اترکھنڈ کا جعلی اور پنجاب کا حقیقی آئینی تعطل

اتراکھنڈ میں دستوری تعطل کا بہانہ بناکر مرکزی کا بینہ نے صدر راج کی سفارش کرکے جمہوریت کی پیٹھ میں ترشول گھونپ دیا۔ اس تنازع کی ابتداء ۱۸ مارچ کو ہوئی جب معاشی بل پر حزب اختلاف نے رائے شماری کا مطالبہ کیا۔اس مطالبہ کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس کے ۹(نو)ارکان بغاوت کرکے بی جے پی سے مل چکے تھے۔ کانگریس پارٹی نے آواز کی حمایت سے بل پاس کرکےایوان کااجلاس ۲۸ مارچ تک کیلئے ملتوی کردیا۔ ایوان کے صدر یعنی اسپیکرگووند سنگھ کنجوال نے ۹ باغی ارکان کو وجہ بتاو نوٹس دے کر دریافت کیا کہ کیوں نہ ان کے خلاف دل بدلو قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان کے جواب سےغیر مطمئن اسپیکر نےایوان اسمبلی کے اجلاس سے دودن قبل باغیوں کی رکنیت منسوخ کردی ۔ یہ اقدام عین دستور کے مطابق تھا ۔ گورنرنے مرکز کو یکے بعد تین خط لکھے ان میں سے کسی میں اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کی گئی تھی۔

کیا یہ سارے لوگ آئین کی خلاف ورزی کررہے تھے؟ اگر کر بھی رہے تھے تب بھی بی جے پی کو چاہئے تھا کہ ایک دن رک کروزیراعلیٰ ہریش راوت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتی ۔ وہ اگر اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے تو یہ معلوم ہوجاتا کہ اکثریت کس کے پاس ہے؟ اس کے بعد کسی اور حکومت سازی کا موقع دیا جات جب سب ناکام ہوجاتےتو صدر راج نافذ کردیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نےمزیدایک دن انتظار کیوں نہیں کیا؟ اتراکھنڈ اسمبلی میں کل ۷۰ ارکان ہیں جن میں سے ۳۶ کانگریسی اور ۲۸ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ ۳ آزاد ، ۲ بی ایس پی او ر ایک یو کے ڈی والوں نے پی ڈی ایف نام کا ایک محاذ تشکیل دے رکھا ہے جو کانگریس کا حامی ہے۔ اس طرح کا نگریس کو بی جے پی کے ۲۸ کے بالمقابل ۴۲ ارکان کی حمایت حاصل تھی ۔ اقتدار کی لالچ میں بی جے پی نے کانگریس پارٹی میں پھوٹ ڈالی اور ۹ کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔

ملک میں رائج دل بدلو مخالف قانون کے تحت باغی ارکان اسمبلی کو رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے مگر اس کے اندر ایک استثناء یہ ہے کہ اگر کسی جماعت کے ایک تہائی یا اس سے زیادہ ا رکان بغاوت کرکے اپنا علٰحیدہ گروہ تشکیل دے دیں تو وہ اس کے اطلاق سے محفوظ رہتے ہیں ۔ کانگریس کے ارکان کی تعداد چونکہ ۳۶ تھی اس لئے رکنیت بچانے کیلئے کم ازکم ۱۲ ارکان کی بغاوت لازمی تھی ۔ افسوس کہ وزیرخزانہ ارون جیٹلی ایک ماہر وکیل ہونے کے باوجود نہ قانون جانتے ہیں اور نہ حساب یا دونوں کی جانکاری رکھنے کے باوجود آنکھ موند کر دودھ پینے کے قائل ہیں لیکن جب سر پر عدالتی ڈنڈا پڑے گا تو ان کے چاروں طبق روشن ہو جائیں گے۔جیٹلی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ۱۸ فروری کو معیشت کے بل کا پاس ہونا غیرآئینی تھا اس لئے کہ ریاستی سرکار کیلئے استعفیٰ دینا لازمی ہوگیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ہریش راوت اگر استعفی ٰ بھی دے دیتے تو کیا بی جے پی ان باغیوں کی مدد سے اکثریت کا دعویٰ کرنے میں کیسےحق بجانب تھی جو آئین کی رو سےاپنی رکنیت گنوا بیٹھے تھے؟

حقیقت یہی ہے کہ اتراکھنڈ میں آئینی بحران کا راگ الاپنے والے خود دستور کو پامال کررہے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ آئین کا اطلاق ان لوگوں پر ہو جو دل بدلو قانون کی زد میں آتے ہیں اس لئے کہ وہ بی جے پی کے ہمنوا ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی خود کو اور اپنے حامی سابق کانگریسیوں کو دستور سے بالاتر سمجھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کانگریس کے ارکان کو خریدنے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن پی ڈی ایف کی دیوار میں دراڑ نہیں ڈال سکی ۔ ۲۸ فروری کو صورتحال یہ تھی کہ ۹ ارکان کی برخواستگی کے بعد ممبران اسمبلی کی جملہ تعداد ۶۱ ہوگئی تھی ۔ ان میں سے ۲۷ کانگریس کے اور ۶ پی ڈی ایف کے ملا کر بی جے پی کے ۲۸ کے مقابلےواضح اکثریت میں تھے۔ اس صورتحال سے خوفزدہ وزیراعظم اپنا آسام کا انتخابی دورہ ادھورا چھوڑ کر بھاگے بھاگے دہلی آئے اور اسمبلی کے اندرآمنے سامنے مقابلہ کرنے کے بجائےپیچھے سے وار کردیا۔

اروناچل پردیش میں کانگریس کے باغی ارکان کی تعداد ایک تہائی سے زیادہ تھی اس لئےبی جے پی کو کانگریس کا تختہ پلٹنے میں کامیابی نصیب ہوگئی لیکن اتراکھنڈ میں وہ ایسا نہ کرسکی۔ اس لئے پارٹی کے سکریٹری وجئے ورگیہ نے پہلے تو پولس کمشنر کو دھمکی دی کہ وہ سوچ لیں اگر کل کو حکومت بدل گئی تو ان کاکیا ہوگا؟حالانکہ انتظامیہ سے اس لہجے میں گفتگو کرنا کسی مہذب جماعت کے رہنما کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے بعد اسپیکر کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے ۲۴ گھنٹے کے اندر اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا؟ حالانکہ اس مطالبے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ بعدازیں ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ باغی ارکان اسمبلی کو لے کر دہلی لاکر نہ صرف یرغمال بنائے رکھا بلکہ ان کے ساتھ بلا جواز صدارتی محل کی یاترا بھی کی ۔

وجئے ورگیہ کو یہ ساری ڈرامہ بازی کرنے کے بجائے کانگریس کے ۳مزید ارکان کو خریدلینا چاہئے تھا تاکہ ان پر دل بدلو قانون کا اطلاق نہ ہوتا لیکن ان کی حالتو یہ تھا جیسےکسی ٹیم کو آخری اوور میں ۱۲ رن بنانے ہوں اور وہ ۹ رن بنا کر ڈھیر ہوجائے۔ ویسے وجئے ورگیہ کیلئےاپنی پہلی نا کامی کے بعد ایک اور موقع تھا۔ چونکہ ۹ ارکان کی برخواستگی کےبعدکانگریسی ارکان اسمبلی کی تعداد گھٹ کر ۲۷ ہوگئی تھی ایسے میں اگر بی جے پی والے پی ڈی ایف میں پھوٹ ڈال کران کے کم از کم ۳ ارکان کو اپنے ساتھ کرلیتےتو ۶۱ لوگوں کی اسمبلی میں بی جے پی اور اس کے ہمنوا ۳۱ ہوجاتےاور وہ اکثریت میں آجاتی لیکن یہ بھی نہ ہوسکا۔ پی ڈی ایف متحد رہی اور بی جے پی ۲۸ پر ٹھٹھر کررہ گئی ۔کانگریس نے آخری گیند پرچھکا لگاکر اپنا اسکور ۳۳ پر پہنچا دیا ۔
جب یہ ناکامی بی جے پی کے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔ اس سے پہلے کہ ریفری مقابلے کےنتیجے کا اعلان کرتابی جے پی کےغنڈے بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا کرمیدان میں کود گئے اور پچ کو کھوددیا۔ اس کے بعد کمنٹری بکس سے اعلان ہوگیا کہ آر ایس ایس نے نہیں بلکہ آئی ایس ایس نے یہ دھاندلی کی ہے اس لئے میچ منسوخ کیا جاتا ہے۔حالیہ ٹی ۲۰ ٹورنامنٹ میں وراٹ کوہلی کا کھیل دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان یہ ٹورنامنٹ جیت جائیگا لیکن سیاسی بساط پر نریندر مودی کا مایوس کن کاکردگی یقیناً بی جے پی کو پہلے ہی راونڈ میں باہر کردے گی۔ اس لئے کہ بقول صدف برنی ؎
خدا نے اس کو ذرا سا عروج کیا بخشا
وہ شخص دیکھئے اپنا طواف کرنے لگا

بی جے پی اگر اپنے اولین مقصد میں کامیاب ہوجاتی تووہ ان کانگریسیوں کو جن کے خلاف اس نے انتخاب لڑا تھا اہم وزارتوں سے نواز کر اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کردیتی۔ اس کے بعد وہ سارے دیش دروہی ، بدعنوان اور نااہل کانگریسی سچے دیش بھکت اور دودھ کے دھلے شمار کئے جاتے ۔ ہردو محاذ پر ناکامی کے بعد اس نےیہ غیر جمہوی بزدلانہ حرکت تو کردی لیکن معاملہ اب عدالت میں چلا گیا ہے۔ ؁۱۹۸۹ کے بومئی کیس میں عدالت عالیہ کا واضح ہدایت موجود ہے کہ اکثریت کا فیصلہ گورنر ہاوس یا صدارتی محل میں نہیں بلکہ ایوانِ اسمبلی ہوگا۔ اس فیصلے کی رو سے بی جے پی کو عدالت میں منہ کی کھانی پڑے گی لیکن آئے دن عدالت میں رسوا ہونے والی جماعت کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

مرکزی حکومت کے اس متنازع فیصلے سے قبل ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں وزیراعلیٰ ہریش راوت اپنے ہی سابقہ ارکان اسمبلی کو ایک صحافی کے توسط سے رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس ویڈیو کو بی جے پی والے بہت بڑا اخلاقی مسئلہ بنا کر پیش کررہے ہیں حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ قومی و ریاستی سطح کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں سر سے پاوں تک بدعنوانی کے دلدل میں دھنسی ہوئی ہیں ۔ کانگریسی بغاوت کا اولین محرک دولت و ثروت ہی ہے اور پھر ویڈیو کا کیا؟ جب سمرتی ایرانی جے این یو کی ویڈیو میں کشمیری مظاہرے کی آواز ڈال سکتی ہیں تو وجئے ورگیہ کیا نہیں کرسکتے؟ کانگریس بھی دیوی لال کے زمانے میں ہریانہ کے اندر اور این ٹی راماراو کے دور میں آندھرا پردیش کے اندرایسی گھناونانی سازش کرچکی ہے لیکن اس کے بعد جب انتخابات ہوئے تو عوام نے اسے سبق سکھا دیا۔ بی جے پی کو اگر یہ غلط فہمی ہے کہ ارونا چل پردیش اور اتراکھنڈ میں چور دروازے سےہاتھ آنے والایہ اقتداردیرپا ثابت ہوگا تو جلد ہی اس کی یہ خوش فہمی دور ہوجائیگی اس لئے کہ بقول رمزی شمسی؎
آپ کو ڈبودیگی آپ ہی کی خوش فہمی
آدمی کی دشمن ہے آدمی کی خوش فہمی

اس جعلی آئینی بحران کے برعکس پنجاب کے اندر برپا ہونے والا حقیقی آئینی تعطل بھی دیکھیں۔ ۱۸ فروری کوپنجاب اسمبلی کے اندر اکالی دل ، کانگریس اور بی جے پی تینوں نے مل کر ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی جس کے مطابق ’’ستلج جمنا نہر کو کسی بھی قیمت پر کسی بھی حال میں بننے نہیں دیا جائیگا۔ کسی بھی جانب سے کوئی بھی ایسا فیصلہ قبول نہیں کیا جائیگا جو پنجاب کی عوام کو ان کے جائز حق سے محروم کرے‘‘۔ اس قراداد میں کسی سے مراد سپریم کورٹ ہے اور کوئی فیصلہ یعنی ۳۰ مارچ تک ستلج جمنا نہر کیلئے کسانوں سے تحویل میں لی گئی زمین کو واپس نہ کرنے کی عدالتِ عالیہ کی ہدایت ہے۔

حکومت پنجاب نےاس بابت محض زبانی جمع خرچ پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی عملاً خلاف ورزی کرتے ہوئے۴ ہزار ایکڑ زمین کسانوں کو لوٹا دی اورسیاستدانوں نے نہر کو بند کرنے کیلئے اس میں کیچڑ ڈالنے کا کام شروع کردیا۔ انتظامیہ اور پولس اس قانون کی خلاف ورزی کو چپ سادھے دیکھتے رہے اور مرکزی حکومت آنکھ موند کر سوتی رہی۔ اس طرح گویا ایک ریاست کی اسمبلی کے سارے ارکان نے سپریم کورٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ ذرائع ابلاغ نےاس مسئلہ پر مباحثہ کرنے کے بجائے قوم کو’’بھارت ماتا کی جئے ‘‘میں الجھائے رکھا جبکہ یہ حقیقی اور سنگین آئینی بحران ملک کے دفاقی ڈھانچے کیلئے سمِ قاتل ہے۔

پنجاب اسمبلی کی قراداد کے مطابق ستلج جمنا نہر کی ضرورت نہ پہلے کبھی تھی اور نہ اب ہے جبکہ دسیوں سال پرانے معاہدے کے تحت اس کی تعمیر ہوئی ہے۔ اس نہرکا ۸۵ فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور اس پر ۷۰۰ کروڈ روپئے خرچ ہوچکے ہیں جس کا بڑا حصہ ہریانہ نے ادا کیا ہے۔ ہریانہ اور پنجاب کی اس مہابھارت میں دونوں جانب ایک ہی دھرتراشٹر کے افرادِ خانہ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں۔ پنجاب کی حکومت میں بی جے پی شامل ہے اور ہریانہ میں تو بی جے پی کی اپنی حکومت ہے۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ مہاجر پنجابی ہیں اور جاٹوں کے احتجاج نے ان کی نیند اڑا رکھی لیکن پنجاب سے آنے والی اس مصیبت نے تو انہیں بستر مرگ پر پہنچا دیا۔ اس لئے حالت سکرات میں وہ صرف یہ کہہ سکے کہ پنجاب اسمبلی کی یہ قرارداد عدالت عالیہ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے اور ہم اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گے۔

سپریم کورٹ تو پہلے ہی ہریانہ کے حق میں فیصلہ کرچکا ہے۔ انہیں تو چاہئے تھا اس پر عملدرآمد کیلئے مرکزی حکومت کے پاس جاتے لیکن کھتر کو پتہ ہے کہ مودی جی میں وہ دم خم نہیں ہے کہ پنجاب کی حکومت کو جھکا سکیں اس لئے دوبارہ بلاوجہ سپریم کورٹ میں جاکر ٹائم پاس کرنا چاہتے ہیں ۔ جولوگ سپریم کورٹ کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ان کے خلاف عدالت عالیہ کے دروازے پر پھر سے دستک دینا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ بی جے پی والے اگر اس طرح عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں تو بہت جلد انہیں دال آٹے کا بھاو معلوم ہو جائیگا۔ منوہر لال کے مقابلے مرکزی وزیر بریندر سنگھ نے پنجاب اسمبلی کےفیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پڑوسی ریاست کو ملک کے دفاقی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔

سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ نے کہا کہ پنجاب کی اسمبلی نے چونکہ دفاقی ڈھانچے کو خطرے میں ڈال دیا ہے اس لئے اس کے خلاف ہریانہ کے سارے ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی کو صدر مملکت کے سامنےاحتجاجاًاستعفیٰ دے دینا چاہئے۔ انہوں نےبجا طور پر دونوں ریاستوں میں صدرراج نافذ کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ہریانہ میں بی جے پی رہنما مدن موہن متل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ چونکہ پنجاب اسمبلی کے ارکان نے سارے قوانین و ضابطوں کی خلاف ورزی کردی ہے اس لئے اب مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کی تنظیم نو کی جائے اوران کو دوبارہ ضم کردیا جائے۔

ہریانہ کی حزب اختلاف انڈین نیشنل لوک دل کے اکالی دل سے قریب تعلقات رہے ہیں لیکن اس نے بھی سارے رشتے منقطع کر لئےہیں ۔ لوک دل کے ۱۰ ارکان اسمبلی نے تو پنجاب اسمبلی پر نعرے لگاتے ہوئے ہلہ بھی بول دیا وہ تو خیر پولس درمیان میں آگئی ورنہ ہاتھا پائی ہوجاتی۔ اس کے جواب میں پنجاب کے دس کانگریسی ارکان اسمبلی ہریانہ اسمبلی میں گھس گئے اور وہاں نعرے لگائے کہ ایک قطرہ پانی ہریانہ کو نہیں دیں گے۔ اس ہنگامے میں دیش بھکت زعفرانی شیر دم دبائے خاموش تماشائی بنے رہے۔اڈوانی جی نے کسی زمانے میں اپنے مخالفین کیلئے جعلی(سیوڈو) سیکولرزم کی اصطلاح ایجاد کی تھی اب وقت آگیا ہے کہ بی جے پی کے خلاف جعلی نیشلزم کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ اتراکھنڈ میں ایک نقلی آئینی بحران کی جانب تو ساری قوم متوجہ ہےلیکن اسی د وران متصل پنجاب اور ہریانہ میں ایک اصلی آئینی طوفان کی جانب کوئی پھٹک کر نہیں دیکھتا۔ یہی زرخرید ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ وہ غیر اہم کو اہم اور اہم کو غیر اہم بنا دیتا ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2136 Articles with 1568955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.