بھارت کا پاکستان کیخلاف ایرانی سرزمین کا استعمال

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

پاکستان نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے افسر کلبھوشن یادیو کی چاہ بہار میں تمام سرگرمیوں و کاروباری افراد سے روابط کا مکمل ریکارڈ فراہم کرے اور اس کے ساتھی راکیش عرف رضوان کو گرفتارکر کے پاکستان کے حوالے کرے۔وزارت داخلہ کے مطابق وفاقی سیکرٹری داخلہ عارف احمد خاں نے پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنر منددوست کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایرانی سرزمین پر را نیٹ ورکس کی تفصیلات شیئر کی جائیں اور ایسے لوگوں کے رابطے اور بزنس سے متعلق بتایا جائے۔اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے بھی ایرانی سفیر سے ملاقات میں کہاہے کہ ایران کی سرزمین پر بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کا موجود ہونا باعث تشویش ہے۔ ایرانی حکومت پاکستان کے خط کا سنجیدگی سے جائزہ لے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر اعتماد سازی بڑھے۔اس دوران ایرانی سفیر کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔

بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا مسئلہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور پچھلے کئی دنوں سے اسے دنیا کی سب سے بڑی خبر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔را افسر نے اپنے اعترافی بیان میں واضح طور پر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے رابطے، فنڈنگ اور کراچی و دیگر شہروں میں دہشت گردی پھیلانے کا اعتراف کیا۔ بھارتی جاسوس کے اقرارجرم پر مبنی ویڈیوساری دنیا نے دیکھی تاہم حکومت کی جانب سے ابھی تک وہ مضبوط ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔ اس ساری صورتحال پر پوری پاکستانی قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور یورپی یونین کو ہندوستانی جاسوس کی گرفتاری اور پاکستان میں را کی سرگرمیوں سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں کو صرف ایک مراسلہ بھجوادینا کافی نہیں ہے۔ اگر اس نوعیت کا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی بھارت میں پیش آجاتا تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتااورپوری دنیا میں واویلا مچا یا جاتا۔ را کے افسر کی گرفتاری پاکستانی خفیہ اداروں کی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی اور ہندوستانی نیوی کے مابین اختلافات پیدا کر دیے ہیں اور کہا جارہاہے کہ بحریہ کے سربراہ نریندر مودی سے ملاقات کر کے انہیں جوائنٹ انکوائری کی تجویز دیں گے۔انڈین نیوی سمجھتی ہے کہ را کی درخواست پر نیول انٹیلی جنس کے افسر کلبھوشن کی خدمات ان کے حوالے کی گئی تھیں۔ را کو بھارتی نیول اور انٹیلی جنس افسروں کی ضرورت اس لئے پڑی کہ چاہ بہار ایرانی بندرگاہ ہے اس لئے وہ وہاں بیس بنا کر ساحلی علاقوں، بندرگاہوں اور پاکستان و ایران کے درمیان پائے جانے والے سمندری راستوں وجزیروں پراپنا نیٹ ورک بنانا چاہتی تھی جبکہ یہ صلاحیت انڈین نیوی کی مددسے ہی حاصل کی جاسکتی تھی۔ بھارتی نیوی سمجھتی ہے کہ را کے افسروں کی نالائقی اور مخبری کی وجہ سے ہی انکا ایک ذہین فطین افسر گرفتار ہوا ہے۔ بھارتی حکام کی جانب سے بھی را کی قیادت پر ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی کمزورپالیسیوں کی وجہ سے ہم اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی صحیح معنوں میں اس کے ثمرات اور فوائد نہیں سمیٹ سکے ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان کیخلاف سازشیں شروع دن سے کسی سے ڈھکی چھپنی نہیں ہیں‘ البتہ اس واقعہ میں سب سے تشویشناک امر ہندوستانی خفیہ ایجنسی کا ایران کی سرزمین کا پاکستان کیخلاف استعمال کرنا ہے۔ چاہ بہارکی بندرگاہ بھارت تعمیرکر رہا ہے ۔ جس وقت دونوں ملکوں کے مابین یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت ہی ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ انڈیا اس مقام کو پاکستان کیخلاف تخریبی کاروائیوں کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں رہے گااور اس وقت یہی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے پاس ایرانی پاسپورٹ تھا۔ اس نے وہاں جیولری کا بزنس بھی کیا اور ایرانی پاسپورٹ پر ہی پاکستان آکر یہاں دہشت گردی کی آگ بھڑکاتا رہا۔حساس اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ہندوستان کے دیگر کئی جاسوس بھی چاہ بہار میں موجود ہیں۔ یہ سارا نیٹ ورک کئی برسوں سے کام کر رہا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض ایرانی حکومتی ذمہ داران کو اس ساری صورتحال کا علم نہیں تھا تو کیا ایرانی انٹیلی جنس ان سارے معاملات سے واقف نہیں تھی اور یہ کیسے ممکن ہے کہ را کے افسر اور جاسوس وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف تخریب کاری اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کھیل کھیلتے رہے اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوا؟۔ ایرانی اداروں کی مرضی کے بغیر چاہ بہار بیٹھ کر پاکستان کیخلاف آپریشن کس طرح انجام دیے جاسکتے ہیں؟۔بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ را کے افسر کو بھارتی حکومت نے دو پاسپورٹ جاری کر رکھے تھے اور ایران بھی اس معاملہ سے باخبر تھا جس نے بھوشن کے دونوں پاسپورٹس پر ویزے اور ورک پرمٹ جاری کئے ۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ کلبھوشن ایران میں مختلف شناختوں کے ساتھ رہا اور ایرانی حکومت اسے پاکستان میں داخل ہونے کیلئے جعلی شناخت استعمال کرنے کی اجازت دیتی رہی۔ان ساری چیزوں سے بہت ساری غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے حکومتی ذمہ داران بڑی شدومد سے یہ کہتے رہے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے لیکن اب جبکہ ہندوستان کی طرف سے ان کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشوں کا مسئلہ سامنے آیا تو انہیں کھل کر اس کی وضاحت کرنی چاہیے اوراس تاثر کو دور کرنا چاہیے کہ یہ سب کچھ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر ایران ان معاملات سے بے خبر تھا تواسے چاہیے تھا کہ وہ ہندوستان کے دہشت گردانہ کردار کی مذمت کرتا اور ساری دنیا کو بتایا جاتا کہ انڈیا نے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی تائید کے بغیر ان کی سرزمین ہمسایہ ملک پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان میں موجود ایرانی سفارت خانہ کی طرف سے کہا گیاہے کہ میڈیا کی طرف سے بغیر تصدیق کے خبریں چلائی جارہی ہیں اور یہ کہ اس پروپیگنڈا سے دوستی خطرے میں پڑسکتی ہے۔کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کا ایران کے راستے پاکستان آنا جانا انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اس پر بہت زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات ساری دنیا کے سامنے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فریق نہ بنے اور ایران کے جذبات کا بھی خیال رکھے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایران کو برادر ملک سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران کو بھی ایسے ہی ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔ پاکستان چاہ بہار سے را کے افسروں و اہلکاروں کو نکالنے میں انتہا کی حد تک سنجیدہ ہے۔ اگر ایران کی طرف سے راکیش نامی ایجنٹ گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جاتاہے اور را کے ایجنٹوں کو مستقل طور پر وہاں سے نہ صرف نکال باہر بلکہ ہندوستان کے اس دہشت گردانہ کردار کیخلاف آواز بلند کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہے اور دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ بھارت بڑی منڈی اور مارکیٹ ضرور ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ملکوں کے باہم تعلقات مضبوط ہوں تاکہ وہ اتحادویکجہتی کے ذریعہ دشمن کی سازشیں ناکام بنا سکیں۔بہرحال اس وقت پاکستانی حکومت کے پاس انڈیا کی دہشت گردی دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا بہترین موقع ہے ۔ انڈیا بہت شور کرتا ہے کہ نا ن سٹیٹ ایکٹرز ان کے ملک میں دہشت گردی کر رہے ہیں لیکن یہاں تو ان کے سٹیٹ ایکٹرز قتل و غارت گری کی آگ بھڑکار ہے ہیں اور ایسے ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں کہ جنہیں ہندوستان کسی صورت جھٹلانہیں سکتا۔ پاکستان کواس سنہری موقع کو کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.