قدرت کے امتحان

طوفانی بارش نے قیامت ڈھادی۔ بجلی گرنے کے بیسیوں واقعات۔ سینکڑوں مکانات منہدم۔ لینڈ سلائیڈنگ سے راستے بند۔ سیلابی ریلے گھروں میں داخل۔ طوفانی ہواؤں نے درخت اور کھمبے اکاڑ پھینکے۔

اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا بھرمسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جہاں امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا وہاں انہوں میں پوری عالم میں براہ راست اپنی دراندازی کا آغاز کر دیا۔ عراق اور افغانستان پر چڑھائی کے علاوہ مصر، شام، لیبیا، ترکی سمیت مختلف اسلامی ممالک میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان بھی ان کت تسلط سے محفوظ نہیں رہا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان میں براہ راست جنگ نہ ہونے کے باوجود یہ میدان جنگ بن چکا ہے تو بجا ہوگا۔بلیک واٹر، را، موساد جیسے ایجنسیز کے لوگ مختلف بھیسوں میں داخل ہو چکے ہیں۔

9/11 کے بعد پاکستان میں حالات رفتہ رفتہ بگڑنے لگے۔ افغان مہاجرین کے نام سے مختلف لوگوں نے یہاں کا رخ کیا۔ قتل کے واقعات اور چھوٹے موٹے جرائم میں اضا فہ ہوتا گیا۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ رہا ہے۔ امریکہ افغان جنگ کے 15 سال گزرنے کے بعد بھی صوبہ بھر کے مختلف علاقوں میں کثیر تعداد میں افغان باشندے موجود ہیں۔

اس کے بعد قدرت کا ایک بہت بڑا امتحان آگیا۔ اکتوبر2005 میں ملکی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ آیا جس نے شمالی علاقہ جات میں قیامت صغری برپا کر دیا۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہر طرف افسردگی کی فضا پھیل گئی۔ ایسے میں امداد کے نام پر غیر مسلم مسلمانوں کے بچے کچے کمزور ایمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔ امدادی اشیاء کے ساتھ اپنے پمپلٹ اور کتابیں تقسیم کرکے کھلی عام اپنے مذاہب کی تبلیغ کرنے لگے۔

ابھی حالات پوری طرح معمول پر آئے بھی نہ تھے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں TTP کے نام پر ایک تنظیم ابھر کر سامنے آئی اور بڑی تیزی سے علاقے پر اثر انداز ہونے لگی۔یہاں کے عوام اسلام پسند ہیں اس لیے اسلام نظام کے سلوگن کی وجہ سے ان کو پذیرائی ملی اور ان کا حلقہ بڑھ گیا۔ قتل، ڈکیتی اور بم دھماکوں کا آغاز ہو گیا۔ سرکاری اہلکار جان بچانے کے خاطر اخبارات میں اشتہار دے کر نوکریاں چھوڑنے لگے۔ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔ جب ان کی قوت میں اضافہ ہوگیا تو 2008 میں حکومت نے ان کے خلاف اپریشن کا آغاز کیا جو مئی2009 میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا۔ غربت کے مارے، زلزلے سے متتاثرہ افراد کو ایک مرتبہ پھر بے گھر ہونا پڑا۔ 20 لاکھ سے زائد افراد نے تاریخی ہجرت کرکے علاقے کو خالی کرا لیا۔

اپریشن کا ایک سال ہی گزرا تھا کہ ایک مرتبہ پھر قدرت کی آزمائش کی گھڑی آپہنچی۔ شدید بارشوں کے بعد پہاڑوں سے پانی نکلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں اور جانوروں سمیت ان کے املاک اور بڑی بڑی عمارتوں کو بہا کر لے گیا۔ سینکڑوں لوگ پانی کے نذر ہوگئے۔ ایک مرتبہ پھر کئی گاؤں اور قصبے کالمعدوم ہوگئے۔ زلزلے اور اپریشن کے بعد جو آسرا تھا وہ بھی لٹ گیا۔ بحالی کے نام پر حکمرانوں نے عوام کو بے و قوف بنایا۔ آج تک سڑکوں کی بحالی اور مرمت کا کام مکمل نہ ہوسکا۔

صرف اسی پر بس نہیں ہوئی۔ آپریشن کے بعد بھی وقتا فوقتا دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ البتہ پہلے صرف دھماکوں میں جان سے جانے کا خطرہ تھا۔ اب دھماکوں سے بچنے کے بعد سیکیورٹی اداروں کی اذیت کا بھی خطرہ ہونے لگا۔ ملک بھر میں جہاں بھی دھماکہ ہوتا خیبر پختونخواہ میں سرچ اپریشن کیا جاتا۔ پکڑ دکڑ کرکے گھنٹوں پوچھ گچھ کی جاتی۔ صوبے سے باہر جاتے تو یہاں کی شناخت اذیت بن جاتی ۔ یہاں کا شناختی کارڈ گویاکہ خودکش جیکٹ ہو۔ الغرض زندگی اجیرن بن گئی تھی۔

جیسے ہی حالات کس ساز گار ہوگئے۔ دھماکوں کا سلسلہ تھما۔ ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آگئی۔ ملک بھر کی دہشت گردی کے واقعات کا گند براہ راست یہاں پر ڈالنے سے جان چوٹ گئی تو ایک مرتبہ پھر قدرت الہٰی حرکت میں آگئی۔ 2015 میں ایک مرتبہ پھر اتنا شدید زلزلہ آیا کہ لوگ 2005 کا زلزلہ بھول گئے۔ لاکھوں لوگ ایک مرتبہ پھر زلزلے کے زد میں آگئے۔ ہزاروں اپنے جان گنواں بیٹھے جب کہ کئی علاقوں کا سطح زمین سے صفایا ہو گیا۔ شدید سردی اور برفباری نے رہی سہی کسر بھی پوری کی۔ حکومتی لابی کو شائد اس لیے یہاں کے باسیوں کا خیال نہ آیا کہ ابھی الیکشن بہت دور ہے۔ قدرت کی للکار کے بعد ایک مرتبہ پھر یہاں کے غیور پختون بے یار و مددگار رہ گئے۔

زلزلے کے زخم ابھی بھرے نہیں ہے۔ ابھی چند ہی مہینے ہوگئے۔ لوگ ابھی تک اچھے دن کی امید رکھے ہوئے تھے۔ ابھی برف اٹھی ہی تھی کہ اپنی مدد آپ کے تحت یہاں کے مکینوں نے بحالی کا آغاز کر دیا۔ ابھی سردیاں ختم ہوئی ہی تھی کہ اچانک بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مرتبہ پھر ہر پتھر سے ندی نکلنے لگی۔ ہر پہاڑ سے دریا نمودار ہوتا گیا۔ جو کچھ اس کے راستے میں آتا ، بہا کے لے جاتا۔ ایک بار پھر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ایک مرتبہ پھر املاک کو زبردست نقصان پہنچا۔ بچے کچے علاقوں میں سے چھانٹی کرکے ایک دفعہ اور کئی بستیاں سیلابی ریلوں میں بہہ گئی۔ آج بھی یہاں کا پختون بے یار و مددگار ہے۔ آج بھی خود غرض سیاست دان یہاں پر بحالی کے بجائے ٹیکس لگاتا پھر رہا ہے۔ آج بھی یہاں کے لوگوں کو نذرانداز کہا جارہا ہے۔

ایسے میں خود غرض اور بے حس حکمرانوں کے بجائے رجوع الی اﷲ کرنا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ جو بھی حالات لاتا ہے ان پر ہمیں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے جن خطاؤں کی وجہ سے ہم ان حالات کے شکار ہیں اﷲ ان خطاؤں کو معاف فرمائے۔ ہمیں اﷲ تعالیٰ ہر حالت میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رکھے اور نیک اعمال کی توفیق دیں۔ ہمیں بھی اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اسلام سے دوری، سود خوری کی عموم ، دھوکہ اور بے پردگی جیسے وبا سے اپنے آپ کو نہ بچانا قہر الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76253 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.