لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔

کچھ سالوں پہلے کی بات ہے مجھے اپنی بہن کے ساتھ ایک بڑے سرکاری ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔اس کے بچے کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی اور اسے ایمرجنسی میں ICUمیں داخل کرانا پڑا۔لیکن آج اتنے برس گزرنے کے باوجود بھی مجھے اس انتہائی نگہداشت کے کمرے کا منظر نہیں بھولتا ۔۔۔۔جہاں ایک ہی بستر پر دو دو بچے لیٹے ہوئے تھے۔۔۔۔ہر طرف کاکاکروچ اور مختلف کیڑے مکوڑے ۔بچے اگر بیمار نہ ہوں تو بھی اس ماحول کے اندر پوری صلاحیت تھی کہ وہ بیماری پیدا کردیتے اور پھر باہر کا منظر جہاں بچارے مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے ان کے لواحقین ۔۔شدید دھوپ میں انتظار کی گھڑیاں گزارتے ہوئے کہ کب ان کے مریض ان ہسپتالوں کے چنگل سے رہا ہوں گے۔(اس کے بعد دوبارہ اس ہسپتال میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی)

یہ صرف ایک محکمے کا حال نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی بیمار ہے ۔گھن زدہ۔۔ جسے ہم نے اﷲ کے حوالے کردیا کہ وہی اسے سنبھالے ۔ہر ادارے میں لوٹ مچی ہوئی ہے۔ہر شعبہ زندگی میں کرپٹ لوگ چھائے ہوئے ہیں ۔یوں سمجھیں کے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔خواہ وہ ادارہ تعلیم کا ہو یا عدلیہ کا ،کوئی سرکاری دفتر ہویا پھر ہمارا انتخابی نظام۔ایسا لگتا ہے کہ کرپشن کا لفظ اب اس قدر زباں زدِ عام سے کہ کہ اس نے اپنا اثر بھی کھودیا ہے۔

موذی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں،نہ صاف پینے کا پانی اور نہ صاف ستھری آلودگی سے پاک فضا،جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ،جگہ جگہ غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ،جعلی دوائیں ،ملاوٹ زدہ کھانا،تیل اور گھی بھی ملاوٹ زدہ ،حد تو یہ کہ دودھ جو بچوں کی غذا ہے وہ بھی کیمیکل سے بھرپور۔

روزانہ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا میں حکومتی وزراء اور ممبران اسمبلی یہ ہی بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کررہا ہے جی ہاں ترقی کررہا ہے ،اونچی اونچی عمارتیں،بڑے بڑے شاپنگ مالز،عالیشان موٹروے،سڑکیں اور پلوں کا جال ،کبھی اورنج اور کبھی گرین ،بڑے بڑے بل بورڈز اور اس پر لگے اشتہارات۔۔۔۔ہماری خوش حالی کا منہ بولتا ثبوت۔
جبکہ دوسری طرف ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پھلوں کی قیمت اوسطاً سو روپے کلو،مرغی کا گوشت تین سو روپے کلو،انڈا سو روپے درجن اور اسی طرح دوسری ضروریات زندگی جو کہ عام آدمی کو میسر نہیں ہے۔بے تحاشا معدنی ذخائز سے مالا مال ہونے کے باوجود حالات ایسے ہیں کہ عوام کو بنیادی ضروریات بھی مناسب قیمتوں پر دستیاب نہیں۔

بلکہ ایک خاتون وزیر کا تو یہ کہنا ہے کہ غریب آدمی کو مہنگی دوائیں خریدنے کی ضرورت ہی کیاہے،اس ملک پر حکمرانی کرنے والے نوکر شاہی کی ذہنی کیفیت کا بہترین عکاس ہے۔

جبکہ ہمارے حکمران جو کہ مختلف میگا پراجیکٹ اور عوام کے نام پر قرضے پر قرضہ لیے جارہے ہیں،لیکن اس سے عوام کو کیا کچھ ملا۔۔۔۔کتنے پائے ہسپتال اس سے بنے،کتنے تعلیمی ادارے بن پائے،عوام جانتے نہیں کہ یہ قرضے کہاں جاتے ہیں اور کون کون ان قرضوں کو کس طرح خرچ کرتے ہیں۔پھر اگر بات کرپشن کی ہوتو مختصر بات کیسے ہوسکتی ہے ۔یہ اسلامی ملک جہاں رہنے والے بھی مسلمان اور ملاوٹ کرنے والے بھی مسلمان ،کیا ان کے جسم میں دل اور ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔یہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود و ہنود ۔

گذشتہ دنوں ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والی خبر سامنے آئی کہ گدھے نایاب ہونے کی وجہ سے تاجروں نے خنزیر کا گوشت اسمگل کرنا شروع کردیا۔پھر مرغیوں کی خوراک میں سور کی چربی ملانے کا انکشاف ۔غرض یہ کہ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ معاملات کہاں رکیں گے ۔

پھر سیاسی بدعنوانیوں کی طرف آئیں تو ہر شخص لوٹتا کھسوٹتا نظر آتا ہے۔ہمارا سیاسی کلچراس حد تک زوال پذیر ہے اور تباہی کا شکار ہے کہ اگر سیاست سے کرپشن کو نکال دیا جائے تو شاید سیاست ہی ختم ہوجائے کیونکہ پھر شاید بہت سے لوگ سیاست کو ہی خیر باد کہ دیں کیونکہ ہمارے ہاں اب سیاست نفع بخش تجار ت بن چکی ہے ۔کروڑوں لگا کر اربوں کماؤ ،چند ایک کے سوا شاید ہی کوئی ہو جس کا دامن پاک ہو۔ رشوت ستانی عام ہے ۔میڈیا جس کا کام ہے کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کر کے عوام کے سامنے رکھنا ،وہ بھی بک چکا ہے ملٹی نیشنل کمپنیز اور سیاست دانوں کے ہاتھوں۔اور اس کا ثبوت ممتاز قادری کی پھانسی اور پھر اس کی تدفین کا مکمل بائیکاٹ ۔ناموس رسالت یعنی نبیؐ کی محبت جو شرط ایمان ہے ،ہم تو وہ لوگ ہیں کہ ہم نے اپنے ایمانوں کے بھی سودے کرلیے ہیں ہم تو اس سے بھی نہیں چوکتے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی کا بیان جو انہوں نے پچھلے دنوں دیا وہ یقینا قابل توجہ ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ۔عام آدمی کو دو وقت کی روٹی بھی ملنا محال ہے ۔ ملک کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی ملک سچے رہنماؤ ں سے محروم ہوگیا تھا ۔ 68سال گزر جانے کے باوجود بھی ملک کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکا ۔قوم لسانی ، علاقائی ، دیہی ، شہری اور مذہبی تقسیم کا شکار ہوگئی ۔ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا ۔ان مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا ۔ اگر وسائل کا درست استعمال ہو تو ہمارا ملک دنیا کا بہترین ملک بن جائے گا۔ یہ ہم جیسا کوئی عام فرد نہیں کہہ رہا ہے بلکہ یہ ملک کے سب سے بڑی عدالت کے سب سے اہم ذمہ داری پر فائز شخص کی بات ہے ۔

ہمیں کوئی خوف نہیں ستاتا ،ہم تاریخ سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے ،ہم ھل من مزید کی عملی تصویر بن گئے ہیں ہم ہزاروں افراد کے قاتلوں کو ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں ،ان لوگوں کو جن کے دامن پر معصوم بے گناہ بچیوں کے خون کے دھبے میں وہ علاج کی غرض سے باہر چلے جاتے ہیں کیونکہ ملک میں ان کا علاج ہی نہیں ہوسکتا ، 16کروڑ قوم جن ہسپتالوں میں جاتی ہے وہاں ان کے لیے کوئی علاج نہیں ۔

جنہوں نے سالوں اس ملک میں سرزمین کو ویران کیے رکھا ،کتنے گھروں کو اجاڑ دیا ،کتنی عورتیں بیوہ اور کتنی بچے یتیم ہوئے ،لیکن آج وہ ملک آتے ہیں اور رونا مچاتے ہیں معافی طلب کرتے ہیں اور لوگوں کو سانپ سونگھا ہوا ہے ٹی وی اور ہمارا میڈیا ان کی کوریج کرتا ہے لیکن کوئی ان سے گزرتے وقت کا حساب نہیں طلب کرتا ۔یہ اخلاقی کرپشن نہیں ہے تو کیا ہے ،کہ ہم سچ سے کیسے گھبراتے ہیں ۔ہماری آوازیں بند ہوجاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ قوم ہیں ۔

اس وقت ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم کے متحد ہوجائیں۔ اسی طرح یکجا اور یکسو ہوجائیں جس طرح کے ہم اکثر Crisisمیں ہوجاتے ہیں ۔اپنے حقوق کے لیے اپنے اندر شعور پیدا کریں ۔معاشرے میں کرپشن اور بددیانتی کو ختم کرنے کا عزم کریں اور اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں ۔اپنے اندر خدا خوفی کو پروان چڑھائیں ،امانت و دیانت کے اصول اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک پھر سے جنت نشاں ہو جائے، ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Saima Afroz
About the Author: Saima Afroz Read More Articles by Saima Afroz: 4 Articles with 3750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.