رات کی تاریکی سمٹ چکی تھی۔ سورج کی کرنوں
نے بلجیئم کے دار الحکومت برسلز کی ٹھنڈی ہواؤں میں ایک عجیب سرور پھیلا
دیا تھا۔ لوگ روزمرہ کے کاموں کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ برسلز ائیرپورٹ
اور میٹرو سٹیشن پر مسافروں کی بھیڑ تھی۔ ہر ایک امید کی دنیا بسائے ہوئے
اپنے دھن میں مست تھا۔ صبح کے آٹھ بج چکے تھے ۔ زاوینٹم ائیر پورٹ سے
امریکی ائیر لائن کی فلاڈلفیا جا نے والی پرواز نے 9:40 بجے روانہ ہونا تھا۔
روانگی لاونچ میں مقامی ائیر لائن اور امریکی ائیر لائن کے لیے چیک ان شروع
ہو چکا تھا۔ اچانک لاؤنج میں فائرنگ کی اواز گونجے لگی اور دیکھتے ہی
دیکھتے امریکی ائیر لائن کے چیک ان ڈیسک پر دو خود کش بمباروں نے خود کو
اڑا دیا۔ دھماکوں سے ائیر پورٹ کی پوری عمارت لرز گئی۔دھویں ے سیاہ بادل
اسمان پر ٹہلنے لگے۔ لاؤنج کے چھت کا ایک حصہ گر چکا تھا۔ فائرنگ کی آوازیں
رک گئیں۔ لاؤنج میں سناٹا چھا گیا۔ 11 مسافروں کے جسموں کے ٹکڑے پورے لاؤنج
میں پھیل چکے تھے۔ ان کے روح جسم کا ساتھ چھوڑ چکے تھیں۔ 80 سے زائد موت سے
جیتنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔زخمیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل
تھے۔ چند لمحوں بعد اہ و فغاں بلند ہونے لگی۔ زخمیوں کی چیخ و پکار سے کان
و کان آواز سنائی نہیں دے رہی تھے۔ ہر طرف افراتفری اور بھگدڑ مچ گئی۔
مسافر جان بچانے کے لیے دیوانہ وار دوڑتے رہے۔ فوری طور پر ائیر پورٹ آنے
والی پروازوں کا رخ انویرپ لیج کے ائیرپورٹس کی جانب موڑ دیا گیا۔ تمام
فلائٹس کینسل کدی گئیں۔ ائیر پورٹ میں موجود لوگوں کو کرائسز سنٹر منتقل کر
دیا گیا۔ ایک خودکش بمبار فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ ائیرپورٹ سے نہ
پھٹنے والی خودکش جیکٹ، بم اور کلاشنکوف ملی۔
دوسری طرف یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹرز اور امریکی سفارتخانے کے قریب میئل
بیک کے علاقے میں واقع میٹرو سٹیشن پر ہلچل اور گہماگہمی عروج پر تھی۔ پلیٹ
فارم پر مسافروں کا ہجوم تھا۔ ہر ایک اپنے منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے
تیار تھا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچ چکی تھی۔ جانے والے مسافر سوار ہوچکے تھے۔
کچھ لوگ یہاں اتر چکے تھے۔ بعض دوسری ٹرین کی انتظار میں تھے۔ ٹرین نے اپنے
سفر کا آغاز کیا۔ تاہم وہ ابھی بھی انتہائی سست رفتار تھا۔ زاوینٹم ائیر
پورٹ کے دھماکوں کے 79 منٹ بعد میئل بیک کے میٹرو سٹیشن میں بھی خوفناک
دھماکہ ہوا۔ دھماکے سے انسانی اعضاء کے چیتھڑے دور دور تک پھیل گئے۔20
افراد زندگی کے بازی ہار چکے تھے۔ 170 سے زائد زندگی اور موت کی کشمکش میں
مبتلا تھے۔
فرانس کے بعد بیلجیئم میں ہونے والے دھماکوں نے مغربی دنیا میں ہلچل مچادی
ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے مشرقی دنیا خصوصا اسلامی ممالک پر دہشت گردی مسلط
کرنے والے اب خود بھی غیر محفوظ ہونے لگے۔ دوسروں کے گھروں میں آگ جھونکھنے
والوں کے اپنے گھروں کو بھی آگ نے اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مسلمانوں کو
دہشت گرد قرار دینے والے اور اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھنے
والے ذرا یہ بتائے کہ فرانس کے بعد بیلجیئم میں دھماکے کرنے والے کس مدرسے
فاضل تھے؟ کیا بلجیئم دھماکوں کے بعد وہاں بھی مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ
کر دیا جائے گا؟ اگر اسلام تشدد پسند ہے تو ان کے اپنے کمیونٹی میں یہ کیوں
تیزی سے پھیل رہا ہے؟ افغان طالبان کے اسلامی مملکت سے خائف جن مغربی
طاقتوں نے ان کو دہشت گرد قرار دے کر دھاوا بول دیا تھااب وہ خود کیسے ان
کی دہشت گرد نہ ہونے کی اقرار کر رہے ہیں؟ جہاں اسلام پسند جماعت بر سر
اقتدار ہو تو وہاں کا قانون شدت پسند کیوں کہلا یا جاتا ہے؟ غیر مسلم ممالک
میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کیوں نظر نہیں آرہے؟ کشمیر، چیچنیا اور
فسلطین کی مظلوم کیا انسان نہیں ہیں؟ کیا انہیں آزادی کا حق حاصل نہیں ؟
افغانستان، عراق اور شام پر انسانی حقوق کے نام پر چڑھائی کرنے والوں کو
بھارت، برما اور بوسنیا کے مسلمانوں پر مظالم کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟
سوچنے کی بات ہے اگر سوچنے کے لیے دماغ اور محسوس کرنے کے لیے دل ہو تو۔۔۔ |