جہالت کے علمبرداروں کی گلشن اقبال پارک
میں سفاکانہ مگر بزدلانہ بربریت نے سیاسی جماعتوں کی مشکل آسان کردی ہے اور
پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے لیے بھی پریشانی کا سامان کردیا
ہے۔ مخالفین معترض ہیں کہ ایکشن پلان کی تشکیل سے آج تک ایپکس کمیٹی پنجاب
کے اجلاس انعقاد پذیر نہیں ہوئے جیسے سندھ اور دیگر صوبوں میں ہوئے ہیں۔
پنجاب میں فوج اور رینجرز کے آپریشن کے نتائج کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے کہ
کیا پنجاب مین آپریشن ہورہا ہے یا نہیں؟ ہورہا ہے تو اسکا فیصلہ کس نے اور
کہاں کیا؟ اس آپریشن کی کمانڈ کس کے سپرد ہے؟ کیاپنجاب میں رینجرز کی
باقاعدہ تعیناتی کا کوئی نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے؟ اگر ہوا ہے تو اسے آئین
کی شقوں 145، 146اور 147میں سے کس شق کے تحت اختیارات عنایت کیے گئے ہیں؟
کیا پنجاب میں گرفتار ہونے والے دہشتگردوں یا مشتبہ افراد کو بھی رینجرز 90
روز کے لیے اپنی تحویل میں رکھیں سکیں گئے؟ کیا پنجاب میں بھی تمام تقرریاں
اور تبادلے ایپکس کمیٹی ہی کرے گی ؟کیااس آپریشن کے دوران قانون کی گرفت
میں آنے والے دہشت گردوں ، انکے سہولت کاروں اور انکے فنانسروں کو بھی فوجی
عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا یا پنجاب میں ان کے ساتھ کچھ نرمی برتی جانے
کا امکان ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی خصوصا پنجاب دیس کے بسنے
والوں کے اذہان میں پڑتھو ڈالے ہوئے ہیں۔ اور انکی خواہش ہے کہ کوئی انکے
ان سوالات کے تسلی بخش جواب دیکر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کریگا۔
پنجاب حکومت نے بادل ناخواستہ ہی سہی پنجاب میں رینجرز کی کارروائیوں کو
قبول کرلیا ہے اور آہستہ آہستہ کے حق میں بولنے بھی لگی ہے البتہ دبے چھپے
انداز و الفاظ کے لبادے کچھ تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ایسے ہی تحفظات
عسکری قیادت بھی رکھتی ہے ، اور میڈیا کی زینت بننے والی قیاس آرائیاں اور
افواہیں کہ فوجی قیادت اور پنجاب حکومت کے درمیان پنجاب میں آپریشن کے
حوالے سے ڈیڈ لاک موجود ہے ، باخبر اور اندر کی خبر رکھنے والے عناصر کا
کہنا ہے کہ گذشتہ جمعرات ( 31 مارچ) کی شب وزیر اعلی پنجاب نے وفاقی وزیر
داخلہ چودہری نثار علی کے ہمراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی ہے
جس کے زریعے پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن پر ص موجود ڈیڈ لاک
ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ پنجاب حکومت اور فوجی حکام کے ھوالے سے ڈیڈ لاک
پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت ایک عرصے سے وفاقی حکومت
سے کہہ رہی تھی کہ پنجاب میں پولیس کے خصوصی اختیارات کے ساتھ رینجرز کو
طلب کیا جائے لیکن مسلم لیگ نواز کی حکومت ان اختیارات کے ساتھ رینجرز کو
پنجاب مین اتارنے کو تیار و آمادہ نہیں ہو رہی تھی ۔کیونکہ حکومت کو خدشہ
ہے کہ سندھ کی طرز پر پنجاب میں آپریشن کرنے کی اجازت دینے سے ایسا ہی
سیاسی نقصان ہونے کا احتمال ہے جیسا سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہو رہا ہے۔
فوجی قیادت کو یقین ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود
ہیں مگر حکومتی وزرا مصلح پسندی سے تسلسل سے اس بات سے انکاری ہیں جس کا
فوجی اسٹبلشمنٹ کو رنج ہے اور اس باعث فوجی اسٹبلشمنٹ حکومت سے نالاں بھی
ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملات ابھی تک پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچے
وفاقی اور پنجاب حکومت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات میں سلجھاؤ لا
نے اور انہیں بات کو بگڑنے سے بچا سکتی ہے، مین اپنی اس بات کو یوں بھی کہہ
سکتا ہوں کہ شروع کیا گیا آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے اور وہ
ضرور پہنچے گا اگر پنجاب حکومت پوری قوت سے اس آپریشن کی پشت پر کھڑی
ہوجائے تو اسکے ھق مین زیادہ بہتر رہے گا ورنہ رینجرز نے اپنا کام تو کرنا
ہی ہے۔
کوئی کچھ بھی کہتا رہے اب پنجاب حکومت کو ’’ گل پیا ڈھول بجانا پڑے گا‘‘اور
اپنی صفوں میں سے دہشتگرد تنظیموں کے لیے سافٹ کارنر رکھنے ، انہیں قانونی
،مالی اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے والے سہولت کاروں کو نکال باہر کرنا
ہوگا اور ان سے مکمل لاتعلقی کا بھی اظہار کرنا ہوگا۔اور جسطرح سندھ میں
حکمرانوں کی جانب سے کراچی آپریشن کو متنازعہ بنانے کی جدوجہد کی گئی اس
قسم کے حالات پیدا کرنے سے اجتناب برتنا ہوگا اور رینجرز اور فوج کی ہر
ڈیمانڈ پوری کرتے ہوئے اس ٓاپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا،ایسی ہر
بات سے دور رہنا ہوگا جس سے آپریشن کے غیر جانبدار نہ ہونے پر انگلیاں اٹھ
سکتی ہوں۔ اپوزیشن کی بھی وپوری ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے مطالبے پر ہونے
والے پنجاب آپریشن کی کامیابی کے لیے فورسز اور حکومت سے مکمل تعاون کرے
اور متنازعہ بنانے کی کسی بھی شعوری اور غیر شعوری کوشش کا حصہ بننے سے
لاتعلق کا اظہار کرے۔ اسکی وجہ ہے کہ اگر اس بار پنجاب میں شروع ہونے والا
آپریشن ناکام بنا دیا گیا تو حکومتی بدنامی جو گی سو ہوگی ہی لیکن دہشت
گردوں کو وہوہے قہقے لگانے اور بھاگنے کے محفوظ راستے دستیاب ہو جائیں گے
اور پھر کھبی پنجاب میں آپریشن نہ ہو پائے گا۔ |