ایک آبدیدہ حقیقت

میں اس آبدیدہ حقیقت اور خونچکاں داستان کی ابتداء شفقت کاظمی کے اس شعر سے کرتا ہوں کہ !
اہل دنیاکو ہے کیا درد ماروں سے غرض
کون سنتا ہے بھلا مجھ سے فسانہ میرا

میں اپنی کم علمی و کم مائیگی کا پہلے اعتراف کرتا چلوں کہ ہو سکتا ہے کہ میں اس عظیم سانحہ کو مفصل بیان نہ کر سکوں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جبوبی پنجاب ، صوبہ پنجاب کا پسماندہ ترین حصہ ہے کیونکہ اپر پنجاب میں ذرائع کے مطابق فی نفر پر 35ہزار روپے خرچ کیئے جاتے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب میں صرف 5ہزار روپے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کا پسماندہ ہونا بعید از قیاس نہیں ۔پس وسائل کے حوالے سے ڈیرہ غازیخان جنوبی پنجاب کا پسماندہ ترین ڈویژن ہے ۔ میں ایک امر کی یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ڈیرہ غازی خان سیاسی و ادبی حوالے سے فلک بوس شہرت کا حامل ہے ۔ یہاں کے سیاسی رہنماؤں نے سمک سے تابہ سماء کی مسافتیں طے کیں ۔ یہ چوٹی کے سیاسی رہنما ء صدارت کے عہد ہ پر فائز رہے ۔ سابق صدر فاروق احمد خان لغاری ( مرحوم )قومی سطح کے سیاستداں تھے ۔ ان کے خاندان کے چشم و چراغ مختلف ادوار میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔ اسی طرح کھوسہ سرداروں کی تاریخ عروس الخطوط سے محلو ظ ہے ۔ اس موصوف خانوادہ کے لوگ بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ گور نری سے لیکر وزارت اعلیٰ تک کے فرائض منصبی نبھاتے رہے ۔ یوں سمجھے کہ ڈیرہ غازی خان کی پسماندگی مذکورہ کی مصلحت یا ایک سازش ہے ۔ ان حالات و واقعات کے پیش نظر ڈیرہ غازی خان کی پسماندگی ڈھکی چھپی نہیں ہے اور عوام کی بے حسی پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
اُن کے آگے کہاں مجال کہ ہم
اپنی محرومیوں کی بات کریں

اگر ڈیرہ غازی خان کا جغرافیائی جائزہ لیا جائے تو اس سے ملحقہ قصبے ، شہراور گاؤں انتہائی درجہ تک پسماندہ ہیں ۔ اسی طرح یونین کونسل چوٹی بالا ،ڈیرہ غازی خان کی پسماندہ ترین یونین کونسل ہے ۔سالہا سال سے اس کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ جس میں ذرائع ابلاغ اور تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کسی صنعت کا نام تک نہیں ۔ مذکورہ یونین بہت سے مواضعات پر مشتمل ہے اور موضع چک ننگر بھی اس یونین کونسل سے نتھی ہے ۔ موضع چک ننگر کے عوام انتہائی محنت کش ہیں ۔ آج کے نا گفتہ بہ دور میں لوگ رشوت ، سود ،فراڈ اور کرپشن جیسے نا پاک عزائم کے ذریعے روزی کمانے میں سر گرداں ہیں ۔ جبکہ موضع چک ننگر کے عوام ان کے بر عکس حلال روزی کی تلاش میں کئی سو میلوں کا سفر طے کرتے ہیں ۔ اسی حوالہ سے جب وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے حلال روزی کی جستجو میں نکلے تو بد قسمتی سے ان اجیروں کا قافلہ جم غفیر کی صورت میں جب لاہور پہنچا تو ان کا ٹاکرا موت کے تاجروں سے ہوا جنہوں نے موت کی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں ۔
فیکٹریوں اور اُن کے مالکان کے نام درج ذیل ہیں ۔
1۔ انیس بٹ گرائیڈنگ سٹون ۔۔۔۔۔۔۔انیس بٹ
2۔ امپیریل سرا میکس گرائیڈنگ سٹون ۔۔۔۔۔۔ چوہدری اشرف ، حاجی محمد خالد
3۔ طیب گرائیڈنگ سٹون ۔۔۔۔۔۔محمد اکرم
4۔ اتفاق گرائیڈنگ سٹون ( سوامسن کالر )۔۔۔۔۔۔ صابر حسین
مندرجہ بالا جان لیوا فیکٹریاں لاہور شہر سے شمال مغرب کی طرف 14سے16کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں ۔
5۔ عبدالستار گرائیڈنگ سٹون اقبال ٹاؤن جاوید نگر جو کہ مولوی یعقوب اور عبدالستار کی ملکیت ہے ۔
6۔ بلیک گولڈ گرائیدنگ سٹون نزد رحمان ملز اس قسم کی چند فیکٹر یاں گو جرانوالہ میں بھی ہیں ۔

کسب حلال کے ہر اجیر کو مذکورہ بالا فیکٹریوں میں کام تو مل گیا لیکن انجام کی خبر نہ تھی ۔ معلوم ہوا ہے کہ ان فیکٹریوں میں کوارڈز نامی پتھر پستا تھا جو کہ پشاور سے لایا جاتا تھا ۔ انتہائی خطر ناک پتھر جس کی کاٹ آتش عناں سے کم نہ تھی۔ اس کی جو DUSTٰ یعنی دھوڑ تھی وہ پھیپھڑوں کیلئے نا دیدہ وائرس کی طرح تھی۔ اس پسے ہوئے پتھر میں ایک BOARCKنامی کیمیکل جو کہ جرمنی اور اٹلی سے در آمد ہوتا ہے ۔ مکس کیا جاتا تھا ۔ یہ کیمیکل صحت کیلئے صرف مضر ہی نہیں تھا بلکہ نہایت مہلک تھا ۔ درندہ صفت فیکٹری مالکان نے ان اجیروں کو بغیر تربیت کے کام پر لگا لیا نہ ہی ان مزدروں کیلئے حفاظتی لباس کا بندو بست کیا گیا اور نہ ہی انہیں اس کام کے نقصان دہ اثرات سے مطلع کیا گیا ۔ مشقت کم تھی معاوضہ بے کم و کاست تھا ۔ یہ لوگ انجام سے بے خبرہو کر کام میں جتے رہے ۔ آتے جاتے راہ گیران اجیروں کو اس کام کے نقصان دہ اثرات سے آگاہ کرتے رہے ۔ کیونکہ یہ اجیروں کا قافلہ اس ثقافت سے نا آشنا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی اس بات کو پہلو ئے رشک میں لیتے رہے۔ اب نہایت ہی تاسف سے کہنا پڑتا ہے اُف یہ غریبی ہائے یہ نا خواندگی !

تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کارِبد کے آثار بد عیاں ہونے لگے ۔ محمد اصغر ولد اﷲ بخش اس کاربد کی ابتلا میں مبتلا ہوگیا ۔ سانس کی بیماری لاحق ہوگئی۔ جب اسے چیک کرایا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ اسی کوارڈز نامی پتھر کی DUSTٰؑیعنی دھوڑ اور BOARCKنامی کیمیکل کی کارستانی ہے ۔ جس سے نجات صرف مشکل ہیں نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔ کچھ عرصہ بعد سیف اﷲ ولد محمد اسماعیل بیمار ہو گیا ۔ نہایت علاج کے با وجود بھی یہ مارچ 2009ء میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ پھر کیا ہوا قیامت ٹوٹ پڑی قیامت اور قیامت کبریٰ ۔ بسکہ اس مرض نے تمام وہاں کام کرتے ہوئے مزدوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ایک بھونچال سا چھا گیاپھر کیا ہونا تھا دن رات موت سایہ فگن رہی اسی مارچ کے مہینے میں21تاریخ کو محمد رفیق ولد محمد اقبال چل بسے ۔ دس دن بعد عبدالجبار ولد میہاں اپنے والدین کو داغ مفارقت دیکر چلے گئے ۔ موضع چک ننگر اور اس سے ملحقہ مواضعات کے عوام الخدر ، الا ماں جیسے کلمات سے پکار اُٹھے بات صرف یہاں جاکر نہیں رکتی ۔
سن سکودرد کا فسانہ سنو
مجھ میں یار ائے اختصار نہیں

اسی ماہ میں جب عبداللطیف ولد میہاں نہایت تشویشناک صورت حال میں نشتر ہسپتال میں نبرد آز ما تھے ۔ ڈاکٹر زبیر شاہین پروفیسر آف چیسٹ نشتر ہسپتال ملتان سے دریافت کیا گیا کہ مریض RECOVERکیوں نہیں ہو رہے ۔ تو اس نے کہا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟۔ اس سے پہلے اس کیمیکل کیو جہ سے بستی گبر تونسہ شریف ، ڈیرہ غازیخان کا ایک نوجوان باقی نہیں بچا ۔ پس کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اﷲ کریم سے معافی طلب کی ۔ پروفیسر صاحب کی اس تلخی نے آنکھیں کھول دیں کہ دوسرا سوال نہیں سنے گا اگر کوئی سوال کر بھی لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ GET OUT کہہ کر وارڈ سے باہر نکال دے۔ اس دوران ٹوئینٹی کپ کے میچ ہو رہے تھے ۔ وارڈ میں TVنصب تھا ۔ دل بہلانے کیلئے ورثاء نے TVآن کیا اور میچ دیکھتے رہے۔ اس طرح دوپہر گز ر گئے ۔ رات 9بجے کے قریب جب ڈاکٹر لیاقت علی ڈوگر ( اسسٹنٹ پروفیسر آف چیسٹ نشتر ہسپتال ملتان ) اسی وارڈ کیلئے راؤند کیلئے آئے تو ان سے متعدد سوالات کیئے گئے۔ انہوں نے مرتسم مزاجی سے جوابات فراہم کئے اور کہا کہ ان مریضوں کا افاقہ ممکن نہیں ۔ کیونکہ ان لوگوں کو بنیادی احتیاطی لباس فراہم نہیں کیا گیا تھا ۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے اجیروں کیلئے حفاظتی لباس اور رسیپیریٹر ہوتا ہے ۔ جس کی قیمت دس ہزار سے باراہ ہزار روپے تک ہوتی ہے اور یہ صرف دو ہفتے کام کرسکتا ہے ۔ اس کے بعد پھر تبدیل کیا جاتا ہے ۔ جو انہیں مہیا نہیں کیا گیا ۔ علاوہ ازیں ان اجیروں کو سوشل ویلفیئر میں رجسٹرڈ کرایا جاتا ہے ۔اب کے پانی سر سے گزر گیا تھا ۔ دو ہی دن گزر ے تھے علی الصبح ایمبولینس صور پھونکتے آگئی۔ پتہ چلا کہ عبداللطیف ول میہاں خان جان کی بازی ہار گیا ہے ۔ اس مسلسل موت نے تہلکہ سا مچا دیا ہر طرف آہ و فغاں، سسکیاں اور ماتم کا عالم تھا۔ مقامی پریس نمائندگان حرکت میں آگئے۔ گاہے گاہے مختلف اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہیں ۔نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک درجن سے زائد مذکورہ اجیر تشویشناک صورت حال سے دور چار ہوگئے ۔ موت نے ان کا پیچھا کر لیا ۔ یہ لوگ مختلف سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل تھے ۔ سرکاری ادارے اتنابے اعتناء ہو گئے کہ ایڈمشن کے پورے تین دن بعد ڈسچارج سلپ بناکر مریض کو گھر بھیج دیتے تھے۔ جبکہ ان مریضوں کو آکسیجن حد سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ جب یہ مریض آخری سٹیج پر پہنچے تو آکسیجن کا بڑا سلنڈر ایک گھنٹہ تک کام نہیں کرتا تھا ۔ پھیپھڑوں جیسی نعمت تو فیکٹریوں کے کیمیکل کی نذر ہو گئی تھی۔ پھر یہ مصنوعی آکسیجن کسی کو کب تک زندہ رکھتی چند مہینوں بعد رفیق احمد ولد جلال اپنے والدین کو سوگوار چھوڑ گئے ۔ یہ مرحوم اکتوبر ہی میں فوت ہوئے تو پھر محمد سلطان ولد میہاں نے جانے کی تیاری کر لی بالآخر نومبر میں وہ بھی چل بسے۔ ایک ہفتہ بعد شاہنواز ولد خادم حسین نے اس دارِ فانی کو خیر آباد کہا۔ اس سالِ بد کیلئے لوگ جمعتہ المبارک اور مختلف اجتماعات میں دعائیں منگواتے رہے کہ ’’ اے اﷲ کریم ، اے مجیب الداعو ٰۃ اس سال جو ہوا سو ہوا ۔ اب اس سال کے دن اور راتیں مختصر کر دے لیکن جاتے جاتے اس سال نے 25دسمبر 2009ء عابد حسین ولد کریم بخش کی جان لے لی ۔ سال کا ہندسہ تبدیل ہوا 2009ء سے ہم 2010ء میں چلے گئے لوگ نئے سال کی خوشیوں میں مگن تھے کہ 3جنوری2010ء کو عبدالغفور ولد جان محمد بوڑھے والدین اور بیٹوں اور بیٹیوں کو سلام آخری کرتا چلا گیا ۔ ان کے جانے سے پہلے سالارِ قافلہ موت و حیات کی کشمکش میں تھے ۔ کہ ان کے بدن میں پھیپھڑوں جیسی نعمت نہ رہی ۔ بالآخر سالارِ قافلہ محمد جعفر ولد غلام حسن ، عبدالغفورمرحوم کے ایک ہفتہ بعد راہی عدم ہوئے ۔ اسی طرح فروری میں محمد اختر ولد مہر علی مارچ میں امام بخش ولد جان محمد ، مئی میں محمد عاشق ولد محمد بخش ، اگست میں مہر علی ولد پلیہ خان ، مجاہد حسین ولد غلام رسول ، نومبر میں شاہنواز ولد محمد علی خان ، دسمبر میں مقصود احمد ولد غلام حسن لواحقین کے لئے سسکتی بلکتی سرد آہیں چھوڑ گئے ۔2010ء کے بارہ مہینوں نے 9نوجوان چھین لئے ۔ اب کے ضلعی انتظامیہ کی آنکھیں قدرے کھلیں اور ما حولیات والوں نے بھی ان کا ساتھ دیا ۔ EDOہیلتھ نے موضع چک ننگر میں دو تین روایتی وزٹ کئے ۔ بات صرف اتنا تھی کہ انہوں نے فہرست تیار کرنی تھی اور خانہ پری کرتے ہوئے کف سیرپ عنایت کرتے چلے گئے۔ پریس میڈیا کی طرح الیکٹرونک میڈیا نے بھی ہمارا خوب ساتھ دیا گاہے بہ گاہے تمام چینلز پر خبریں کاسٹ کرتے رہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ
کتنے منزل سے بے خبر نکلے
تھا جنہیں ادعائے راہبری

سیاسی قائدین ،مقامی سرداروں اور سماجی حلقوں نے تعزیت تک نہیں کی ۔خادم اعلیٰ پنجاب نے اس المیہ و عظیم سانحہ کی طرف دز دیدہ نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ موصوف کے اختیار ات تو صرف لاہور تک تقسیم ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ ان پر ظلم و ستم کا پہاڑلاہور یوں نے گرایا تھا ۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے تو لاہور والوں کا دفاع کرنا تھا ۔ لغاری ، کھوسہ، مزاری ، دریشک ، لنڈ اور گورچانی سرداروں کے کانوں جوں تک نہ رینگی ۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ
ع: لوک اندھے وی نئیں بلکہ بوڑے وی ہن

ان تمام متو فین کا تعلق نانگری قبیلہ ، لغاری قبیلہ کی ذیلی شاخ سے ہے اور لغاری تمن میں یہ اہم جزو گردانی جاتی ہے ۔ سابق صدر فاروق احمد لغاری کی رحلت کے بعد لغاری سردار فرضی طور پر اس طرف متوجہ ہوئے ۔ کیونکہ ہلاکتوں کا باب ابھی تک بند نہیں ہوا تھا ۔ لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد مذکورہ سرداروں نے اپنی بے چارگی وبے بسی کی اطلاع دی کہا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟۔ یہ مضحکہ خیز اُمید بھی گئی۔ نانگری قبیلہ و برادری کی نوبت فاقوں تک آ پہنچی ایک طرف جانی نقصان کا سامنا تھا ۔ دوسرا مالی طور پر یہ لوگ بے انت کمزور ہو چکے تھے۔ 2010ء کا خاتمہ ہو گیا تھا 2011ء جنوری میں محمد طارق ولد نور محمد کی جان لے لی ۔ فروری میں مختیار احمد ولد پلیہ ، عبدالحکیم ولد حاجی خان ، اپریل میں محمد بلال ولد جان محمد اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔ اسی اپریل میں بشیر احمد ولد فیض محمد 25اگست 2011ء میں عبداللطیف ولد جلال خان ، شاہنواز ولد خان محمد ، اپنی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی تھے اور ان کا اجتماعی جنازہ پڑھا گیا ۔ ستمبر کے مہینے نے کیا فرصت دی کہ 3اکتوبر 2011ء کو محمد نواز ولد جلال رحلت فر ما گئے ۔ 19اکتوبر کو محمد اسماعیل ولد دوست محمد کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا ۔ نومبر کی پہلی تاریخ کو صادق حسین ولد بشکن اور عبدالمجید ولد چاکر خان اپنے خاندان کو سوگوار چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوئے ۔ 27جنوری2012ء کو غلام یٰسین ولد خان محمد اور ایک ہفتہ بعد محبوب احمد ولد مہر علی اپنے اپنے بچوں کو سوگوار چھوڑ گئے ۔ بعد ازاں محمد اختر ولد گاجی خان ، عبدالرزاق ولد محمد طفیل ، خدا بخش ولد محمد اسماعیل ، حمید ولد محمد بخش ، محمد اصغر ولد اﷲ بخش اپنی اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ القصہ ایک ہی موضع اور ایک ہی قبیلہ کے 53سے زائداجیر موت کے منہ میں چلے گئے ۔ اس ضمن میں ایک اور المیہ کی تو ضیح جزوِ لازم ہے ۔ اس لب چباتے ہوئے عظیم سانحہ میں جلال خان کے تین نوجوان بیٹے رفیق احمد ، عبداللطیف اور محمد نواز لقمۂ اجل بنے ۔ میہا خان کے دو بیٹے عبدالجبار اور محمد سلطان نے اپنی اپنی قیمتی جانیں گنوائیں ۔ پلیہ خان کے دو بیٹے مہر علی اور مختیار ، غلام حسن کے دو بیٹے محمد جعفر اور مقصود احمد جان محمد کے دو بیٹے عبدالغفور اور مام بخش اپنے اپنے والدین کو سوگوار چھوڑ گئے ۔ مذکورہ الدین کی گود میں انگاروں کے سوا اور کچھ نہیں ۔

حضرت عمرؓ نے اپنے مقررہ گورنروں کو متنبہ کیا تھا کہ اگر دریا ئے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بے گناہ مارا گیا تو اس کا جواب دہ میں ہی ہوں گا۔

خدا جانے کہ اتنے افراد کی موت کن لوگوں کے ذمہ جا ٹھہر تی ہے ۔ ہر ذی روح کو موت آنی ہے یہ سلسلہ اگر یہیں پر رُک جاتا ہے تو ہمارے لیے نعمت خطیر سے کم نہیں ۔ مگر موت کی طرف یہ رواں دواں قافلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ ہنوز 200کے لگ بھگ افراد جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہیں ۔ جن پر اس جان لیوا مرض کے آثار واضح ہو چکے ہیں ۔

یاد رہے کہ جان لیوا مرض سے لُنڈ ، کھوسہ اور وڈانی قبیلہ کا ایک ایک فرد فوت ہو چکا ہے ۔ راقم الحروف مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے اس شعر پر عمل کرتے ہوئے اس آبدیدہ حقیقت کو قلم بند کرتا ہے کہ !
مصیبت کا ہر اِک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ

بنا بریں مصیبت زدگان مسلسل ایک کرب سے گزر رہے ہیں ۔ یہاں فاقہ ہے ، دردو اندوہ غم ، سسکیاں اور سرد آہیں ۔ ورثا ارباب ِ اختیار ( وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس آف پاکستان) سے گزر ا شات کر چکے ہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ اب عالمی ادارہ ہیو من رائٹس اور عالمی پریس اور الیکٹرانک میڈیا سے استدعا کرتے ہیں کہ ان کی مدد کو پہنچیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ پر زور احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے سسکتے بلکتے مریضوں کیلئے خصوصی علاج معالجہ کے ساتھ فوت شدگان کے متاثرین کو معاوضہ دلا کر ان کی دلجوئی فرمائیں اور فیکٹر ی مالکان کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرائیں جو قر ین انصاف و قانون ہے ۔
Mansha Faridi
About the Author: Mansha Faridi Read More Articles by Mansha Faridi: 66 Articles with 51869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.