قدرت نے ہمارے ملک کوبے پناہ وسائل سے
نوازا ہے جن میں قدرتی وسائل سرفہرست ہیں،ان کو بروئے کار لا کرنہ صرف وسیع
زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے،ہوٹل انڈسٹری کو فروغ اور بیروزگاری کے خاتمے
میں مدد لی جا سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ملک و قوم کا امیج بھی بہتر بنایا
جا سکتا ہے جوہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ابتری کا شکار ہے
اور عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت کو داغدار کئے ہوئے ہے،ملکی سیاحت پرنظر
دوڑائی جائے تو خیبرپختونخوا اور بالخصوص سوات میں ایسے مقامات موجود ہیں
جن تک رسائی ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے اورجو علاقے سیاحوں کی پہنچ میں
ہیں وہاں سہولیات عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں جس کی وجہ سے اندرون و
بیرون ملک کے سیاح یہاں آنے سے کتراتے ہیں،سیاحت کے فروغ میں بڑی رکاوٹ
علاقے کی مخدوش صورتحال ہے آئے روز بدامنی کے واقعات اوردہشتگردی کی وجہ سے
سوات کا علاقہ امن کے حوالے سے سیاحوں کا اعتماد کھو چکا ہے جسے بحال کرنے
کیلئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر انقلابی اقدامات کرنے ہونگے،سیدوشریف
ایئرپورٹ جو کبھی فعال ہوا کرتا تھا عرصہ سے ویران پڑا ہے اور ایئرپورٹ میں
متعین عملہ دیگر ہوائی اڈوں کو منتقل کرنے کے بعداسے بے یارومددگار چھوڑ
دیا گیا ہے، سابقہ ادوار میں کئی بار اس ایئر پورٹ کو چالو کرنے کی کوششیں
کی گئیں تاہم بے امنی کے باعث یہ کارگر ثابت نہ ہو سکیں،موجودہ دور حکومت
میں چونکہ امن و امان کی صورتحال نسبتا بہتر ہے اور حلقے سے منتخب ایم این
اے کا تعلق بھی خوش قسمتی سے ایئر پورٹ کے نواحی علاقے سے ہے اس لئے انہیں
اس مسئلے کے حل کیلئے اسمبلی فلور پر بھرپور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنی
چاہئے اس کے علاوہ لنڈاکی سے کالام تک روڈ جو عرصہ دراز سے خستہ حالی کا
شکار ہے اس کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں علاوہ ازیں کالام کا
مہوڈھنڈ روڈ بھی بہتر بنا کر سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے خاص کرمہوڈھنڈ
کے سیاحتی مقام کو بلاشبہ سیاحوں کی جنت بنا کر علاقے کی معاشی انقلاب برپا
کیا جا سکتا ہے، سوات جو کسی دور میں سلک انڈسٹری کا مرکز تصور کیا
جاتاتھاگردش زمانہ کے ساتھ یہ انڈسٹری تباہ ہو کر مشینری ملک کے دیگر
علاقوں کو منتقل کر دی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں مقامی افراد
بیروزگارہو گئے ہیں بلکہ اس سے دہشتگردی اور دیگر جرائم کو شہہ ملی،ریاست
سوات کے دور میں مینگورہ، سیدوشریف، مرغزار،میاندم، مالم جبہ، مدین، بحرین،
کالام، مٹہ اور اسلام پور کو سیاحت کے لحاظ سے خاصی اہمیت حاصل تھی اور
سیاح یہاں آئے بنا نہیں رہ سکتے تھے، سیاحوں کی آمد کی وجہ سے ان علاقوں کی
معاشی حالت بھی دیدنی تھی تاہم1969ء میں ریاست سوات کا پاکستان سے ادغام
سوات کیلئے اچھا شگون ثابت نہیں ہوا اورمذکورہ بالا علاقوں کوتسلسل سے نظر
انداز کرنے کی وجہ سے یہ علاقے سیاحوں کی نظر سے اوجھل ہوتے گئے نتیجتاً آج
گنتی کے چند سیاح سوات کا رخ اپنے رسک پر کرتے ہیں جو نہ صرف تشویشناک امر
ہے بلکہ حکمرانوں کیلئے فکریہ ہے کیونکہ جہاں دنیا کے ممالک سیاحت سے اربوں
کماتے ہیں وہاں ہم اپنے سیاحتی علاقوں میں بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں
کر سکے۔ریاست سوات کے دور میں مختلف عالمی لیڈر بھی یہاں کے جمالیاتی حسن
کوتعریف و داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اور اسے ایشیاء کے سویٹزر لینڈ کاخطاب
دیاگیا،ماضی میں جن شخصیات نے سوات کا دورہ کیا ان میں ملکہ برطانیہ اور
شہزادہ فلپ قابل ذکر ہیں جنہوں نے اس وقت ریاست سوات کے گرمائی دارالخلافے
مرغزار میں واقع وائٹ پیلس میں قیام کیاتھااوروہ بھی سوات کے قدرتی حسن سے
متاثر ہوئے تھے اس کے علاوہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان جن کے ریاست سوات کے
سابق حکمران میاں گل عبدالحق جہانزیب کے ساتھ خاندانی مراسم تھے وہ بھی
وقتاً فوقتاً آتے رہے اورسوات کے حسن سے محظوظ ہوتے رہے،سوات میں سیاحت کو
فروغ کیلئے پاک فوج کے حالیہ اقدامات امید کی کرن ہیں جن کی توقع عرصہ دراز
سے عوام اپنے منتخب نمائندوں سے کر رہے تھے لیکن آخر کار پاک فوج ہی نے
سیاحت کے حوالے سے ان اقدامات میں پہل کی اورمختلف سرگرمیوں کا انعقاد کر
کے عوامی نمائندوں کیلئے مستقبل کے اقدامات و ترجیحات کا تعین کر دیاخصوصا
سوات فیسٹیول،کالام فیسٹیول،مالم جبہ سکی ٹورنامنٹ اور ان جیسی دیگر
سرگرمیوں سے سیاح سوات کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور ان کی توجہ برقرار
رکھنے کیلئے حکومت اور مقامی نمائندوں کو اقدامات کرنے ہونگے اور مذکورہ
بالا فیسٹیولز اور ٹورنامنٹ کا انعقاد کر کے اس تسلسل کو آگے بڑھانا
ہوگاسوات میں سیاحت کے فروغ دینے کیلئے اقدامات کے حوالے سے سوات کے علاقہ
مٹہ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے منتخب ایم پی اے وخیبر پختونخو ا کے
وزیر محمود خان کا کہنا ہے کہ ملک کے80فی صد سے زائدقدرتی وسیاحتی مقامات
ہمارے صوبہ کی حدودمیں واقع ہیں اور ان مقامات کو عالمی معیار کی سیاحتی
سہولیات سے آراستہ کر کے صوبہ کی معیشت میں سیاحت کے حصہ کو بڑھائیں گے
کیونکہ سیاحت کو ترقی دے کرکسی بھی علاقے کی معاشی حالت کو بہتر بنایاجا
سکتا ہے،صوبائی وزیر نے مزیدکہا کہ صو بہ کے مختلف خطوں بشمول سوات کے
معدنی ،آبی اور سیاحتی وسائل سے بھر پور استفادہ کر کے صوبہ کے وسائل میں
اضافہ کیا جائیگا ،شمالی علاقہ جات کے آبی وسائل اور پہاڑی چوٹیاں سیاحوں
کے لیے بہت پرکشش ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان وسائل کو آلودگی سے بچانے
کے لیے بھر پور کردار ادا کریں،صوبہ کے ثقافتی ورثہ بشمول گندھارا تہذیب کے
امین مقامات کو خصوصی ترقی دی جائے گی جن میں سوات کے بدھ آثار بھی نمایاں
ہیں اس مقصد کے لیے جاپان ،کوریا،تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں واقع
پاکستانی سفارت خانوں کواس حوالے سے فعال کردارادا کرنے کی ہدایت کی جائے
گی تاکہ وہ بدھ مت اوردیگرمذاہب کے پیروکاروں کو صوبہ کے گندھارا تہذیب اور
بدھ آثارقدیمہ کی سیاحت کی موثر ترغیب دیں ،سوات میں انفراسٹرکچر کو بہتر
بنایا جائے گا اور یہاں کے سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق
ڈھالا جائے گا نئے سیاحتی مقامات کھولے جائیں گے جیسے گبین جبہ اور مہوڈھنڈ
ٹینٹ ویلج جبکہ متعدد مقامات پر بکنگ پوائنٹ بنائے جائیں گے تاکہ سیاحوں کو
تفریح کے نئے مواقع مل سکیں مالم جبہ ریزرٹ کو ترقی دی جائے گی اور اس کو
پبلک پرا ئیویٹ پارٹنر شپ کے تحت تکمیل کے لیے مشتہر کیا جائے گا ،سوات کے
لوگ فطرتاً مہما ن نواز اور امن پسند ہیں ماضی میں بھی ملکی اور غیر ملکی
سیاح سوات کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی سوات
میں سیاحت کا مستقبل نہایت تابناک ہے جبکہ سوات اپنی تاریخ کے مشکل ترین
دور سے گزر چکا ہے اب سوات سے اندھیرے چھٹ گئے ہیں اور امن وترقی کی روشن
صبح طلوع ہوچکی ہے۔ |