قانون کی حکمرانی پر پلڈاٹ کا سروے
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
میاں شہباز شریف نے شیخوپورہ میں گیس پاور
پلانٹ منصوبے کے کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے دوران عوامی خطاب میں
فرمایا ہے کہ توانائی سمیت ہر شعبے میں قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے
۔میاں صاحب کے بارے یہ تاثر عام ہے کہ وہ جذبات کی روانی میں بہہ کر ایسے
ایسے وعدے کر گزرتے ہیں جن کا فوری طور پر وفا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے اس
ضمن میں اگر کسی مثال کی حاجت ہو تو الیکشن 2013 کی انتخابی مہم کی تقریریں
سن لیجیے ا ن میں ان وعدوں کی واضح جھلک نظر آ جائے گی۔ توانائی بحران کے
خاتمے سے لے کر تعلیم،صحت اور دیگر محکموں سے کرپشن ختم کر کے ان کی اصلاح
کے حوالے سے ایسے پرکشش اور سہانے خواب دکھائے گئے کہ عوام نے دھڑا دھڑ شیر
پر ٹھپہ پہ ٹھپہ لگا کر میاں برادران کو اک مرتبہ پھر اقتدار کے نشہ سے
سرشار کر دیا۔جب میاں صاحبان اقتدار کی راہداریوں میں محو پرواز ہوے تو
انہیں احساس ہوا کہ ان کے وعدے وفا ہونا تو بہت مشکل ہے کیونکہ زمینی حقائق
اس منظر سے قطعی مختلف تھے جو نقشہ میاں برادران نے قوم کے سامنے رکھا تھا
۔ اس صورتحال میں بڑے میاں صاحب نے تو یہ بات کہہ کر جان چھڑا لی کہ چھوٹے
میاں صاحب اکثر تقریر کرتے ہوے جذباتی ہو جاتے ہیں اور یہ و عدے بھی ان کی
جذباتیت کے عکاس ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اپنے تازہ ترین بیان میں جو کہا
ہے کہ وہ توانائی سمیت ہر شعبے میں قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے ۔ اس
بیان کے عملی طور پر کیا اثرات ہوں گے اس کا تعین تو مستقبل کرے گا لیکن فی
الوقت میں میاں شہباز شریف صاحب کی توجہ پلڈاٹ کے حالیہ سروے کی جانب مبذول
کروانا چاہتا ہوں۔قانون کی حکمرانی پر پلڈاٹ نے چاروں صوبوں میں ایک سر وے
کا اہتمام کیا جس کے مطابق قانون کی حکمرانی میں بہتری کے اعتبار سے صوبہ
خیبر پختونخواہ سر فہرست رہا جبکہ تیس سالوں سے گاہے گاہے صوبہ پنجاب پر
حکومت کرنیوالی (ن ) لیگ کی حکومت اس میدان میں دوسرے نمبر پر دکھائی دی ۔
اگرچہ شہباز شریف فن حکمرانی کے جو ہر سے مالا مال ہیں اور ہمہ وقت فعال و
متحرک دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر محکموں کی کار کردگی اور قانون کی حکمرانی
و بالا دستی جیسے اہم معاملات کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھاجائے تو واضح ہو گا
کہ صوبے میں قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی صفر جمع صفر
ہے جبکہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف خادم اعلی کا خطاب ماتھے کی زینت بنائے ہوئے
ہیں ۔شہباز شریف شاہر اہوں اور سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے تو شیر شاہ سوری
کو بھی مات دینے پر تلے ہوئے ہیں لیکن قانون کی حکمرانی اور اداروں کی
فعالیت کے حوالے سے کوئی گراں قدر خدمات انجام دینے سے قطعی قاصر ہیں ۔ اگر
ہم کار کردگی کے حوالے سے صوبہ پنجاب کے چند محکموں کا ذکر کریں تو ان میں
محکمہ پولیس بڑی اہمیت کا حامل محکمہ ہے جس سے ہر عام و خاص کا براہ راست
واسطہ رہتا ہے لیکن پنجاب پولیس جو اپنی کارکردگی کے حوالے سے کبھی صوبہ
بھر میں منفرد مقام رکھی تھی آج کارکردگی کے اعتبار سے پست ترین درجہ کو
چھو رہی ہے سرکاری مداخلت کی بنا پر ہر علاقہ میں من پسند افسران پرکشش
عہدوں پر فائز ہیں جبکہ محنتی و قابل اور ذہین افسر کھڈے لائن لگے ہوے ہیں
۔ ایک وقت تھا پنجاب پولیس کے بارے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بڑے سے بڑے
مجرم کو بھی قانون کے شکنجے میں کسنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پولیس کا ہے
فرض مدد آپ کی جیسے سلوگن کی مکمل لاج رکھتی ہے لیکن ان دنوں تو پنجاب
پولیس کے حالات اس قدر دگر گوں ہیں کہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر پولیس موبائل
محو گشت ہوتی ہے تو اس کے عقب میں ڈاکو لوٹ مار میں مصروف ہوتے ہیں اور کسی
کسی واردات میں تو یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے کہ پولیس بھی ڈاکووں کے ساتھ
ملی ہوئی تھی جبکہ اکثر وارداتوں میں پولیس اہلکاروں کے جرائم میں ملوث
ہونے کے ثبوت بھی منظر عام پر آ چکے ہیں ۔پنجاب پولیس کا انتظامی ڈھانچہ
فعالیت کے اعتبار سے مکمل طور پر ناقص کاکردگی کا حامل ہے اور انصاف کے
تقاضے پورے کرنے سے قطعی قاصر ہے اورجس معاشرے میں انصاف ناپید ہو اس
معاشرے کی حالت کا اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔اب اگر ہم صوبہ
پنجاب میں تعلیم کے شعبہ کی جانب توجہ کریں تو دکھائی دیتا ہے کہ وزیر
اعلیٰ ہوں یا وزیر مشیر سب کی زبانوں پر ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ جب
تک پاکستان کا ہر نوجوان تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتا پاکستان کی
ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتالیکن عملی طور پر ان
حضرات کی تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں قابل ذکر نہیں ہیں ہیں ۔ان کی جدوجہد
محض ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور تعلیم کی تڑپ صرف دکھاوے کی حد تک ہے
۔ان کے دو چہرے ہیں ایک جو عوام کو دکھاتے ہیں اور دوسرا چہرہ ان کا اسمبلی
میں ہوتا ہے ۔بہروپیے ہیں ایک طرف مسیحا اور دوسری جانب ظالم کا کردار
نبھاتے ہیں ۔ذرا غور کریں اگر قوم کو معیاری تعلیم میسر نہ ہو ۔ درسگاہیں
زر خیز دماغوں کو پالش کر کے ماہر سائنسدان ، انجینیرز اور ڈاکٹرز کی تخلیق
کرنے میں نا کام ہوں تو ملکی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ۔ اس طرح اگر
معاشرہ صحت مند افراد پر مشتمل نہ ہو ۔ معاشرہ کا اک بہت بڑا طبقہ حفظان
صحت کی مروجہ بنیادی سہولیات ہی سے محروم ہو ۔ لوگ طرح طرح کی مہلک
بیماریوں کا شکار ہوں تو ایسے بیمار معاشرے سے مثبت اور فعال سر گرمیوں کی
توقع رکھنا عبث ہے۔ صحت مند جسم اور صحت مند دماغ ہی اعلیٰ خیالات کی
آبیاری کا سبب بنتے ہیں جو ایجادات کو جنم دیتے ہیں اور یوں قوموں کی پرواز
آفاق کی رفعتوں کو چھونے لگتی ہے ۔ ذرا سوچیے کیا پنجاب میں حفظان صحت کے
اصول مثالی ہیں۔ قابل فخر و ستائش ہیں یقینی طور پر جواب نفی میں ہے ۔ اسی
طرح عام و خواص کے لیے انصاف کی فراہمی پر سوالیہ نشان ثبت ہے ۔ ہر انسان
کے لیے سستے انصاف کی فراہمی ہی کسی معاشرے کے بے مثال خدو خال کے لیے
بنیادی اہمیت رکھتی ہے اگر معاشرے میں غریب اور امیر کے لیے انصاف کے تقاضے
امتیازی ہوں تو معاشرتی عدم استحکام اور بے چینی واضطراب ہمہ وقت افراد کی
زندگیوں میں موجود رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرہ ارتقا یافتہ پہلو کی
جانب سفر نہیں کر سکتا کیا پنجاب انصاف کی فراہمی کے حوالے سے روشن تصویر
پیش کر رہا ہے کیا پنجاب میں عدل و انصاف کا بول بالا ہے یقینی طور پر ایسا
نہیں ہے اور پھر قانون کی حکمرانی پر بھی دور دس اقدامات اٹھانے کی ضرورت
ہے ۔ لہذا پلڈاٹ کے حالیہ سروے پرپنجاب حکومت کو نہایت سنجیدگی سے غور کرنا
چاہیے کہ آخر کیوں تیس سالوں پر محیط اقتدار ہونے کے باوجود قانون کی
حکمرانی کے میدان میں صوبہ خیبر پختونخواہ پنجاب سے سبقت لے گیا اور پنجاب
پیچھے رہ گیا ۔ وزیر اعلیٰ صاحب کو تھوڑی دیر کے لیے پلوں اور سڑکوں سے نظر
ہٹا کر اداروں کی مضبوطی اور قانون کی عملداری پر کچھ وقت صرف کرنا چاہیے ۔
قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری پر ہر قسم کی مصلحت کو پس پشت ڈال کر
نئی نئی اصلاحات متعارف کروانی چاہییں ورنہ ایک ایک کر کے تمام ہی شعبوں
میں صو بہ خیبر پختونخواہ بازی لے جائیگا اور جنرل الیکشن 2018 ن لیگ کے
لیے ایک ڈراونا خواب بن جائے گا ۔ |
|