بیرونی سرمایہ کاری اور تارکین وطن

 خلیجی ممالک میں موجود ان کے شہری ہر سال تقریباً60ارب روپے کمائی اپنے ملک کو بھیجتے ہیں۔ یہ ملک ان سے بھاری زر مبادلہ کما رہا ہے۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی بڑھ رہی ہے لیکن وہ اپنی آبادی کو انسانی قوت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ چین کی پالیسی اس نے بھی اختیار کر لی ہے۔ چین نے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی کواپنے اوپر بوجھ بنانے کے بجائے انہیں پیداواری کام پر لگا دیا ہے۔ چین کا ہر گھر کارخانہ ہے۔ ہر مکان ،فیکٹری، انڈسٹری کا کام کر رہا ہے۔ بڑی بڑی مشینوں کے چھوٹے چھوٹے پرزے ہر گھر میں تیار ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ چین کے ساتھ دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرہ قرار دیا لیکن اس سے سبق کچھ نہ سیکھا۔پاکستان کے بجائے بھارت نے یہ سبق سکھ لیا۔

گجرات میں مسلمانوں کا قتل عا م نہ کیا جاتا تو نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم کبھی نہ بنتے۔ کیوں کہ اس سے پہلے وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار ایل کے ایدوانی اور مرلی منوہر جوشی موجود تھے۔ جنھیں اتل بہاری واجپائی کے پی ایم ہاؤس سے نکلنے کے بعد ہی سے دیوار سے لگا دیا گیا۔

اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے وزیر اعظم کا مسلم دنیا میں ریڈ کارپٹ استقبال ہو رہا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دنیا کی پہلی مملکت کے سربراہ حکومت اس وزیراعظم کا اپنے گھر پر استقبال کر رہے ہیں۔یہی نہیں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں وزیراعظم مودی کی آؤ بھگت ہو رہی ہے۔

وزیراعظم مودی کے دو روزہ دورہ سعودی عرب میں امارات جیسی پزیرائی نہیں ملی۔ نہ ہی وہ ملک میں بھارتی محنت کشوں کا کوئی جلسہ عام کر سکے۔ شاید اس کی ایک وجہ سعودی عرب میں دفعہ 144کا نفاذ ہو گی۔یہاں کسی بیرونی حکمران کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس کے باوجود مودی نے بھارتی محنت کشو ں کے ایک رہائشی کمپلیکس میں اپنے شہریوں کے ساتھ رات کا کھانا تناول کیا اور ان سے خطاب بھی کیا۔ عرب امارات کے سٹیڈیم میں مودی نے بھارتی مزدوروں سے خطاب کیا۔ دوبئی کرکٹ سٹیڈیم میں ہزاروں کی تعداد میں بھارتی محنت کش جمع تھے۔ ان کی تعداد 50ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔دوبئی کا دورہ اگست 2015کو ہفتہ اتوار کا تھا۔اپریل 2016کو ریاض کا دورہ بھی ہفتہ اتوار کا تھا۔ یعنی تعطیل کے دن کا دورہ منصوبہ بندی سے طے کیا گیا تھا۔امارات میں تقریباً18لاکھ بھارتی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہے۔وہ ان سے زرمبادلہ کما رہا ہے۔ بھارت سعودی عرب سے خام تیل خریدنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ تا ہم ایران پر سے پابندیاں ہٹنے کے بعد وہ سعودی عرب کو بلیک میل بھی کر سکتا ہے۔

سعودی عرب کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ پاکستان کی ہر سطح پر حمایت کرنے والا ملک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہو گا کہ سعودی عرب اب تک پاکستان کو تمام دنیا پر ترجیح دیتا آ رہا ہے۔ تا ہم اس کے بھارت کے ساتھ بھی اپنے مفادات کے تحت تعلقات ہیں۔ دونوں کے درمیان تجارت بھی ہو رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے بھارتی محنت کشوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ جبکہ پاکستان کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ بھارت عرب دنیا سے سرمایہ کاری لانے میں بھی انتہائی دلچسپی رکھتا ہے۔ مگر ہماری توجہ اس جانب کم ہے۔ ہمارے حکمران ایسا لگتا ہے کہ ریاستی مفادات کے بجائے زاتی تعلقات اور زاتی کاروبار کے فروغ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سعودی عرب، امارات ، کویت، ترکی ، قطر اور دیگر مسلم ممالک کو یہاں سرمایہ کاری لانے میں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ پینے کا صاف پانی اور زمینوں کو سیراب کرنے والا پانی بھی یہاں بہتات میں ہے۔ مگر میٹھے پانے کے دریا سمندر میں گر رہے ہیں۔ مگر ان کا استعمال یقینی نہ بنایا جا سکا۔ یہاں لوڈ شیڈنگ کا مسلہ ہے۔ ملکی زرعی پیداوار میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ مگر ہم آبپاشی کے لئے نہریں اور ڈیم نہ بنا سکے۔ ایک زرعی ملک کا یہ حال ہے کہ وہ آسٹریلیا جیسے ممالک سے غیر معیاری گندم ، بھارت جیسے ملک سے پیاز آلو خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہمارے بھی لاکھوں لوگ سعودی عرب ، امارات اور دیگر مسلم ممالک میں موجود ہیں۔ لیکن ان محنت کشوں اور سمندر پار پاکستانیوں کی لا تعداد شکایات ہیں۔ و ہ اپنے گھر سے دور ہمارے لئے زر مبادلہ کماتے ہیں ۔ لیکن ہمارے با اثر لوگ ان کے یہاں کاروبار اور جائیدادوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ سمندر پار پاکستانی گھروں کو واپس آتے ہیں تو انہیں ائر پورٹس سے ہی مختلف طریقوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے۔ ہماے وزیراعظم ان کو کبھی گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ مگر بھارتی وزیر اعظم ایک طرف مسلمانوں کا قاتل ہے ، دوسری طرف وہ مسلم دنیا میں کام کرنے والے مسلمانوں کا سب سے بڑا خیر خواہ بننے کی کیسی کوشش کر رہا ہے۔ گو کہ غیر مسلم لوگ بھی مسلم ممالک میں بھارت کے لئے زر مبادلہ کما رہے ہیں۔ لا تعداد عرب ممالک میں اہم پالیسی سازی اداروں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ خلیج کے بڑے اخبارات میں ہندو صحافیوں کام ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا خلیجی صحافت پر قبضہ ہے۔ وہ وہاں سے پاکستان کے خلاف اور بھارت کے حق میں رائے عامہ استوار کر رہے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم نواز شریف اور ہمارے دیگر ارباب اقتدار کو اپنی نجی مصروفیات سے فرصت ملے تو وہ سمندر پار پاکستانیوں کی ھالت زار کو بھی دیکھ لیں۔
 
بھارتی وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب اس لے بھی اہم ہے کہ وہ سعودی حکمرانوں سے پاکستان کی حمایت کم کرنے یا اسے امتیاز سے بالا دست رکھنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ وہ یہ تاثر بھی دے رہے ہوں گے کہ سعودی عرب مں ہونے والی دہشت گردی کوبھی پاکستان سیمدد مل رہی ہو گی۔ بھارت کی بیک وقت سعودی عرب اور ایران سے دوستی اسی تناظر میں ہے کہ وہ دونوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش میں سر گرداں ہو گا۔ کیوں کہ وہ سفارتی طور اسلام آباد کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارت سعودی عرب کو چاول،ٹیکسٹائل، گارمنٹس وغیر ہ بر آمد کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان سعودی ضرورت کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پاکستانی چاول اور ٹیکسٹائل کی کبھی پوری دنیا میں مانگ تھی۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور معیار پر توجہ ہٹانے کے بعد اس مانگ میں کمی آئی۔ سعودی عرب سے بھارت تیل ، سونا، چمڑا، کمیکلز در آمد کرتا ہے۔ بھارت نے سعودی عرب میں تعمیراتی پروجیکٹس، ٹیلی کمیونیکیشن، آئی ٹی، ادویات سازی، کنسلٹنسی خدمات کے پروجیکٹس جاری رکھے ہیں۔ خلیجی ممالک ضاص طور پر سعودی عرب اور امارات میں پاکستان کی اشیاء کی کھپت کے لئے پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافے، کوالٹی کنٹرول، معیار میں بہتری، ہنر مند محنت کشوں کی تربیت سازی کی جانب فوری توجہ دینی ہو گی۔ اس کے لئے عرب سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ عرب دنیا کی مارکیٹ کا پروفیشنل سے ایک مکمل جائزہ اور سروے لیا جا نا چاہیئے ۔ تا کہ پاکستان کی بر آمدات کا مارکیٹ طلب کے مطابق کوئی موازنہ ممکن بن سکے۔ ہمارے سفارتخانوں میں دو طرفہ تجارت ، سرمایہ کاری، دیگر ممالک سے موازنے کے لئے خصوصی ڈیسک قائم کئے جائیں تو مثبت نتائج کی توقع کی جا سکے گی۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555961 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More