ایران کے تعاون کے بارے میں خدشات ظاہر کئے
جا رہے ہیں۔ مگر ان کا تعلق محض فرقہ وارانہ پس منظر اور جداگانہ نظریات سے
ہے۔ یہ مفروضہ ہو سکتا ہے کہ ایران کبھی بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کا
سوچ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات
ہیں۔ ایران اور بھارت کی تجارت کا حجم تقریبا ً 6ارب ڈالر ہے۔ تا ہم ان
برآمدات درآمدات میں دہلی فائدہ میں ہے۔علاوہ ازیں دونوں کے درمیان
توانائی، تجارت، بینکاری، انشورنس، سیاحت سمیت کئی میدانوں میں تعاون ہو
رہا ہے۔ بھارت ایران کی جنوب مشرقی بندرگاہ چابہارمیں تقریباًایک ارب ڈالر
کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔وہ آئل ریفائنریاں یا تیل صاف کرنے والے یونٹس
قائم کرنے میں مصروف ہے جہاں یومیہ چار لاکھ بیرل سے زیادہ تیل صاف ہو گا۔
بھارت ہی چاہ بہار سے زیدان تک ریلوے روڈ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ وہ یہاں بڑے
کثیر المقاصد کارگو ٹرمینلز اور کنٹینرز کے لئے خصوصی برتھ تعمیر کر رہا
ہے۔ چاہ بہار کو بھارت گوادر کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے۔بھارت یہ تاثر دے
رہا کہ گوادر ایران کی اہمیت کم کر دے گا۔ جبکہ گوادر سی ایران کی اہمیت
بڑھے گی۔
بھارت چاہ بہار کو افغانستان اور وسط ایشیا کے لئے گیٹ وے یا گزرگاہ کے طور
پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایران کے ساتھ مل کر
طالبان کے مقابلہ میں شمالی اتحاد کی حمایت کی تھی۔ بھارت، ایران اور
افغانستان نے طالبان حکومت کے خاتمہ کے فوری بعد ایک معاہدہ کیا تھا۔ یہ
معاہدہ امریکہ کی سرپرستی میں کیا گیا۔ اس کے تحت چاہ بہار
۔ملاک۔زارنج۔دیلارم روٹ تعمیر کی جانی تھی۔ چاہ بہار اگر چہ ایک غریب سنی
اقلیت کا علاقہ ہے۔ ایران بھی اس علاقہ کو سنٹرل ایشیا اور افغانستان،چین
تک کے لئے راہداری کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔یہاں سے ہی ترکمانستان اور
قزاقستان تک ریل چلانے کی منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ایران کا خیا ل ہے کہ وہ
مستقبل میں چین اور بھارت کو خام تیل اور قدرتی گیس سپلائی کرنے والا سب سے
بڑا ملک بن جائے گا۔ کیوں کہ اس کے ہاں ان کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔
ایران میں بھارت کا یہ تعمیراتی اور تجارتی نیٹ ورک افغان نیٹ ورک کی طرح
ہے۔ جہاں بھارت کے اپنے فوجی کمانڈوز تعینات ہیں۔ ظاہر ہے بھارت ان ممالک
کی تعمیر و ترقی اور سرمایہ کاری کے نام پر اپنے سٹریٹجک اڈہ قائم کر رہا
ہے۔ جو مسقبل میں فوجی مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا مقصد اس
خطے میں بھارتی مفادات کی نگرانی اور اقتصادیوں راہداریوں پر نظر رکھنابھی
ہو گا۔ ان سے وہ اپنے مخالفین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی
بھی کر رہا ہو گا۔
ایران اور افغانستان ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی اڈے اور اس کے
دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے بن رہے ہیں۔ بھارت کے پروجیکٹ نئے نہیں۔ ان پر
عرصہ دراز سے کام ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نصف
صدی تک ایرانی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔ اس نے ایران عراق جنگ میں
کھل کر عراق کا ساتھ دیا۔ کیوں کہ وہ عراق سے ہی تیل حاصل کرتا رہا تھا۔
مگر اب دہلی نے جس طرح روس کے ساتھ امریکہ کو بھی اپنے شیشے میں اتار لیا
ہے۔ایران پر جب پابندیاں تھیں تو بھارت نے امریکہ کو اعتماد میں لے کر
ایران سے تیل کا حصول یقینی بنایا۔ ایران کو تیل کے بدلے ادائیگی کے بجائے
یہ رقومات کلکتہ کے ایک بینک میں جمع کی گئیں۔ جب ایران پر پابندیاں نرم
ہوئیں تو بھارت نے اسے قسطوں میں ادائیگی کی۔ بھارت اپنے مفادات کے لئے ہر
کسی سے تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی وجہ سے اس کے بیک
وقت ماسکو اور واشنگٹن سے وابستگی ہے۔ ایک ساتھ اسرائیل اور سعودی عرب سے
دوستی مہم جاری ہے۔ امریکہ میں جوہری اسلحہ سے متعلق سربراہ کانفرنس میں
شرکت کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی سیدھا سعودی عرب پہنچے۔
جوہری سلامتی کے بارے میں بھارت زیادہ فکر مندہونے تاثر دے رہا ہے
یہ حقیقت سب نے جان لی ہے کہ بھارت کی ایٹمی تنصیبات محفوظ نہیں۔ انہیں
باغی گروپوں کی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ بھارت میں ایٹمی تابکاری کے بھی
کئی حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ مگر وہ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
نریندر مودی نے اس عالمی کانفرنس میں صدر اوباما کے پہلو میں بیٹھ کر
پاکستان کا نام لئے بغیر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق خدشات پیدا
کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ بھارت میں ہی ماؤ یا نکسل یا دیگر لا تعداد باغی
گروپ ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بھی بنا سکتے ہیں اور تابکاری مواد بھی چوری
کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اب بھارتی فوج پر جدید ترین اسلحہ
سے حملے کر رہے ہیں۔ اور اسے جب چاہے نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ مگر ابھی بھارت
کا نشانہ پاکستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایران اور افغانستان کی سرزمین
پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ایران بھارتی سازشوں سے بے خبر ہو۔ کیوں کہ کوئی ملک یہ نہیں
چاہتا کہ کوئی اس کی سرزمین کو اپنی مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ نیز پاکستان
اور ایران برادر اسلامی ممالک ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر عرب
ملکوں کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات ہیں۔ تا ہم ایران میں میڈیا کا ایک حصہ
اور بعض دیگر اسلام دشمن ایران کو پاکستان کے خلاف صرف اس وجہ سے بھڑکا رہے
ہیں کہ اسلام آباد کے ریاض کے ساتھ دیرینہ بہترین تعلقات ہیں۔ اسلام آباد
کے ریاض اورتہران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ عقیدے یا
نظریہ کا اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن پاکستان بیک وقت ایران اور سعودی عرب
سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ بلکہ دونوں کو قریب لانے میں پل کا کردار بھی
ادا کر رہا ہے۔ بھارت اس کے برخلاف کام کر رہا ہے۔ وہ اس پل کو اڑانے میں
مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راء اور دیگر پاکستان دشمن نیٹ ورک کو ایران میں
سرگرم کر رکھا ہے۔ فیصلہ ایران نے ہی کرنا ہو گا کہ وہ اسلا می برادر ملک
اور دنیا کے پہلے مسلم ایٹمی ملک میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر وہ کسی
کو کسی پر ترجیح دینے میں دلچسپی نہیں لیتا تو پھر کسی کا آلہ کار بھی نہ
بنے۔ بھارت اسے اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
اسی وجہ سے ایرانی سرحد سے پاکستان پر حملہ ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ کسی جند اﷲ
گروپ کی آڑمیں ایران کی جانب سے سرحدوں پر تاربندی، پاکستان میں فوجیں داخل
کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ اب یہ ایرا ن پر منحصر ہے کہ وہ بھارت کی
سازش ناکام بنانے میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرتا ہے یا پھر وہ بھارت
کو پاکستان پر ترجیح دینا چاہتا ہے۔ |