صحت کا عالمی دن اور پاکستان میں صحت کی سہولتوں کی حالت ِ زار
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
ورلڈ ہیلتھ ڈئے کے حوالے سے خصوصی تحریر |
|
صحت کی سہولتوں کے حوالے سے کیا رونا
رویا جائے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اخبارات کے مطابق تو پاکستان میں
اُس فلاحی ریاست کا منظر پیش کیا جارہا ہوتا ہے ۔جس طرح کہ برطانیہ میں
ہوتا ہے یا امریکہ یورپ میں وہاں کی عوام کو صحت کی سہولتیں میسر ہوتی
ہیں۔وزیر اعظم پاکستان نے چند ماہ پہلے جس قومی صھت پروگرام کا اعلان کیا
کہ موذی امراض کے حامل لو گوں کو مفت علاج ملے گا۔ لیکن عملی طور پر جن
لوگوں کو اِس معیار پر پورا اُٹرنا ہوگا وہ لوگ شائد اِص کسوٹی پر پورا
اُترنے کی بجائے موت کو ہی ترجیح دیں۔ ملک مین جس طرح ہوس نے جگہ لے لی ہے
۔ اِس سے یہ دیکھائی دیتا ہے کہ یہ مادر پدر آزاد جنگا ہے جہاں کوئی قانون
اور قاعدہ نہیں ہے۔جب تک ہوس زدہ معاشرئے کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اور
روپے پیسے کی دوڑ کو بریک نہیں لگے گی تب تک حکموت کے خوشنماء اعلانات
اخبارات اور میڈیا کی حد تک ہی رہیں گے۔وزیراعظم نواز شریف نے غریبوں کے
مفت علاج کے لئے قومی صحت پروگرام کا شروع کیا ہے، اس پروگرام کے تحت سات
مہلک بیماریوں کا علاج مفت کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں پروگرام پندرہ
اضلاع میں شروع ہو گا۔12لاکھ خاندانوں کو صحت کارڈ فراہم کئے جائیں گے اور
سالانہ تین لاکھ روپے تک علاج کی سہولت حاصل ہو گی۔ یہ حد پوری ہونے پر بھی
ان مریضوں کا علاج جاری رہے گا، جو پہلے سے زیر علاج ہوں گے اُنہیں بیت
المال سے تین لاکھ روپے فراہم کئے جائیں گے۔ علاج معالجے کی سہولتوں کے
متعلق ہیلپ لائن پر مفت کال کی جا سکتی ہے، پروگرام سے 32لاکھ افراد مستفید
ہوں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اِس سلسلے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا
صحت پروگرام کا اجرا مسلم لیگ(ن) کے منشور میں عوام سے کئے گئے ایک اور
وعدے کی تکمیل ہے، غریب خاندانوں کا علاج اب حکومت کی ذمے داری ہے۔ قومی
صحت پروگرام کو مزید بہتر بنائیں گے، صحت اور تعلیم صوبوں کی ذمے داری ہے
جو انہیں ادا کرنی چاہئے پھر بھی وفاق ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔اس پروگرام کا
مقصد کم آمدنی والوں کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ اب ایسا
نہیں ہو گا کہ غریب بیمار ہو،اسے گھر کی چیزیں بیچنا پڑیں، علاج کی خاطر
جائیدادیں تک بک جاتی ہیں۔ غریب خاندانوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت دی
جائے گی، ابھی دو صوبے اس پروگرام میں شامل نہیں وہاں بھی کام شروع ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا ہم نے فلاحی ریاست کی جانب ایک اور قدم بڑھایا ہے اس
پروگرام کا غلط استعمال کیا گیا تو مَیں سخت ایکشن سے نہیں ہچکچاؤں
گا۔وزیراعظم نے غریبوں کے لئے جس ہیلتھ پروگرام کا اعلان کیا ہے اسے غریبوں
کے لئے سال کا تحفہ قرار دیا جانا چاہئے، علاج معالجہ جس طرح وقت کے ساتھ
ساتھ پیچیدہ اور مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور ادویات کی قیمتیں جس طرح آسمان
کو چھو رہی ہیں غریبوں کے لئے یہ بہت ہی پریشان کن ہو کر رہ گیا تھا، حکومت
بروقت ان کی امداد کو آئی ہے۔ ویسے سرکاری ہسپتالوں میں اگر عمومی طور پر
زیر علاج مریضوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو ان میں زیادہ تر کا تعلق غریب طبقے
سے ہی ہوتا ہے یا بیشتر زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ عرصے سے
تو ہسپتالوں کی حالتِ زار ناقابل بیان ہو گئی ہے، لاہور کا قدیم ترین میو
ہسپتال جہاں علاج کے لئے پورے پنجاب، بلکہ دوسرے صوبوں کے مریض بھی رجوع
کرتے ہیں، بدحالی کی تصویر پیش کر رہا ہے، اس کے جو وارڈ قیامِ پاکستان سے
پہلے سے تعمیر شدہ ہیں اُن کی حالت اور بھی خراب ہے، بستر گندے اور پھٹے
پرانے ہیں، صفائی ستھرائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ وارڈوں میں چوہے اور
بلیاں عام پھرتے نظر آتے ہیں، حشرات الارض وارڈوں میں اِدھر اُدھر رینگتے
پھرتے ہیں، بستروں میں کھٹمل وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں، لیکن مریض بے چارے
اِسی حالت میں ہسپتالوں میں رہنے پر مجبور ہیں، ادویات بھی انہیں خود
خریدنا پڑتی ہیں۔ جہاں تک پرائیویٹ ہسپتالوں کا تعلق ہے وہاں غریب تو کیا
اچھا خاصا کھاتا پیتا فرد بھی علاج کرانے کا تصور نہیں کرسکتا، ان کے کمروں
کے کرائے ہی فورسٹار ہوٹلوں کے برابر ہیں۔لاہور کی آبادی جس تیزی سے بڑھ
رہی ہے اور ایک اطلاع کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ اربنائزیشن لاہور میں
ہو رہی ہے، اس حساب سے علاج معالجے کی سہولتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ یہ
شکایت عام ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے سٹوروں سے ادویات چوری کر کے بازار میں
فروخت کر دی جاتی ہیں،محکمہ صحت کا کوئی اعلیٰ افسر اگر چاہے تو اسے شہر
میں ادویہ کی ایسی فارمیسیاں عام مل جائیں گی جہاں ہسپتالوں سے چوری شدہ
ادویات دھڑلے سے فروخت ہوتی ہیں ان ادویات پر سرکاری مہر صاف پڑھی جاتی ہے۔
اب ظاہر ہے یہ ادویات ایسے لوگوں نے دکانداروں کو معمولی رقم کے عوض فروخت
کی ہوں گی جن کے کنٹرول میں سرکاری ہسپتالوں کے دوا خانے ہیں۔ سرکاری
ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو ادویات کی طویل فہرستیں بازار سے خریدنے
کے لئے تھما دی جاتی ہیں، جن میں سے بعض تو سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتیں۔
یہ ایک پورا سرکل ہے، جس میں ایک مافیا ملوث ہے، چھوٹے شہروں یا قصبات نما
شہروں میں اول تو سہولتیں سرے سے ہی ناپید ہیں اور کہیں ہیں تو ان سے
استفادہ بھی غریب آدمی نہیں کر سکتا۔ہسپتالوں کا اگر ایک مجموعی جائزہ لیا
جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ ایکسرے مشینیں، الٹرا ساؤنڈ
مشینیں اور ای سی جی وغیرہ کے آلات عموماً خراب رہتے ہیں اور سالہا سال تک
درست نہیں ہوتے، لاہور کے واحد چلڈرن ہسپتال میں خراب وینٹی لیٹروں کی وجہ
سے بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں، لوگوں کو لیبارٹری ٹیسٹ بازار سے کرانے
پڑتے ہیں۔ ہسپتالوں کے قرب و جوار میں مختلف قسم کے ٹیسٹوں کی جو
لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں اُن کے ہسپتال کے سٹاف سے باقاعدہ رابطے ہوتے
ہیں اور بعض صورتوں میں وہ مریضوں کو ریفر کرنے پر متعلقہ سٹاف کو کمیشن
بھی دیتے ہیں، اس طرح کسی خاص کمپنی کی ادویات لکھنے پر بھی ڈاکٹروں کو
مختلف قسم کی مراعات دی جاتی ہیں جن میں سیمیناروں کے نام پر غیر ملکی دورے
بھی شامل ہیں۔ بعض کمپنیاں اس حد تک بااثر ہیں کہ کسی نئی کمپنی کو میدان
میں نہیں آنے دیتیں اور جو سستی دوا متعارف کرانا چاہتی ہو،اُسے مختلف قسم
کی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، اس طرح کا ایک کیس گزشتہ دِنوں ہائی کورٹ کے
سامنے بھی آیا جس میں ایک سستی دوا کی رجسٹریشن نہیں ہو پا رہی تھی۔اِن گو
نا گوں مشکلات کے ہوتے ہوئے وزیراعظم نے اگر غریبوں کے لئے ایک ہیلتھ
پروگرام شروع کیا ہے تو یہ لائق تحسین ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس
پروگرام کو اچھی طرح مانیٹر کیا جائے گا، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ ایسے
پروگرام بدعنوانی کی نذر ہو جاتے رہے ہیں، سہولتیں تو غریبوں کے نام پر دی
جائیں گی، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ سادہ لوح اور غریب مریضوں کو لوٹنے والا
مافیا اُنہیں ان سے پوری طرح مستفید ہی نہ ہونے دے اور اس پروگرام کے فنڈز
بھی بعض لوگوں کے لئے جلبِ زر کا ذریعہ بن جائیں، اس تمام پروگرام کو
بدعنوانیوں سے پاک رکھنا ضروری ہو گا، وزیراعظم کی توجہ اس جانب بھی دِلانا
ضروری ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں اور وارڈوں سے غیر حاضر رہنا
معمول بن چکا ہے۔ ڈاکٹر بات بات پر ہڑتال کر دیتے ہیں اور ہسپتال سے باہر
نکل کر سڑکوں پر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں۔ سینئر ڈاکٹروں سے بدسلوکی کے
واقعات بھی عام ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی سینئر ڈاکٹر کو ’’ینگ ڈاکٹروں‘‘
نے اپنی ہڑتال کے دوران مریضوں کے علاج سے روک دیا اور ان سے بد سلوکی بھی
روا رکھی، یہاں تک کے مار پیٹ بھی کی، غریبوں کے لئے یہ پروگرام اسی صورت
فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، جب اسے ہر قسم کی بدعنوانی سے پاک رکھا جائے
اور دیانتدار منتظمین کی نگرانی میں دیا جائے، ڈکٹروں کی اصلاح اور
ہسپتالوں کی بہتری بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم اگر محکمہ صحت کے کسی افسر کو
صرف لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے متعلق ایک جامع رپورٹ تیار رنے کے لئے کہہ
دیں تو اُن پر بہت سے ایسے حقائق منکشف ہوں گے، جو ممکن ہے وہ پہلے نہ
جانتے ہوں اور یہ سب کچھ پڑھ سُن کر ان کے اوسان خطا ہو جائیں۔ زندگی سے
مراد یہ نہیں ہے کہ انسان سانس لے رہا ہو۔ زندگی سے مراد یہ ہے کہ اُس کے
پاس تمام تر بنیادی سہولیات ہوں۔روٹی کپڑا مکان، صحت تعلیم کی سہولتیں میسر
ہوں۔ ہمارے معاشرے میں تو جس کو دوائی میسر آجائے اُسے مراعات یافتہ طبقہ
تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہے کہ اُس کو صحت کی
سہولتیں میسر ہوں۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.