ورلڈ کپ: چور کی داڑھی میں تنکا

شاہد آفریدی کے اسٹیڈیم میں موجود کشمیری شائقین کرکٹ کا شکریہ ادا کرنے پر بھارتیوں کو آگ لگ گئی تھی اور بی سی سی آئی نے انہیں بیان دینے سے روک دیا تھا۔ شاہد آفریدی کا بیان قطعی سیاسی نہیں تھا۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے، پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اچھے ہوں تاکہ خطے کی ترقی کےلیے کچھ کیا جاسکے، لیکن بھارت کی کسی بھی حکومت نےکبھی اس قسم کی کوشش نہیں کی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کےدرمیان ہونے والے کرکٹ میچوں میں بھی سیاست کا کافی عمل دخل ہوگیا ہے ۔ آپ 2016 کا ورلڈ کپ ٹی 20 تو دیکھ ہی رہے ہیں ، اب تو پاکستانی ٹیم کی واپسی بھی ہوگئی ہے، لیکن پاکستانی ٹیم کےجانے سے پہلے بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا نےپاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف ایک محاز کھڑا کیا ہوا تھا۔ 19 مارچ کو کولکتہ میں ہونے والا پاکستان اور بھارت کامیچ پہلے ہندوستانی ریاست ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالا میں ہونا تھا لیکن پاک بھارت میچ سے پہلے ہی دھرم شالا میں انتہا پسندوں نے احتجاج شروع کردیا جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستانی ٹیم کو سیکیورٹی دینے سے انکار کردیا، آئی سی سی کا کہنا تھا کہ گراؤنڈ کے اندر پاکستانی ٹیم کو سیکیورٹی دینا ہماری ذمہ داری ہے لیکن گراؤنڈ سے باہر سیکیورٹی نہیں دے سکتے۔ نام کے بہادر ریاست ہماچل پردیش کے وزیر اعلی ویربھادرا سنگھ نے انتہا پسندوں کی دھمکی کی وجہ سےدھرم شالا میں ہونے والے میچ کے لیے پاکستانی کھلاڑیوں کو سیکورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ وزیراعلی ویربھادرا سنگھ کا کہنا تھا کہ پاک بھارت میچ کے حوالے سے لوگوں میں اشتعال پایا جاتا ہے، اگر 19 مارچ کو گراؤنڈ کے باہر سابق فوجیوں نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے، لہذا میچ کولکتہ منتقل کردیا گیا۔

بوم بوم شاہد آفریدی واقعی بوم بوم ہیں، وہ اپنی قوم کےلیے 2016 کا ورلڈ کپ ٹی 20 تو کیا جیتے انہوں نے اور ان کے ساتھ تمام کھلاڑیوں نے قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔ پوری پاکستانی قوم کو اس بات کا دکھ ہے کہ آفریدی کی قیادت میں جانے والی ٹیم ورلڈ کپ کا صرف ایک میچ جیت سکی اور وہ بھی بنگلہ دیش سے۔کیا بیٹنگ اور کیا بالنگ ہرشعبے میں ہماری ٹیم ناکام رہی ہے۔ شاہد آفریدی پورئے ورلڈ کپ میں میدان میں رہتے ہوئے بوم بوم کا کوئی نظارہ نہیں دیکھا پائے لیکن میدان سے باہر انہوں نے دو مرتبہ بوم بوم کا کانظارہ دیکھایا، انہوں نے پہلا نظارہ کولکتہ میں کی گئی اپنی پریس کانفرنس میں دکھایا جب انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ‘ہندوستان کے لوگوں سے ہمیں بہت پیار ملا ہے اور اتنا پیار تو ہمیں پاکستان میں بھی نہیں ملا جتنا یہاں ملا’۔ یہ ایک طرح کا سفارتی بیان تھا لیکن اس بیان پر انہیں پاکستان بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور سابق کھلاڑیوں نے بحیثیت کپتان ان سے ذمہ دارانہ بیان دینے پر زور دیا، ایسا نہیں کہ تمام سابق یا موجودہ کھلاڑیوں نے انکی مخالفت کی ہو، لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک تبصرہ پاکستانی کرکٹ کے لیجنڈ جاوید میانداد کا تھا جس میں انہوں نے شاہد آفریدی کے بیان کی مذمت کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی کے بیان سے انھیں ‘صدمہ اور تکلیف’ پہنچی ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑھ رہا کہ جاوید میانداد اپنے گریبان میں جھانکیں تو انکو بھارت کا مشہور انڈر ورلڈ ڈان داود ابراھیم نظر آیگا جو انکا سمدھی ہے اور اس وجہ سے بھارت اکثر داود ابرھیم کو ڈھونڈتا ہوا پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ بھارت میں کانگریس اور انتہاپسند تنظیم شیوسینا دونوں جاوید میانداد کے بھارت میں داخلے کے خلاف ہیں۔سابق پاکستانی کپتان عمران خان نےایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ جاوید میانداد کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔

جب پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ ٹی 20 مقابلوں میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر کولکتہ پہنچی تھی تو سینکڑوں شائقین نے ٹیم کا استقبال کیا تھا۔ جب بھی پاکستان اور ہندوستان کرکٹ کا میچ کھیلنے کے لیے آمنے سامنے ہوتے ہیں تو دونوں طرف جذبات انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے سابق ہندوستانی کپتان سنیل گاوسکر کا ماننا تھا کہ پاکستان کے ٹی 20 کے کپتان شاہد آفریدی کا بیان کافی کارگر ثابت ہوگا اور کولکتہ میں کھیلتے ہوئے اس سے شائقین کے پاکستان مخالفت جذبات میں کمی آ سکتی ہے۔ گاوسکر کا کہنا تھا کہ پاکستانی کپتان کا بیان ایڈن گارڈنز کے عوام کا دل جیتنے کیلئے پاکستان کی ایک حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سابق ہندوستانی کپتان نے ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرایا کہ شاید آفریدی نے مخلصانہ نیت اور دل کی گہرائیوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہوگا۔ گاوسکر نے کہا کہ آفریدی ان لوگوں میں سے ہیں جو دل سے بات کرتے ہیں، ان کے الفاظ میں بناوٹی پن نہیں ہے اور ممکنہ طور پر ہندوستان میں اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر بات کر رہے ہوں گے۔ 19 مارچ کو کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں 70 ہزار تماشایوں نے بہت سکون سے یہ میچ دیکھا، یہ الگ بات ہے کہ بھارت نے یہ میچ 6 وکٹوں سے جیت لیا۔

شاہد آفریدی نے بھارت میں دوسری مرتبہ بوم بوم کا نظارہ اس وقت کروایا جب انہوں نے موہالی کے اسٹیڈیم میں ٹاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ان کشمیری شائقین کرکٹ کا شکریہ ادا کیا جو اسوقت اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ شاہد آفریدی نے کہا تھا کہ موہالی میں ہمارے بہت سے مداح ہیں، بہت سے لوگ کشمیر سے بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی حمایت میں آئے ہیں۔ شاہد آفریدی کا یہ بیان صرف کرکٹ کی حد تک تھا لیکن غاصب بھارتیوں کو اس بیان کو ہضم کرنا مشکل تھا، لہذا بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری انوراگ ٹھاکر نے کپتان شاہد آفریدی کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت کے بیان پر انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سیاسی بیانات سے پرہیز کرنے کو کہا۔ انوراگ ٹھاکر کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کو اس قسم کا بیان نہیں دینا چاہیئے تھا،ان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی کا بیان سیاسی طور پر درست نہیں۔ شاہد آفریدی کے اسٹیڈیم میں موجود کشمیری شائقین کرکٹ کا شکریہ ادا کرنے پر بھارتیوں کو آگ لگ گئی تھی اور بی سی سی آئی نے انہیں بیان دینے سے روک دیا تھا۔ شاہد آفریدی کا بیان قطعی سیاسی نہیں تھا، اگر بھارت آفریدی کے بیان کو نظر انداز کردیتا تو یہ اس کے ہی لیےاچھا ہوتا کیونکہ پوری دنیا میں ورلڈ کپ کے میچ دیکھنے والوں کی تعداد شاید دو ارب کے قریب ہوگی، بھارت کی جواباً بیان بازی سے دو ارب افراد تک یہ پیغام لازمی پہنچا ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بڑا مسلئہ ہے۔ بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اس مسلئہ کی بین الاقوامی تہشیر نہ ہو۔ لیکن ‘چور کی داڑھی میں تنکا’ کے مصادق انوراگ ٹھاکر پاکستانی کپتان شاہد آفریدی کے نادانستہ بولے ہوئے سچ کو برداشت نہ کرپائے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485688 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More