنا تہوار منا لینا یا گھر سجا دینا نہیں۔کتنا اچھا ہو جو ہم آزادی لفظ کی روح کو سمجھیں اور لفظوں سے نہیں بلکہ عملی محبت کا ثبوت دیں۔ آزادی کا انمول تحفہ تو ہمیں ہمارے بڑے دے گئے۔ مگر اس آزادی کو قائم و دائم رکھنے کی اس ملک کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اب ہماری ہے۔
تحریر: نادیہ خان بلوچ
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.