پولیس کی معصومیت یا انسانی ہمدردی میں قانون ہوا ہوگیا؟

قوم کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے نام پر اداروں کی پرائیوٹائزیشن کی حکومتی پالیسی دیکھ کر یقینا حکمرانوں اور عام افراد کا دل چاہتا ہے ہوگا کہ اگر حکومت ، پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو ہی ٹھیکے پر دیدے تو اپنے اور لوگوں کے آدھے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ حکمران ، پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو صرف اپنی مرضی کے مطابق ہی چلانا چاہتے ہیں ۔

جب حکمرانوں نے سیاسی بنیادوں پر یا اپنی مرضی سے ان اداروں کو چلانا شروع کیا تو پھر معاشرے سے برائی ختم ہونے کے بجائے بڑھ جایا کرتی ہے ۔اس تحریر میں بالا لائنز صرف حوالے کے لیے لکھی جارہی ہے ۔ جس کا مقصد کراچی میں پولیس کی جانب سے روا رکھے جانے والے رویے والے یا طریقہ کار کو روشناس کرانا ہے۔اس مقصد کے لیے چند روزقبل کراچی کے نارتھ ناظم آباد میں واقع اسکول سمیت تین مقامات پر ہونے والے کریکر دھماکوں سے وقتی طور پر شہر کی فضاء کشیدہ ہوگئی تھی کے واقعہ کا کالم کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔

اسکول میں ہونے والے دھماکے کی وجہ سے شہری زیادہ پریشان ہوگئے تھے کیونکہ سب کو بچوں کی فکر ہوتی ہے ۔ اس دھماکے کے ساتھ جو دھماکے کا واقعہ ہوا تھا اس کے بارے میں پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے یقینا تحقیقات کررہے ہونگے ۔ شہریوں کی اس خوش فہمی کے دوران ہی خبر آئی کہ نارتھ ناظم آباد میں ہونے والا دہماکا کریکر کا نہیں بلکہ عام پٹاخے بم کا تھا۔خبر کے مطابق نارتھ ناظم آباد بلاک اے میں واقع دی ایجوکیٹر اسکول میں دھماکے کی ابتدائی تحقیقات سے پولیس کو پتا چلاتھا کہ اس واقعے میں اسکول کا طالبعلم عمیر زخمی ہوگیا تھا ۔متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سب انسپکٹر شبیر حسین نے اخبار کو بتایا کہ عمیر کے زخمی ہونے سے پولیس کو شک ہوگیا تھا کہ یہ حملہ نہیں بلکہ پٹاخہ بم کا دھماکا ہے ۔ مزید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ دھماکا اسکول کے طالبعلم اسامہ اور اس کے بھائی ضرار نے’’ شرارتاََ‘‘کیا تھا ۔دونوں نے بیان دیا کہ اسکول انتظامیہ نے فیس جمع نہ کرنے پر مجھے اور میرے بھائی کو امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے’’ شرارتاََ ‘‘شادی بیاہ میں پھوڑے جانے والے پٹاخے اسکول میں پھوڑ دیے ۔ دونوں طالعبلموں کے اس بیان کے بعد پولیس نے مذکورہ دونوں طالبعلموں سمیت حراست میں لیے گئے پانچوں طالبعلموں کو ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کے سامنے پیش کیا جنہوں نے پانچوں کو معاف کردیا اور رہائی کا حکم دیا۔اس مقصد کے لیے دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کی گئی ایف آئی آر کو سی کلاس کردیا گیا۔

میں سوچ رہا تھا کہ اسکول کے اندر دھماکے کا واقعہ ہونا اور اس کی ایف آئی آر دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کرنا اور پھر اس ایف آئی آر کو سی کلاس کردینا ، کیا یہ سب کچھ پولیس کا صوابدیدی اختیار ہے ؟

کیا ایک ڈی آئی جی کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایف آئی آر کو خود ہی سی کلاس میں تبدیل کرسکتا یا کرواسکتاہے ؟

میرے ذہن میں یہ سوال بھی اچل رہا ہے کہ اس واقعہ کا مقدمہ درج کرنے سے قبل کیا پولیس نے یہ چیک نہیں کیا تھا کہ یہ عام پٹاخہ ہے یا کوئی خطرناک آتشگیر مادہ ؟ یا ہماری پولیس دھماکا خیز مواد کو جانچنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی ۔؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا پولیس اس واقعہ میں ملوث بچوں کے بارے میں معلومات کرچکی تھی کہ انہیں اس کارروائی کے لیے کسی نے ورغلایا نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی محض ان کو امتحان میں نہ بٹھانے پر یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے ؟

کیا طالعبلموں کا یہ قدم خوف و ہراس پھیلانے کا باعث نہیں تھا؟

اگر خوف و ہراس پھیلانے کا باعث نہیں تھا تو انہوں نے خود یہ قدم کیوں اٹھایا تھا؟

کیا اسکول انتظامیہ نے بچوں کے اس اقدام کو بھی ’’ شرارت ‘‘ قرار دیا ہے ؟

کیا پولیس افسر یہ سمجھتے نہیں کہ جو بچے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ ملنے پر ایسا خوف و ہراس پیدا کرسکتے ہیں تو آئندہ کیا کچھ نہیں کرسکتے ؟

سب سے اہم بات یہی ہے کہ پولیس نے بچوں کو قانونی کارروائی سے مثتثنیٰ کرکے کہیں ان کی حوصلہ افزائی تو نہیں کی ؟

کوئی اور شہر یا کسی اور مقام پر ایسا واقعہ ہوتا تو ممکن ہے پولیس کی اس کارروائی پر بحث کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔لیکن جس شہر میں کچھ عرصے قبل تک اسکولوں میں اس طرح کے واقعات اور سڑکوں اور گلیوں میں روزانہ دس دس بارہ افراد نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہوں ، وہاں اسکول میں دھماکے کے واقعے کو معمولی اور شرارتاََ قرارد دیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نارتھ ناظم آباد کا اسکول پبلک مقام میں آتا ہے ، یہاں رونماء ہونے والا واقعہ اس قدر سادہ نہیں لگتا جس طرح پولیس پیش کررہی ہے ۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ واقعہ میں سامنے لائے جانے والے معصوم ملزمان خود ہی جرم کے اصل ذمہ دار ہیں بلکہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس طرح کی تفتیش کی اگر خدانخواستہ روایت چل پڑی تو ، خدشات ہیں کہ خوف وہراس اور دھمکیاں دینے والے اصل جرائم پیشہ کم از کم ہماری پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکیں گے ۔

اسکول واقعہ میں اسکول انتظامیہ اور پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کا مؤقف بھی سامنے آنا چاہیے تھا لیکن ان کی طرف سے خاموشی پر بھی حیرت ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر طالبعلم اس طرح کے اقدامات کرنے کی طرف مائل ہے تو یقینا اس کی تربیت میں کہیں خامی برتی جارہی ہے ۔میرا خیال ہے کہ اس واقعہ کی دوبارہ قانونی تحقیقات ہونی چاہیے ورنہ یہ واقعہ اور اس کے بعد نکلنے والے ’’ آسان نتائج ‘‘ سے ملک دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔جس کی پوری ذمہ داری پولیس پر عائد ہوگی۔

اگر اس طرح کا واقعہ کسی اور ملک میں یا اسی شہر میں کسی بااثر اسکول سسٹم میں رونما ہوتا تو یقینا پولیس اس آسانی سے تفتیش کو مکمل کرنے کے بعد ختم نہیں کرسکتی تھی ۔شبہ ہوتا ہے کہ پولیس نے اس واقعہ میں اپنے اختیارات کو معروف اصولوں کے سامنے خاطر میں نہیں لایا۔پولیس کا یہ اقدام کسی بھی لحاظ سے قانون کی حکمرانی کے مترادف نہیں بلکہ قانون کو نیچے دکھانے کے لیے ہوسکتا ہے۔

حکمرانوں کو چاہیے کہ انتہائی باریک بینی سے اور معاشرے کی بہتری کی نیت سے اس واقعہ کی جانچ پڑتال کی جائے ۔ممکن ہے راقم خود اس حوالے غلط فہمی کا شکار ہو مگر جو اطلاعات سامنے آئیں اس کے مطابق ہی واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ اچھے معاشرے کی تعمیر کے لیے ہر چھوٹی بات کو بڑے تناظر میں دیکھنا ہے متعلقہ اداروں کا کام ہے ۔ مگر یہاں تو الٹا ہورہا ہے۔ جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کرانے والی پولیس اور دیگر ادارے لاقانونیت کرنے کے لیے اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔

Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165959 views I'm Journalist. .. View More