23ِمارچ 2016ء کو کراچی کے سابق مئیر
مصطفیٰ کمال نے ایک مختصر پر جامع خطاب کے دوران اپنی نئی سیاسی جماعت کا
نام " پاک سر زمین " پاکستان کی عوام کے سامنے پیش کیا تو اُسکو ملک بھر
میں سراہا گیا ہے۔ لیکن اسکے لیئے اُن کو جن ذمہ داریوں اور سازشوں کا
سامنا کرنا پڑے گا وہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں کتنا مشکل ہو گا یہ سوال
اُنکے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر ے گا کیونکہ کونسا اختلاف کہاں ہوتا ہے اور
گٹھ جوڑ کہاں؟ اُسکی ایک معمولی سی تاریخی مثال غور طلب ہے جس کے ایک پہلو
پر آجکل سیاست کی جارہی ہے :
12ِاکتوبر1999ء کو اَرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے وزیرِ اعظم
نوازشریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد اُنھیں قید و بند اور جن مقدمات میں
سزائیں سُنائی گئیں اُس کے نتیجہ میں 30ِ اکتوبر 2000ء کو سندھ ہائی کورٹ
نے نواز شریف کی عمر قید کی دو سزاؤں کو ایک میں بدلنے کا حکم بھی جا ری کر
دیا تھا، لیکن اس کے برعکس ان کا خاندان حکومت وقت سے کسی اور معاملے پر ہی
گفت و شنید کر رہا تھا۔ جب کبھی بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے اے آر ڈی کے
اجلاس کے بعد سوالات کئے جاتے تو وہ یہی فرماتیں کہ حکومت سے ہمارا کوئی
تعلق نہیں۔
9ِ دسمبر 2000 ء کو پھر اچانک سعودی عرب ایئر لائنز کا ہوائی جہاز اسلام
آباد آیا اور سعودی عرب کے پرنس کے کہنے پر نواز شریف اور ان کے خاندان کو
پاکستان سے لے جانے کا انتظام کیا جانے لگا۔ ان دنوں نواز شریف 16 ویں صدی
کے اٹک کے قلعہ میں اپنی اسیری کے دن گزار رہے تھے اور اس وجہ سے سعودی عرب
کے پرنس کو یہ کہا گیا تھا کہ نواز شریف کی رہائی کیلئے حکومتی معاملات میں
مزید 2 روز لگیں گے نہیں تو پہلے 7ِ دسمبر کو پروگرام تھا۔
خبر یہ گردش کی کہ حکومتِ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو پرو یز مشرف کے مشورے سے
صدر پاکستان رفیق احمد تارڑ جن کی اس میں اپنی ذاتی کوشش بھی شامل تھیں نے
نواز شریف کی سزائے قید اچانک معاف کر دی اور پھر معزول وزیر اعظم نواز
شریف 14 ماہ کی قید و بند کی تکلیفیں کاٹنے کے بعد اپنے خاندان کے 30افراد
کے ساتھ جن میں والدین، دونوں بھائی اور اپنا سارا اہل خانہ بھی شامل تھا
9اور 10ِ دسمبر 2000 ء اسلامی مہینہ رمضان میں پاکستان کی زمین اور اس کی
مٹی چھوڑ کر سعودی عرب کے شہر جدہ روانہ ہو گئے۔
عوام نے صبح اُ ٹھ کر یہ خبر اخبارات میں پڑھی تو حیران رہ گئے اور فی
الوقت عوامی تاثرات غم و غصے کے ساتھ کچھ اس طرح سامنے آئے کہ کسی نے کہا
کہ یہ کیسا احتساب تھا؟ کالم نگاروں نے اخبارات و رسائل میں سابق وزیر اعظم
نواز شریف کے دوسرے دور کو ترقی سے ہمکنار نہ ہونے والا دور کہنے لگا پڑے
اور پہلے دور کی طرح کوئی بڑا میگا پروجیکٹ شروع کرنے کی بجائے ملک کے
اداروں سے اختلافات کا دور تعبیر کیا جانے لگ پڑا وغیرہ وغیرہ۔
بہر حال کچھ نواز شریف کے خیر خواہوں نے یہ کہا کہ تمام خاندان دنیا کی
عظیم سر زمین پر چلا گیا ہے اور فی الوقت معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔لیکن اس
معاملے میں مشرف حکومت اور شریف خاندان کے درمیان ایک معاہدہ زیرِ بحث رہا
جس کے وہ انکاری رہے۔کیونکہ اُس معاہدے کے مطابق اگلے دس سال تک نہ تو نواز
شریف پاکستان آ سکتے تھے اور نہ ہی ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کر
سکتے ہیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کی سرپرستی کرنے والے صدر پرویز مشرف کے
2005ء میں سیاسی عزائم بدلتے نظر آئے۔ لیکن اُنھوں نے بڑی مہارت سے اپنے
بنائے ہوئے نظام کا دفاع کرتے ہوئے 27 ِ جولائی 2007 ء کو بے نظیر بھٹوسے
دُبئی میں ملاقات کی جس کے بعد اُنھوں نے این۔آر ۔او( قومی مفاہمت فرمان)
کے تحت تمام سیاست دانوں پر سے سول نوعیت کے تمام مقدمات ختم کر دیئے۔
نتیجہ سب نے دیکھا محترمہ بے نظیر بھٹو ،نواز شریف و شہباز شریف اگلے چند
ماہ میں پاکستان واپس آگئے ۔ محترمہ بے نظیر تو شہید ہو گئیں اور آصف علی
زرداری و نواز شریف نے سیاسی تعلقات کی بنیاد پر جمہوریت کی طرف نیا قدم
بڑھا دیا۔ فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں حکومت پی پی پی کی بنی اور
اتحاد ہوا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ۔
جب اگست 2008ء کے وسط میں صدر مشرف کو حکومتی اتحاد کی طرف سے مواخذہ کا
خطرہ ہوا تو اُنھوں نے 18ِاگست 2008ء کو اپنے 9سالہ حکومت کا دفاع کرتے
ہوئے قوم سے براہِ راست خطاب کیا اور صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ستمبر2008ء میں آصف علی زرداری سب سے زیادہ ووٹ لیکر اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے نئے صدر بن گئے اور 23ِنومبر 2008ء کو سابق صدر پرویز مشرف کو
باقاعدہ طور پر گارڈ آف آنر کے ساتھ لندن روانہ کر دیا گیا۔جو ایک غور طلب
معاملہ رہا ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے مشرقِ وسطیٰ ،یورپ اور امریکہ میں
دفاعی و بین الاقوامی سیاست پر لیکچرز دینے شروع کر دیئے اور ساتھ ہی
پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کیلئے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے
جون2010ء میں جماعت قائم کر لی۔اس دوران پاکستان میں اُنکے خلاف بے نظیر
بھٹو کے قتل کی سازش میں شریک ہونے پر فروری 2011ء کو اینٹی ٹیرر ازم کورٹ
نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔مارچ2011ء میں اُن پر سندھ ہائی کورٹ میں
1973ء کے آئین کی نوعیت پر غداری کا مقدمہ رجسٹرڈ کیا گیا۔
مارچ 2013ء میں ملک میں عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پرویز مشرف
پاکستان واپس آگئے۔ لیکن اُن پر مقدمات کی وجہ سے انتخابات کیلئے اُنکے
کاغذاتِ نامزدگی ہی مسترد کر دیئے گئے۔بعدازاں عدالت نے اُ نھیں اُنکے گھر
پر نظر بند کر نے کا حُکم جاری کر دیا۔پھر نومبر2013ء میں اُنکی چند اہم
مقدمات میں ضمانتیں منظور کر کے عدالت نے اُنھیں رہا کر دیا اور ساتھ میں
ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ۔جبکہ عوام اور حکومت کے اس سوال پر کہ
کیا اب سابق صدر ملک سے باہر چلے جائیں گے کہ اس اثنا میں 3نومبر 2007ء کو
1973ء کے آئین کی خلاف ورزی کا جو مقدمہ درج تھااُس پرغداری کی فردِجرم
عائد کرنے کیلئے عدالتِ عالیہ نے اُنھیں طلب کر لیا ۔
سابق صدرِ پاکستان و اَرمی چیف ریٹائر جنرل پرویز مشرف پر ملک سے باہر جانے
کی پابندی کی وجہ سے اُنکا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا تو اُنکے
وکلاء نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ وفاقی
حکومت پر چھوڑ دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل سُپریم کورٹ میں
کر رکھی تھی کہ اس دوران پرویز مشرف کچھ بیمار رہنے لگے ۔
16ِمارچ 2016ء کو سُپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے وفاقی حکومت کی اپیل خارج
کرتے ہوئے فیصلہ سُنایا کہ اگر وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت
کیلئے قائم کردہ خصوصی عدالت کسی قانونی بنیاد پر پرویز مشرف کا نام ای سی
ایل میں رکھنا چاہے یا اُنکی نقل و حمل محدود کرنا چاہے تو سپریم کورٹ کا
یہ فیصلہ اُنکی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ بصورتِ دیگر اس بات کا فیصلہ
وفاقی حکومت خود کرے کہ اُنکا نام ای سی ایل سے خارج کرنا ہے یا نہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے چاہنے والوں کیلئے عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایک
نوید ثابت ہوا اور الیکٹرونک میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک دلچسپ تجزیوں میں یہ
تاثرات سامنے آئے کہ اُنکے بیرونِ ملک جانے میں ہی حکومتِ وقت کی کامیابی
ہے۔لہذا 17ِ مارچ کو حکومت نے مشاورت کے بعد ای سی ایل سے اُنکا نام خارج
کر کے اُنھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ۔ جس کے بعد 18ِ مارچ2016ء
بروز جمعہ کی علی الصبح نجی ائیر لائن کی پرواز سے پرویز مشرف دبئی چلے گئے
جہاں اُنکے علاج کیلئے پہلے سے ہی اُنکے معالج پہنچ چکے تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے تو دُبئی پہنچتے ہی اپنی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا
لیکن پاکستان میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور دوسری سیاسی جماعتوں کے
درمیان ایک ماضی کی طرز کی وہ بحث چھڑ گئی جسکی تاریخی اہمیت سے وہ سب بذات
، خود بھی واقف ہیں اور عوام کی یادداشت بھی اتنی کمزور نہیں ہوئی۔کیونکہ
1988ء کے جمہوری دور کے بعد یہ سلسلہ عام رہا ہے کہ حکومت میں اعلیٰ عہدوں
پر ہیں تو پاکستان میں اور الگ ہونے پر احتساب یا مقدمے بازی میں ملوث ہو
نے کے باوجود ملک سے باہر۔میڈیا اُس وقت کی ہر حکومت اور باہر جانے والے کے
بارے میں کسی نہ کسی معاہدے کا راگ اَلاپتے رہے اور باہر جانے والے نے
بیرون ملک سے یہی بیان دیا کہ اُنکا کسی سے کوئی معاہدہ نہیں ۔
لہذاسابق صدر و اَرمی چیف پرویز مشرف نے بھی ملک میں اپنے متعلق بحث پر
ردِعمل ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ اُنھوں نے پاکستان کی حکومت ملک سے باہر
جانے کے متعلق کوئی معاہدہ نہیں کیااور وہ جلد پاکستان واپس آجائیں گے۔
بلکہ تازہ ترین بیان میں اُنھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ علاج کیلئے
بیرون ، ملک سفر کرنے کی اجازت دینے پر وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف اور
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کا شُکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس مختصر تاریخی پہلو کے بعد جسکی حقیقت کی کوئی سند سامنے نہیں آئی
پاکستانی قوم کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ تما م سیاسی و حکومتی عہدوں پر
رہنے والوں کا ایک آپسی تعلق بھی رہتا ہے لہذا ووٹ اپنی مرضی کی جماعت کو
دو لیکن عزت سب اہم شخصیات کی کرو۔ کیونکہ وہ تو اپنا جوڑ سیاست کی اصطلاح
استعمال کر کے قائم کر ہی لیتے ہیں تو پھر عوام کو قائل کرنے کیلئے کیوں
ایسے موضوعات پر سیاست کی جاتی ہے جسکا نتیجہ اُس جماعت کا ووٹر ہی نہیں
چاہتا کہ اُسکے رہنماء کے خلاف ہو۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کے رہنماؤں و حکومتی اداروں کو عزت کی نگا
ہ سے دیکھیں ۔تاکہ جوڑ قائم ہو اور پاکستان ایک قدم اور آگے بڑھے۔ |