آئین پر بوجھ!

 رضا ربانی پاکستان کے اہم ترین ادارے کے سربراہ ہیں، جب کبھی صدرِ مملکت پاکستان سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو ایوانِ بالا کے چیئرمین ہی صدر پاکستان کے منصبِ جلیلہ پر جلوہ گر ہو تے ہیں۔ گزشتہ روز جب وہ اپنے قائدسابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی برسی کے سلسلہ میں گڑھی خدابخش گئے ہوئے تھے، میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ․․․قانون سب کے لئے برابر ہے تو عدالتیں اس سے ہٹ کر فیصلے کیسے کر رہی ہیں ․․ آرٹیکل 6جمہوریت کے دفاع میں ناکام رہا، کوئی آرٹیکل بے مقصد ہو تو اسے نکال کر آئین کا بوجھ کم کر دینا چاہیے ․․ آرٹیکل 6اور بے نظیر قتل کے ملزم کو ملک سے باہر جانے دینا مذاق ہے ․․‘‘۔مشرف کا ملک سے جانا ایک واقعہ تو ہے، مگر اس کا اچھالا جانا صرف سیاست ہی کہلائے گا، کیونکہ پاکستان میں ایشوز کو اکثر اوقات اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرف کے باہر جانے کو زیر بحث لانے سے کسی بھی ادارے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور چند روز کی اُڑی ہوئی دھول اول تو بیٹھ ہی چکی ہے، ورنہ بہت جلد بیٹھ جائے گی۔

رضا ربانی نے اپنے جذبات کا اظہا رکیا ہے تو ان کی بات سنی جاتی ہے، وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اپنے پیارے آئین میں کیا کچھ ہے، اور کتنے کچھ پر عمل ہوتا ہے؟ آئین کے بارے میں منفی بات کرنا قابلِ گرفت اور لائقِ مذمت عمل ہے، مگر حقیقت یہی کچھ ہے کہ قانون سب کے لئے برابر نہیں ہے، اپنے ہاں غریب اور امیر کے لئے قانون مختلف ہے۔ طاقت ور قتل بھی کریں تو چھوٹ جاتے ہیں، کمزور آہ بھی بھرے تو دھر لیا جاتا ہے۔ قاتل مقتول کو دباؤ میں لاکر ’باعزت ‘بری ہوجاتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 6غداری کے خاتمے کے لئے بنایا گیا تھا، مگر یہاں ہم یہ فیصلہ کرنے سے ہی قاصر ہیں کہ غدار کون ہے؟ یہاں جو طاقت ور ہے وہ ہی اپنے مخالفین کو غدار قرار دے دیتا اور اس کے لئے عدالتیں سجا کر سزاکا اہتمام کرلیتا ہے۔ اگر مشرف پر غداری کا مقدمہ تھا تو گزشتہ آٹھ برس میں وہ باہر کیسے رہے، آتے جاتے کیسے رہے؟ ٹی وی چینلز پر جلوہ گری کیسے دکھاتے رہے؟ اور یہ بھی کہ اگروہی بے نظیر کے اصل قاتل ہیں تو پی پی نے اپنے دور حکومت میں انہیں باہر کیوں جانے دیا؟ مگر کیا کیجئے کہ سیاست کا تقاضا یہی ہے کہ ہر موقع کو غنیمت جان کر اس پر سیاست کی جائے۔
آئین کے کس آرٹیکل پر عمل ہوتا ہے، اس بات کا قوم کو کوئی علم نہیں۔ مگر اتنا معلوم ہے کہ جس آرٹیکل سے کسی حکمران یا ان کے طاقتور مخالف پر حرف آتا ہو، وہ آرٹیکل ناقابل عمل قرار پاتا ہے، وہ صرف تبرک کے لئے یا مخالفین کو قابو کرنے کے لئے آئین کا حصہ رکھا جاتا ہے، تاکہ اس مقدس دستاویز کو اپنے مفاد اور مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ اب تو قوم آرٹیکل 25سے بھی آگاہ ہو چکی ہے، جس میں قوم کے بچوں کی تعلیم کی بات کی گئی ہے، اور بتایا گیا کہ ’’مفت اور لازمی تعلیم ہر بچے کا حق ہے، اور یہ بھی کہ یہ حق ریاست کے ذمے ہے کہ وہ عوام تک پہنچائے‘‘۔ مگر یہ بھی قوم کو اچھی طرح علم ہے، کہ اس قسم کے حق پر صرف بیان بازی کی جاتی ہے، یا پھر مہمل اور بے جان قسم کی مہمات چلائی جاتی ہیں، یا مہنگے اخباری اشتہارات جاری کر کے یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ ہم نے فرض ادا کردیا۔ اسی طرح عوام کو صحت، حفاظت، امن، صفائی سمیت تمام بنیادی سہولتیں دینا بھی ریاست کا فرض ہے، مگر اپنے ہاں یہ فرائض کوئی سرانجام نہیں دیتا۔اپنی حکومتیں اگرآئین کے کسی آرٹیکل کو دل وجان سے قبول کرتی اور ان پر عمل کرتی ہیں ، وہ آرٹیکل ہیں جن کے تحت انہیں مراعات نصیب ہوتی ہیں، انہیں پروٹوکول دیا جاتا ہے، انہیں تاحیات سہولتیں میسر آتی ہیں۔ ایسے آرٹیکل اعلیٰ حکومتی عہدوں کے لئے عیاشی کا باعث ہوتے ہیں، مثلاً صدر مملکت کی حیثیت اور اختیارات کسی سے پوشیدہ نہیں، مگر صدر کی ذات پر ہونے والے اخراجات و مراعات وغیرہ کا حساب لگایا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم، ایوانوں کے سربراہوں یا نمائندگان کی مراعات وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ اگر رضا ربانی کی بات مان کر آئین سے انتظامی دفعات نکال دی جائیں تو آئین خالی ہو جائے گا، یا اس میں صرف وہی دفعات رہ جائیں گی جو حکمرانوں کی عیاشی کا موجب بنتی ہیں۔ آئین کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں تو وہ دفعات نکالیں جو قوم اور خزانے پر بھی بوجھ ہیں، مگر ایسا کون کرے گا؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 507653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.