کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بہار انتخابات سے
۱۴ روز قبل پڑوسی ریاست اتر پردیش میں دادری کے مقام پر گائے کے نام محمد
اخلاق کو قتل کردیا گیا اور مغربی بنگال میں انتخابات سے ۱۶ دن پہلے
لاتیہار میں گئو رکشا کمیٹی کے لوگوں نے محمد مظلوم اور عنایت اللہ کوقتل
کرکےپیڑ سے لٹکا دیا گیا۔ دونوں سانحات کے بعدکئی دنوں تک مرکزی بی جے پی
حکومت کی زبان پر قفل پڑا رہا۔ جھارکھنڈ کے معاملے میں تو پہلے دو دنوں تک
کسی سیاسی جماعت کے رہنما کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پسماندگان کو پرسہ دے۔
راہل جی دو مرتبہ حیدرآباد تو ہو آئے مگر لاتیہار نہ جاسکے۔ غلام نبی
آزاد نے ایک خط لکھ کر خاموشی اختیار کرلی ۔ مسلمانوں کے مسیحا سمجھے جانے
والےلالو اور نتیش تو کجا ممتا بنرجی اور یچوری تک نے کمال بے حسی کا
مظاہرہ کرتےرہے اور بھارت ماتا کی جئے کے خلاف گردن کٹانے والوں کا بھی
کوئی بیان منظر عام پر نہیں آیا۔ جے این یو کے معاملے گلا پھاڑ پھاڑ کر
بولنے والوں کو آخر کیوں سانپ سونگھ گیا جبکہ اس بار تو معاملہ گائےکے
ذبیحہ کا بھی نہیں بلکہ بیلوں کے خریدو فرخت کا تھا۔
ہمارے ملک میں سارا شوروغل سیاسی مفاد کے پیش نظر ہوتا ہے اور خاموشی بھی
اسی مقصد سے اختیار کی جاتی ہے۔ غیر بی جے پی جماعتیں کا گلا غالباً اس خوف
نے گھونٹ دیا کہ اس سانحہ کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی مغربی بنگال میں میدان
نہ مارلے۔ دودنوں تک ذرائع ابلاغ میں گونجنے کے بعد یہ سیاستدانوں کی توجہ
اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوااورمجبوراً ایک ایک کرکے لوگوں نے
بولنا شروع کیا۔اس کے باوجود سیتا رام یچوری کے علاوہ جنہوں نے دوجملےٹویٹ
کرکے مذمت کرنے پر اکتفاء کیا کسی پارٹی کے سربراہ نے اپنی زبان نہیں کھولی۔
ہر کسی نے اپنے ترجمان کے کندھے پر بندوق رکھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے کو
کافی سمجھا۔ ان سارے بیانات پر نظر ڈالنے سے ایک بات صاف نظر آتی ہے کہ بی
جے پی کو حکومت کوتوسب نے موردِ الزام ٹھہرایا اور جی بھر کے اس پر لعنت
ملامت کی لیکن پسماندگان کیلئے کسی زبان پر سے ہمدردی کا ایک بول نہیں
پھوٹا ۔ قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ تو درکنار کسی نے ان کی
ایسی مذمت بھی نہیں کی جیسا کہ اس کا حق تھا۔
مظلومین کے گھر صرف کانگریس کے ریاستی صدراور جھارکھنڈ وکاس مورچہ (جنتانترک)کے
رہنما پہنچے ۔ بابولال مرانڈی ( جو بی جے پی کے سابق وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں
) نےدو نوں خاندانوں کیلئے فی کس۵۰ ہزار کی مدد کا اعلان کیا۔ مرانڈی نے
بتایا دونوں مقتولوں پر گھر چلانے کی ذمہ داری تھی ۔۳۵ سالہ مظلوم کے گھر
میں ۸ افراد ہیں اور ۱۵ سالہ عنایت اللہ کے والد معذور ہیں ۔ بابولال
مرانڈی کے اس قدم کو سیاسی ابن الوقتی پر مہمول کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر
نہیں آتی اس لئے یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ بی جے پی سے نکلنے کے بعد
اس کے لوگوں میں بھی انسانیت جاگتی ہے لیکن جب تک وہ اس کے اندر رہتے ہیں
امید کی کوئی کرن نہیں پھوٹتی ۔اس لئےوزیراعظم کو چاہئے کہ تصوف کے پیغام ِامن
سے سارے عالم کو منور کرنے سے قبل خود اپنے گھر میں اس کی روشنی پھیلائیں ۔
سنگھیوں کے قلب سے زیادہ دنیا کا تاریک ترین گوشہ فی الحال کوئی اور نہیں
ہے۔
کانگریس کے ریاستی صدر سکھ دیو بھگت نے پسماندگان سے ملاقات کے بعد بی جے
پی کو خوب برا بھلا کہا اوراس سانحہ کی تفصیلی رپورٹ بنوا کر اپنی پارٹی کے
مرکزی رہنماوں نیزچیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو بھی روانہ کرنے کا عزم کیا۔
ظاہر ہے وہ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے اور کیوں؟ اس لئے
وہ رپورٹ یقیناً کوڑے دان کی نذر ہوجائیگی۔ بھگت نے ریاستی حکومت سے معاوضہ
اور مقتول کی اہلیہ کیلئے راشن کی دوکان بنوا کر دینےکا مطالبہ بھی کیا
تاکہ وہ اپنا گھر چلاسکے۔ سکھ دیوبھگت نے غالباً وزیراعلیٰ رگھوبرداس کا
بیان نہیں پڑھاورنہ یہ مطالبہ نہ کرتے۔
رگھوبر داس کو جب اس بہیمانہ قتل کی اطلاع ملی تو انہیں مقتولین سے ہمدردی
نہیں ہوئی بلکہ یاد آیا کہ جھارکھنڈ میں بھی اتراکھنڈ کی مانندایک قانون
ہے جس کی رو سے جانوروں کو دوسری ریاست میں لے جانے پر پابندی ہے اس لئے یہ
اسمگلنگ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ کاش کہ وزیراعلیٰ یہ بھی بتا دیتے کہ اس
قانون میں اسمگلر کی سزا کھلے عام پھانسی ہے اور اس سزا کو نافذ کرنے کی
ٹھیکہ ہم نے گئورکشا سمیتی کو دے رکھاہے۔ جس زعفرانی پریوار کےرنگروٹ اس
طرح کی سفاکی کا مظاہرہ کریں اور رہنمااس کا جواز فراہم کریں توانہیں غلام
نبی آزاد سے ناراض ہونے کے بجائےان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ آزاد نے
آریس ایس کو آئی ایس ایس کا ہم پلہ قرار دے دیا ۔
اس طرح کی صورتحال میں طویل پر اسرار خاموشی کے بعد اس طرح کے بیانات دے
کربی جے پی ہندو دہشت گردوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم جو جی میں آئے کرو
ہمارے ہوتے تمہارا بال بیکا نہیں ہوگا اس لئے انوپ بھرتا رائے جیسے پولس
افسرہمارے قبضے میں ہے۔ اس معاملے میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے اور
تین ملزم فرار ہیں ۔ ایک گرفتار شدہ اور دوسرے فرار ملزم کا تعلق گئو رکشا
سمیتی سے ہے ۔ گرفتار شدہ متھلیش پرشاد ساہو کے چچا دلیپ کمار کے مطابق وہ
مقامی بجرنگ دل کا سربراہ ہے۔ مقتولین کے پسماندگان نے بتایا کہ ہر سال
بالوناتھ گاوں میں جہاں یہ قتل ہوا گئو کتھا کا اہتمام کرکے نفرت پھیلا نے
کام کیا جاتا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے دوبنیادی مسائل کے ہوتے ہیں ۔ انتخابات سے قبل کسی طرح
کامیاب ہوجانا اور اقتدار میں آجانے کے بعد اپنے حامیوں کو خوش رکھنا ۔
دوسرے مسئلہ کا آسان سا حل تو یہ ہے قومی وسائل کو عوام کی فلاح بہبود پر
خرچ کیا جائے جس سے اپنے پرائے سب خوش ہوجائیں اور عوام میں نفوذ بڑھے لیکن
ایسا کرنے میں ذاتی مفاد اور ان سرمایہ کاروں کا فائدہ آڑے آجاتا ہے جن
کے تعاون سے انتخاب لڑا جاتا ہے ۔ بی جے پی کے پاس اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ
ٹھوس کام کرنے کے بجائے اپنے حامیوں کے اندر فرقہ وارانہ جذبات کو فروغ دو
اور اس نتیجے میں جب وہ ظلم و ستم کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کو تحفظ فراہم
کرکے انہیں خوش کرود ۔ بی جے پی قاتلوں کے ساتھ نرمی سے پیش آکر اپنے آپ
کو ان کا مسیحا تو ثابت کردیتی ہے مگر اس کی قیمت مسلمان چکاتے ہیں۔ اس کا
ثبوت فرقہ وارانہ فساد کے اعدادوشمار ہیں ۔ سابق وزیراعلیٰ مرانڈی کے مطابق
ریاست جھارکھنڈ میں ۲۰۱۴ کے اندر فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد ۱۵ تھی جو
۲۰۱۶ میں بڑھ کر ۵۵ ہوگئی ۔ کیا اسی کا نام سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے۔
فسطائی جماعتیں تو ایسے مواقع پر اس لئے چپی سادھ لیتی ہیں کہ ہندو اکثریت
خوش رہے مگرنام نہاد سیکولر جماعتوں کی زبان پر اس لئے تالہ پڑ جاتا ہے کہ
کہیں ان کی مذمت سے ہندو اکثریت ناراض نہ ہوجائے۔ اس طر ح گویاتمام تر
اختلاف کے باوجود جمہوری نظام میں ساری سیاسی جماعتیں اقلیتی فرقے کے خلاف
ظالموں کی حامی و مددگار بن جاتی ہیں ۔ شدیداحساس کمتری کا شکار کانگریس نے
بھی آج کل ہندووں کو خوش کرنے کی خاطر زعفرانی چولہ اوڑھ رکھا ہے۔ جے این
یو میں پہلے تو مظاہرین کی کھل کرحمایت کی گئی مگر بعد میں اسے نعرہ نہ
لگانے والوں کی حد تک محدود کردیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایم آئی ایم کے رکن
اسمبلی کی معطلی پر کانگریس بی جے پی سے بڑھ کر دیش بھکتی کا مظاہرہ کیا۔
مدھیہ پرد یش اسمبلی میں کانگریس کے تیواری جی بھارت ماتا کی حمایت کرکے بی
جے پی والوں کو چونکا دیا۔ گجرات میں گائے کو راشٹر ماتا بنانے کے چکر میں
مظاہرہ کرنے والے ایک نوجوان نے خودکشی کرلی اس کی حمایت میں بی جے پی کے
بجائے کانگریسیوں نے اسمبلی میں نعرے لگائے۔ واگھیلا نے اعلان کیاکہ اگر بی
جے پی پیش قدمی کرے تو کانگریس کووہ اپنا ہمنوا پائے گی۔ اس لئے بظاہر ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ بھارت ماتا بھکتوں میں اسکی مظلومبچوں کی خبر گیری کرنے
والاکوئی نہیں ہےنیزبجرنگ دل کے دہشت گرد تو بھارت ماتا کی سنتان کوگئو
ماتا کے چرنوں میں قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
جھارکھنڈ کا لاتیہار ضلع نکسل باری تحریک سے متاثر ہے ۔ گزشتہ ماہ ماؤ
نوازوں نے ضلع کےصدر تھانہ میں نیواڑی پنچایت کے دفتر کو دھماکے سے اڑا
دیا۔ اس دھماکےسے پوری عمارت زمین بوس ہوگئی اور سارا سازوسامان برباد
ہوگیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے دوموبائل ٹاور س کو بھی آگ لگا دی ۔ ہفتہ ٔ
احتجاج کے تحت منعقدہ اس مظاہرے کے دوران نکسلوادیوں نے نعرے بازی کرنے کے
بعداس کی ذمہ داری بھی قبول کی لیکن ان سے لوہا لینے کیلئے کوئی دیش بھکت
بھارت ماتا کی رکشا کرنے کیلئےاپنے بل سے باہر نہیں آیا۔ نہتوں پر گھات
لگا کر شب خون مارنا جن کا شعار ہو ان سے کسی دلیری کی توقع فضول ہے۔اس
واقعہ سے ایک دن قبل وزیرداخلہ نےماؤ نوازوں سے اپیل کی تھی اگروہ تشدد کی
راہ چھوڑ دیں تو سرکار ان سے بات چیت کیلئے تیار ہے۔ بفرض محال اگر وہ اپنا
راستہ بدل دیں اور پھر روزی روزگار کیلئے مویشیوں کی تجارت شروع کردیں
توکیا وزیرداخلہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ ان کےپریواروالےقتل کرکےان کی
لاش پیڑ سے نہیں لٹکائیں گے۔راجناتھ مجرمین کو سزا دلانا تو دور جھوٹے منہ
کم ازکم اس سفاکی کی مذمت ہی کردیں گے۔ماؤ نوازوں کے خلاف کارروائی پر
انتظامیہ کی تعریف کرنے والے وزیرداخلہ کو کیاکبھی مظلوم اور عنایت کے
قاتلوں کو سزا دلوانے کی بھی خوشی ہوگی؟
ایک سال سے اس علاقہ میں مویشیوں کےتاجروں کوڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔پچھلے
۶ ماہ میں ۵ مرتبہ دھمکیاں مل چکی ہیں۔ اس کے باوجود پولس افسرانوپ بھرتا
رائے فرماتے ہیں گزشتہ ایک سال میں کسی تنظیم کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں
ہوئی۔ شکایت تو اسی وقت درج ہوگی جب اس کے لئے پرامن ماحول ہو تاکہ لوگ بے
خوف ہوکر آگے آسکیں اور اگر اس کے باوجود پولس شکایت درج کرنے سے انکار
کردے تو بیچارے گاوں والے کیا کرسکتے ہیں ؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پولس
کا محکمہ شکایت کے درج ہونے کے بعد ہی حرکت میں آتا ہے؟ جو بے قصور مسلمان
برسوں تک جیل میں رہنے کے بعد باعزت بری ہوجاتے ہیں ان کے خلاف شکایت کون
درج کرواتا ہے؟ ان بے قصور لوگوں کانام تو کسی شکایت کے بغیرہی جیش اور
لشکر سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ان کا میڈیا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے۔
لاتیہار ضلع میں جس روز یہ مذموم واقعہ رونما اسی دن انسانی حقوق کے قومی
کمیشن نے پرہلاد پرشاد نامی حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے ایک کارکن کی
موت پر ریاست جھارکھنڈ کےچیف سکریٹری ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پولس سپر
نٹینڈنٹ کو دو ہفتوں کے اندر کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔ پرساد ٹوری ریلوے
سائیڈنگ کی تعمیر کے سبب ہونے والے ماحولیاتی نقصان کے خلاف احتجاج کررہے
تھے۔ اس قتل کی کسی نے شکایت نہیں درج کرائی بلکہ اخبار میں شائع شدہ خبر
کے پیش نظر کمیشن نے یہ ازخود یہ قابلِ تحسین اقدام کیا ۔حیرت اس بات پر ہے
کہ ایک نامعلوم خبر کی جانب تو کمیشن نے توجہ فرمادی لیکن جس خبر نے ذرائع
ابلاغ میں زلزلہ برپا کردیا وہ کمیشن کی نظروں سے اوجھل رہی۔ ممکن ہے اس کی
وجہ پرہلاد اور مظلوم کے ناموں کا فرق ہو۔اس تفریق و امتیاز کی توقع سنگھ
پریوار سے تو کی جاتی ہے مگر انسانی حقوق کے کمیشن کو یہ رویہ زیب نہیں
دیتا۔
انتظامیہ فی الحال اسے چوری ڈکیتی کی واردات بتا کر رفع دفع کرنے کے فراق
میں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ چور اور ڈاکوبھی کبھی کبھار اپنے شکار کو قتل
کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن ان کی لاش پیڑ سے لٹکانے کی زحمت کوئی نہیں
کرتا۔ اس لئے کہ ایسا کرنے میں ان کا کوئی فائدہ تو نہیں ہے ہاں پکڑے جانے
کا خطرہ ضرورہوتا ہے اس لئے وہ جائے واردات سے جلد ازجلد فرار ہونے کی کوشش
کرتے ہیں۔ایسی حیوانیت کا مظاہرہ تو زعفرانی فرقہ پرستوں کا خاصہ ہے۔
کانگریسی وفد میں شامل شمشیر عالم نے پسماندگان سے ملاقات کے بعداس قیاس کی
تصدیق کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ قتل اچانک نہیں ہوا بلکہ منصوبہ بند
سازش کا نتیجہ تھا۔ لوٹنے کی نیت سے حملہ کرنے والے مجرم پیشہ لوگ قتل تو
کرسکتے ہیں لیکن لاش کو پیڑ پر نہیں لٹکا سکتے۔ان کے مطابق پولس معاملے کو
دبارہی ہے۔
مویشیوں کےچور اگر اس طرح کی سفاکی کامظاہرہ کریں تو اس کے نتیجے میں یاتو
اس علاقہ میں یہ کاروبار ٹھپ ہوجائیگا یا تاجر اپنا راستہ بدل دیں گے۔ ہر
دو صورت میں چوروں کا نقصان ہے۔ اگر تجارت ہی ٹھپ ہوجائے تو لوٹا کسے
جائیگا ؟ نیز اگر حمل ونقل کا راستہ تبدیل ہوجائے تو کسی دوسرے کےعلاقے میں
جاکر ڈاکہ ڈالنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ چوروں کا بھی سیاستدانوں کی
مانند اپنا اپنا حلقۂ اثر ہوتا ہے ۔ وہ کسی غیر کواپنے علاقہ میں داخل
ہونے کی اجازت دیتے اور اگر کوئی کوشش کرے تو بے تکان بھونکنے لگتے ہیں۔ اس
کھیل میں مودی جی جیسا کوئی شامل ہوجائے تو بات اور ہے جو مرلی جی کو
وارانسی سے اٹھا کر کانپور میں پھینک دے اور خود کاشی وشوناتھ مندر کا
پروہت بن بیٹھیں ۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پروری انتخابات میں کبھی ان کے کام آتی ہے اور
کبھی نہیں بھی آتی لیکن یہ لوگ ہندووں کو خوش کرنے میں کس حد تک کامیاب
ہورہے ہیں اس کا انداز گجرات سے آنے والے اعدادو شمار سے لگایا جاسکتا ہے
جہاں گزشتہ ۱۴ سال سے بی جے پی بر سرِ اقتدار ہے۔ اس ریاست میں مذہبی
آزادی کے نام پر تبدیلی ٔمذہب کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کیلئے مذہب
تبدیل کرنے والے کو سرکار سے اجازت لینے پر مجبور کیا جاتاہے۔ سرکاری
اعدادو شمار کے مطابق مذہب تبدیل کرنے کی خاطر درخواست گذاروں میں سب سے
زیادہ ۱۷۵۳ ہندو ہیں اس کے بعد ۵۷ مسلمان، ۴۲ عیسائی اور ۴ پارسی ۔ان
سرکاری اعدادوشمار کے برعکس گجرات کی دلت تنظیم کے صدر جینت مانکنیا کے
مطابقتبدیلیٔ مذہب کے خواہاں ہندووں کی تعداد ۵۰ ہزار ہے اور چند سال قبل
راجکوٹ میں ایک لاکھ ہندووں نے بودھ مت قبول کیا تھا ۔ وشوہندو پریشد کے
شعلہ بیان رہنما پروین توگڑیا کی ناک کے نیچے اگرہندوتوا کی تجربہ گاہ
سمجھے جانے والے گجرات کی یہ صورتحال ہے تو دوسرے مقامات پر اس کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے ۔ گئو ماتا کے رکشک راکشسوں کو ان حقائق سے عبرت پکڑنا
چاہئے۔ |