23مارچ 1940ء سے 2016ء

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936-1937میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ کو بری طرح سے شکست ہوئی۔ اور برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا دعوی غلط ثابت ہوا۔ مدراس، یوپی،سی پی، بہار اور اڑیسہ میں کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ سرحد اور بمبئی میں اس نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی، بنگال پرجاکرشک پارٹی کو جیت حاصل ہوئی ۔ الغرض ہندوستان کے 11صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ حکومت نہ بنا سکی۔ مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ کسی صوبہ میں اقتدار اس لیے نہ بنا سکی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دوجدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔

دوسری جنگ عظیم کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھرپور منتقلی کے مسئل پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی ۔ تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دیے اس پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ 3روزہ اجلاس 22مارچ کو شروع ہوا۔

4روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35کے قریب خاکسار جان بحق ہوئے۔ اب خطرہ یہ تھا کہ بیلچہ برادر کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں۔ دور اندیش قائد محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دوقوموں کا مسئلہ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا۔ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔

23مارچ کو بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی۔جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حدبندی نہ ہو۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں، مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب، سرعبداﷲ ہارون، قاضی عیسیٰ نے کی۔ اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کرلیا گیا۔ اسی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔

تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ مولانا نعیم الدین مرادآبادی، پیر جماعت علی شاہ سمیت پورے برصغیر سے علماء کرام، مشائخ عظام،تاجر، وکلاء، سٹوڈنٹس سمیت دیگر شعبہ جات کے مسلمانوں نے ساتھ دیا۔ اور پانچ سال کے قلیل عرصہ میں آل انڈیا مسلم لیگ پورے برصغیر کے مسلمانوں کی آواز بن گئی اور 1945-46کے الیکشن میں مسلمانوں نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اور 1947میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

آل انڈیا مسلم لیگ جب تک اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہتی رہی وہ پورے برصغیر میں کہیں سے بھی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ مسلم لیگ کی کامیابی کی وجہ وہ نظریہ بنا جس کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسی دن بن گیا تھا جب برصغیر میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ پاکستان ایک الگ ریاست کے طور پر بننے کی وجہ وہ نظریہ بنا جس کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ مسلمان الگ قوم ہیں اور ہندوالگ قوم ہیں۔ ان کی تہذیب وتمدن ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ دوقومی نظریہ ہی وہ بنیاد تھی جس نے مسلمانوں کو الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب کیا۔ لیکن آج جب مسلمانوں کا نظریاتی ملک اپنی عمر کے 68برس مکمل کرنے کو ہے۔ اس ملک سے مسلمانوں کے تہذیب وتمدن کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

الیکٹرانک میڈیا پر غیر ملکی ڈراموں اور فلموں سے غیر اسلامی تہذیب وتمدن مسلمانوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور ہمارے حکمران یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہمیں جدا صرف اس لائن (باڈر)نے کیا ہے جو ان دوملکوں کے درمیان ہے ورنہ ہم بھی وہی کھانا کھاتے ہیں جو ہندوستان کے لوگ کھاتے ہیں۔ ہم بھی ان جیسے کپڑے پہنچتے ہیں۔ ہم بھی اس خدا کی عبادت کرتے ہیں جس کی ہندوستان کے باسی کرتے ہیں۔

وہ ملک جس کی بنیاد خالصتاً دوقومی نظریہ تھا اس سے قومیت چھینی جارہی ہے اور ترقی کے نام پرغیر اسلامی تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے۔جس کے وجہ سے اسلام کے نام پر ایک ایسا گروہ سامنے آیا جو کل پاکستان بننے کی مخالفت اس لیے کر رہا تھا کہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی ریاست بنائی جارہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم کہتے رہے۔ اور آج پاکستان کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ اس ملک میں اغیار کے تہذیب وتمدن کو فروغ مل رہا ہے۔ مخلوط نظام تعلیم سے شرم وحیا کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ آئے روز اخبارات میں ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے روح کانپ جاتی ہے۔

پاکستان جیسے قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اسلامی جمہوری ریاست بنایاتھا آج ریاست کا اسلام اور جمہوریت چند افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ غریب کی بیٹی ہاتھ پیلے کرنے کے لیے جہیز کی منتظر رہتی ہے تو حکمران ساٹھ ساٹھ کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ تھر میں غریب ایک نوالے اور ایک گونٹ پانی کو ترستا ہے تو حکمران اچھا کھانا نہ ملنے پر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ غریب اپنے بچوں کی بھوک پیاس ختم کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے اور پھر بھی ریاست چلانے کے لیے ٹیکس دیتا ہے۔ لیکن حکمران انہی ٹیکسوں پر عیاشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح نے پہلے پارلیمانی اجلاس میں فرمایا تھا کہ یہ روپیہ عوام کا ہے جس نے کچھ کھانا ہے اپنے پلے سے کھائے لیکن آج اس پارلیمنٹ میں جانے کے لیے کڑوڑوں روپے کی ٹکٹ خریدے اور بیچے جاتے ہیں اورحکمران بتیس بتیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں گومتے نظر آتے ہیں۔ حکمران اپنی رعایا کو تحفظ دینے کی بجائے ان پر شب خون مارتی ہے۔ کبھی حاملہ نرسوں کو مال روڈ پر قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی ماڈل ٹاؤن میں 17لاشے گرائے جاتے ہیں۔ کبھی نابینے اور معذوروں پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے تو کبھی سائنسدانوں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔

درودوسلام پڑھنے پر تو پابندی لگائی جاتی ہے لیکن دہشت گرد تنظیموں کے سربراہان کے ساتھ کھلم کھلی دوستی نبھائی جاتی ہے۔ کبھی سیالکوٹ میں دونوجوانوں کو مار کر سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے تو پولیس تماشہ دیکھتی ہے تو کبھی فیروزپور روڈ پر مسلمان ہونے کے جرم میں زندہ جلا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے پولیس تماشہ دیکھتی ہے اور حکمران کہتے ہیں کہ یہ فطری ردعمل ہے۔

آزادی اظہار رائے کے نام پر کچھ میڈیا کے افراد پاکستان اور عوام پاکستان کی حفاظت کرنے والی پاک فوج اور آئی ایس آئی پر زبان درازی کرتے ہیں۔ تو کوئی بیرون ملک بیٹھ کر ان کو للکار رہا ہوتا ہے۔ اور ان کے بچوں کو سکول کے اندر شہید کردیتا ہے تو کوئی ان کی گاڑیوں پر حملے کرتاہے۔ لیکن پھر بھی یہ پاکستانی نوجوان اس ملک سے وفا کرتے ہوئے ڈٹے رہتے ہیں اور دہشت گرد ی چاہیے اسلام کے نام پر ہو یا سیاست کے نام پر جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔

آج قرارداد لاہور کو پیش کیے 76برس گزر گئے۔ 76ویں سالگرہ منائی جائے گی۔ پورے ملک میں خوشیاں نظر آئیں گی۔ ہر پلیٹ فارم پر تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا۔ بڑے شہروں میں پریڈ اور اعلی دفاتر میں پرچم کشائی کی جائے گی ۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو یہ بات سوچیں گے کہ آج ہم یوم پاکستان تو منارہے ہیں کیا قرارداد پاکستان کا مقصد صرف ملک بنانا تھا اور اس قرارداد میں جو کچھ کہا گیا اسے اس میں نافذ بھی کرنا تھا۔ کیا دوقومی نظریہ فقط ملک بنانے کے لیے تھا کہ ملک چلانے اور ملک بچانے کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے۔
 
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 26451 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.