مہاراشٹر کے مقامی بلدیاتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا
پارٹی (بی جے پی) کو کراری ہار اور کانگریس کو بڑی کامیابی ملی ہے۔
مہاراشٹر نگر پنچایت انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کو یک طرفہ شکست دی
ہے۔ مہاراشٹر کے یہ نتائج ریاست کے اقتدار پر قابض بی جے پی اور اس کے وزیر
اعلی دیویندر فڑنویس کے لئے بڑا دھچکا ہیں۔نتائج کے مطابق، مقامی بلدیاتی
انتخابات میں بی جے پی 24 سیٹوں کے ساتھ چوتھے مقام پر پہنچ گئی ہے۔ اس کی
اتحادی پارٹی شیوسینا کو 55 سیٹیں مل چکی ہیں۔ این سی پی 58 سیٹوں کے ساتھ
دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ کانگریس کو اب تک 289 میں سے 107 سیٹوں پر جیت مل
چکی ہے۔وزیر داخلہ رام شندے اور وزیر خزانہ سدھیر منگٹ وار کے انتخابی حلقے
میں کانگریس اور این سی پی کو بڑی برتری ملی ہے۔ تالا اور پولادپور میں
شیوسینا کو اکثریت ملی ہے۔ ممبئی اور احمد نگر مہانگرپالیکا کی ایک ایک
نشست شیوسینا کو ملی ہے۔ ہندوستان کے عوام اب وہ نہیں رہے جو جذباتیت اور
کسی پارٹی سے ذاتی لگاؤ کی بنا پر ووٹ کیا کرتے تھے ۔یا پھر مان مریادا میں
آکر اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کر لیا کرتے تھے ۔یا پھر خاندانی دہائی دے کر
یا پھرکسی خاص فرقے یا مذہب کی بنیاد پر ووٹ دے دیا کرتے تھے ۔اب ماضی کے
بر عکس حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں ۔چونکہ مان مریادا خاندانی اصولوں سے
اٹھ کر آج کا نوجوان طبقہ یا پھر عمر رسیدہ طبقہ پریکٹیکل اور اصولی بنیاد
پر فیصلہ کرتا ہے ۔وہ بات اب بھولی بسری ہو گئی جب سچائی کو آنکھوں سے دیکھ
کر بھی لوگ فیصلہ وہی لیتے تھے جو انکے بڑے یا خاندانی بنیاد پر یا پھر
مذہب کی بنیاد پر لئے جاتے تھے اور بر ملا اس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ کیا
کریں مروت میں مجھے ایسا کرنا پڑ رہا ہے یا پھر یہ بھی کہتے تھے کہ نا چاہ
کر بھی فلاں پارٹی کو ووٹ دے دیا چونکہ معاملہ مریادا اور اصول کی تھی ۔لیکن
آج کا ہر ہندوستان چاہے وہ کسی عمر میں ہو تمام روایات کو توڑنے کیلئے تیار
ہے اور ووٹ اسی پارٹی کو دئے جاتے ہیں جس کے اندر تبدیلی کا مادہ ہو جس کے
اندر نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کامنصوبہ ہو جس کے اندر ملک میں امن و
آمان برقرار رکھنے کی صلاحیت ہو ،جس کے اندر مساوات اور امن و آشتی کو جگہ
دینے کی جرت ہو ،اس لئے اب موجودہ ہندوستان کے تناظر میں کوئی پارٹی یہ
دعوی ہر گز نہیں کر سکتی ہے کہ فلاں خطہ یا فلاں طبقہ اس کا اپنا ووٹ بینک
ہے کیونکہ اسی ہندوستان کی راجدھانی نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ جب ترقی اور
مساوات کو لیکر مودی جی نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا،اور لوگوں کو میک ان
انڈیا کا خواب دیکھانے کے ساتھ ساتھ ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں پندرہ
پندرہ لاکھ روپے دینے کی بات کی ۔اور یہ بھی کہا کہ ہر ہندوستان اب غریبی
سے جنگ لڑے گا آپس میں لڑائی نہیں کرے گا تو ملک کی سیدھی سادھی عوام نے
سوچا ہو سکتا ہے یہ کوئی بڑے انقلاب کی آمد ہو اور ملک کے ساتھ ساتھ عوام
کو فائدہ حاصل ہو اس لئے لوک سبھا انتخاب میں نریندر مودی کی قیادت میں بی
جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔لیکن جب چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا
اور مودی جی کی بات محض ایک چھلاوا ثابت ہوئی تو یہی عوام بطور خاص دہلی
میں جو سات لوک سبھا کی سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں جاتی ہے اور جب اسمبلی
انتخاب ہوتے ہیں تو پوری کے پوری ستر سیٹ میں ۶۷سیٹ عام آدمی پارٹی کی
جھولی میں عوام ڈال دیتے ہیں ۔اور پھر جب بہار اسمبلی کا انتخاب ہوتا ہے تو
وہاں بھی یہی ہوتا ہے گویا اب کوئی بھی پارٹی یہ سمجھے کہ فلاں فلاں خطہ یا
فلاں فلاں طبقہ ہماری ووٹ بینک ہے یہ ان کا خواب تھا جو اب ٹو ٹ چکا ہے۔اب
حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں اگر یہاں یہ قانون ہوتا کہ پانچ سال سے پہلے
ہی عوام جس کو چاہے رفرنڈم کے ذریعے کسی کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی تو آج
بی جے پی قیادت کے ساتھ وہی برتاؤ کرتی جو بہار اور دہلی میں کیا ہے ۔جو
ممبئی کے بلدیاتی الیکشن میں کیا ہے ۔اس لئے اگر بی جے پی کو اپنی ساکھ
بچانی ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنی پارٹی کے ممبران کی زبان پر لگام لگائیں
جو الٹے سیدھے بیانات دیتے ہیں جس سے پارٹی کی شبیہ خراب ہوتی ہے ۔اور
فلاحی و عوامی فیصلے کریں جس سے عام آدمی متاثر ہوں ۔ترقی کی رفتار کو عام
آدمی سے شروع کریں نہ کریں اوپر سے یہی ایک راستہ ہے کسی بھی پارٹی کو
اقتدار حاصل کرنے اور حکومت چلانے کی نہیں تو اب کوئی ہندوستانی سیاسی
پارٹیوں کے بہلاوے میں نہیں آنے والی ہے وہ وہی فیصلہ کرے گی جو آج بی جے
پی کے ساتھ کر رہی ہے ۔اب بھی وقت بہت ہے عوامی پالیسی کے ذریعے عوام کو
فائدہ پہنچا کر حکومت کرنا سیکھیں ۔وہ وقت چلا گیا جب ایم ایل اے اور ایم
پی کے نام پر لوگ بڑی بڑی قربانیا ں دینے کو تیار ہو جاتے تھے ہر طرف سے
نیتا جی نیتا جی کے نعرے لگتے تھے اب تو وہ وقت آچکا ہے کہ لوگ سرعام حساب
مانگیں گے سرعام نیتاؤں سے مواخذہ کریں گے اور کہیں کہ بتاؤ تم نے اب تک
عوام کے لئے کیا کیا یا پھر فلاں فلاں پروجیکٹ کا کیا ہوا اس میں کتنا پیسہ
لگا اور کتنا خرچ ہوا ۔یہ سب حسابات عوام مانگنے لگے ہیں اب کوئی پارٹی اور
لیڈر عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ہی وہ
سیاسی پارٹیاں جو ہندوستان کی سیاست میں حصہ داری یا اقتدار چاہتی ہیں
انہیں عوامی فیصلہ لینے ہونگے اور ایسے فیصلے اور ایسے اقدام کی ضرورت ہے
جس سے ہر ہندوستانی براہ راست متاثر ہو ۔جس طر ح کچھ پارٹیاں فیصلے لینے کا
کام شروع کر چکی ہیں اور انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے
۔ |