گُلشن خون رنگ!

 انسان کو لطف اندوز ہونے کے لئے سیر گاہوں اور پارکوں سے زیادہ بہتر کونسی جگہ دستیاب ہے؟ گھر کے ماحول سے تھوڑا سا باہر نکل کر انسان کھلی فضا میں سانس لینا چاہتا ہے، اس سے اس کا ذہن کشادہ ہوتا اور دباؤ سے آزادی میسر آتی ہے۔ کسی دور دراز تفریحی یا سیاحتی یا پرفضا مقام پر اگر ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا تو اپنے شہر کے کسی قریبی یا بڑے پارک میں جانا نہ تو زیادہ مشکل ہے اور نہ ہی زیادہ مہنگا۔ یہی وجہ ہے کہ پارکوں، چڑیا گھروں وغیرہ پر اتوار اور جمعہ کو معمول سے زیادہ رش ہوتا ہے، بہت سے لوگ کھانا وغیرہ تیار کرکے پارکوں میں جاتے اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ پارکوں میں جانے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں میں بچوں اور خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ذہنی سکون اور تصوراتی ماحول کو دیکھ کر پیارے بچے تتلیوں کی طرح اُڈاریاں مار تے پھر رہے ہوتے ہیں، اور جب وہاں چار سُو پھول اور پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں بھی ان کے ہم رکاب ہوں تو ماحول کی خوبصورتی اور حُسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عام شہروں میں پارکوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، اور لوگ وہاں رونق افروز ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے ہاں پارکوں کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں، یہ رونا غلط بھی نہیں ہوتا، چونکہ اپنے ہاں پارک بہت کم ہیں، اس لئے جو پارک بہت اچھے ہیں وہاں رش حد سے زیادہ ہوتا ہے۔

لاہور کے گلشنِ اقبال پارک میں ہونے والے خود کش دھماکے نے ہر دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے، الفاظ نہیں ملتے، جن کی مدد سے واقعے کی مذمت کی جائے۔ جب نام ہی گلشنِ اقبال ہو، تو گلشن کو دیکھنے یا سیر کرنے تو لوگوں کا آنا بنتا ہے، اور وہ بھی چھٹی والے دن، ہزاروں لوگ وہاں گھوم پھر رہے تھے، کہ ایک دھماکے نے دھرتی کو ہلا کر رکھ دیا۔ بارود کی آگ کم ہوئی، دھواں ٹھہرا، خون اور خاک میں تڑپتی لاشوں کو ہسپتال پہنچانے کی بات شروع ہوئی، ایمرجنسی نافذ ہوگئی، ہسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے اٹ گئے۔ کوئی نامراد تباہی پھیلا گیا، وہ تو اپنے انجام کو پہنچا، سیکڑوں گھروں کو رلا گیا۔ ہسپتالوں کے اعدادو شمار کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد ستّر سے زائد ہے، اور زخمی تین سو سے زیادہ۔ کتنے پھول مرجھائے، کتنے کملائے، کتنی تتلیاں مسلی گئیں؟ پارک میں تو بڑے چھوٹے سب ہی خوش ہوتے ہیں۔ مگر بچے اور خواتین ہی زیادہ نشانے کی زد میں آئیں۔ کتنے گھر اجڑے، کتنے خاندان تباہ ہوئے، کتنے بچے یتیم اور کتنے والدین بے اولاد ہوگئے؟ ان کا حساب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ جو والدین اپنے بچے کے پاؤں میں لگنے والے کانٹے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے ، انہیں اگر اپنے بچوں کی لاش اٹھانی پڑے تو ہمت کیسے ہوتی ہے؟ اور اس پر کیا بیتتی ہے؟ کسی پر اچانک آفت آجانے پر بھی بہت پریشانی ہوتی ہے، مگر جب انسان کسی ماحول کے مزے لے رہا ہو اور ایسے میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو اس کی تکلیف یا صدمہ دو چند ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کئی سالوں سے جاری ہے، تاہم گزشتہ برس سے ’آپریشن ضربِ عضب‘ کی وجہ سے اس لہر کی شدت میں بہت حد تک کمی آچکی ہے، مگر کئی ماہ کے بعد ایک آدھ ایسا دھماکہ ہوجاتا ہے، جو نہ صرف پرانے زخموں کو تازہ کرنے کا سبب بنتا ہے، بلکہ ایسے نئے زخم بھی لگا جاتا ہے، جن کی تکلیف اور نشان زندگی بھر انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ ضربِ عضب سے قبل تو آئے روز یہ صدمہ قوم کو برداشت کرنا پڑتا تھا، تاہم اب ان میں کمی ضرور آئی ہے، مگر کبھی کبھار ہونے والے سانحات بھی کیا کم ہیں؟ سردیوں میں باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں ایسی ہی ایک واقعہ ہوا، اب یہ ایک ’’گلشن‘‘ میں ’پھولوں‘ کو تار تار کردیا گیا۔ کتنی مائیں اس میں شہید ہوگئیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے دہشت گرد مسلمان ہیں، انہیں مسلمان کہنا اسلام اور مسلمانی کی توہین ہے، مسلمان تو جان بوجھ کر کسی ذی روح جاندار کو نہیں مار سکتا، چہ جائیکہ وہ پچاسیوں لوگوں کو شہید کردے۔ جان کی حرمت پر کون بات کرسکتا ہے؟ جس نے ایک انسان کی جان لی اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔ اگر گلشن اقبال میں موجود کچھ لوگوں کو ایک مشکوک شخص دکھائی دے رہا تھا، تو اس کے بارے میں پولیس یا انتظامیہ کو اطلاع کیوں نہ کی گئی؟ ویسے بھی ایسے مقامات پر پولیس کا تعینات ہونا ضروری ہے، اگر وی آئی پیز سے کچھ سپاہی بچ رہیں تو انہیں عوام کی حفاظت پر مامور کیا جاسکتا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472251 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.