آج جہاں پاناما لیکس نے دنیا کے حکمرانوں، سیاستدانوں
فلمی ستاروں سمیت زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی
خفیہ دولت اور آف شور کمپنیوں سمیت غیر ملکی اکاونٹس کے بارے میں تہلکہ خیز
رپورٹ شائع کرکے ساری دنیا میں ہلچل مچارکھی ہے تو وہیں پاکستان میں بھی
اِس کی بازگشت زوراور شور سے جاری ہے گزشتہ دِنوں اِس حوالے سے وزیراعظم
نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی میں پہلی
بار ذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لئے حاضر خدمت ہوئے ہیں اُنہوں نے اپنے خطاب
میں کہاکہ مجھے اِن گزارشات کی ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کہ کچھ لوگ سیاسی
مقاصد کے لئے دیدہ و دانستہ طور پر مجھے اور میری فیملی کو نشانہ بنانے کے
لئے اُوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں تاہم اِس موقع پر اِن کا فخریہ انداز
سے یہ کہناتھاکہ ہم نے تو وہ قرض بھی اُتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہیں
تھے جبکہ اِس کے باوجود بھی وزیراعظم نوازشریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر
تحقیقاتی ایک اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا جو سُپریم کورٹ
کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تشکیل دیاجائے گا‘‘اگرچہ وزیراعظم کے خطاب کو
مُلک کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی کئی جماعتوں کے اراکین شدیدتنقید کا
نشانہ بنارہے ہیں جن کایہ کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر جس کمیشن کی
بات وزیراعظم کررہے ہیں اِس میں بہت سی قانونی کمزوریاں ہیں ، اگر وزیراعظم
کو حقیقی معنوں میں اِس معاملے کے بہتر حل کے لئے اعلیٰ سطح کاکوئی کمیشن
بناناہی تھاتو وہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں بناتے تو
اچھاتھا یہ کیا کہ کمیشن بھی بنایاتو ریٹائرڈ جج کی زیرنگرانی بنانے کا صرف
ارادہ ہی ظاہر کیا ہے اور یہ بھی نہیں بتایاگیا ہے کہ یہ کمیشن کب اور مزید
کن اشخاص پر مبنی ہوگا؟ اور کب سے کام شروع کرے گا؟ بہر حال ، اپوزیشن کا
کہنایہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی فیملی کے اراکین کا آف شور
کمپنیوں کا معاملہ کچھ تو ہے جس کے لئے کچھ ہورہاہے اور اگر کچھ نہ ہوتاتو
پھروزیراعظم نوازشریف کی جانب سے کچھ بھی نہیں کیاجاتا، دیکھیں کمیشن کب تک
بنتاہے؟ اور یہ کن زاویوں پر اپنا ورک شروع کرتاہے ؟ اَب یہ تو آنے والے دن
ہی بتائیں گے کہ پاکستان میں پاناما لیکس کے حوالے سے کیا اور کتنی مثبت
پیش رفت ہوتی ہے ؟ اور وزیراعظم نوازشریف کا اپوزیشن کی تنقیدوں اور تحفظات
سے بھرااعلیٰ سطح کا تحقیقاتی عدالتی کمیشن کس حد تک غیر جانبدار رہ کر نہ
صرف پاکستانیوں بلکہ دنیا کے سامنے بھی کیا اور کیسے حقائق آشکار کرتاہے۔
ویسے آج سوچ نے کی بات یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے عوامی اجتماعات ،پبلک
مقاما ت او رہر چینل کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر اہم عالمی شخصیات سمیت پاکستان
کے ٹیکس چور خفیہ دولت بنانے والے بدعنوان حکمران، سیاستدان اور دیگر شعبہ
ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کس طرح خود کو بڑانیک نام اور اپنے
ملک اور عوام کے سب سے بڑے خیرخواہ ثابت کرتے رہے ہیں اور اپنی اقوام کی
آنکھوں میں دھول اورمرچ جھونک کر اپنی خفیہ دولت دوسرے ممالک میں جمع کرکے
مزے لوٹتے رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ پانامالیکس کے رپورٹ کے بعد دنیاکے لوگوں
کو بھی یہ لگ پتہ گیاہے کہ ’’ اِس دنیامیں سب چور چورہیں ، کوئی گوراچور
کوئی کالا چورکوئی لاڈ صاحب کا سالہ چورہے،کوئی چوری کرے خزانے کی کوئی آنے
دول آنے کی،کوئی چھوٹاچور کوئی بڑاچورکوئی بیٹھاچور کوئی کھڑاچورہے،کوئی
پیساچور،کوئی مرغی چورکوئی دل کا چور‘ہے‘ آج جب دنیاکے حکمران اور اعلیٰ
شخصیات ہی چوری اور کرپشن میں ملوث پائی جائیں اور سب کے ہی ہاتھ چوری اور
کرپشن کی وجہ سے گندگی میں لت پت ہوگئے ہوں تو پھر کیسے؟؟ یہ اُمید کی
جاسکتی ہے کہ دنیاسے حکمران چوری اور کرپشن کے خاتمے کے لئے اپنااپنامثبت
کرداراداکریں گے اور دنیا کو بُرائی سے پاک کریں گے؟؟۔
اِ س میں شک نہیں کہ پانامہ لیکس نے اِن سب بدعنوانوں کی نام نہاد نیک نامی
پر سے پردہ اُٹھاکر اِن کے ٹیکس چور اور خفیہ دولت بنانے والے سیاہ چہرے
دنیا کے سامنے بے نقاب کردیئے ہیں ، جس سے پاکستان سمیت دنیا کے حکمرانوں،
سیاستدانوں اور اعلیٰ شخصیات کے کرپشن کے ثبوت مل گئے ہیں اور پاکستان سمیت
ساری دنیامیں اِس حقیقت کے آشکارہوتے ہی ہلچل مچ گئی ہے، خبر ہے کہ پاناما
لیکس کے انکشافات کے بعد آسٹریلیا ، نیو زی لینڈ میں تحقیقات شروع کردی
گئیں ہیں اور فرانس میں تفتیش پر غورہورہاہے ، جبکہ آئس لینڈ کے وزیراعظم
برہم ہوگئے جس پر وہاں کے عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آگئے ہیں اور وہاں
احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیاہے جبکہ اِس حوالے سے پاکستان میں ابھی تک
بڑاسکون ہے ، تاہم یہاں سرکاری اورحکومتی پِٹھومیڈیا پر تو خاموشی طاری ہے
جبکہ اِن کے علاوہ چندایک نجی چینلز اور اپوزیشن کی جانب جھکاؤ رکھنے والے
دوچار پرنٹ میڈیاکچھ کہنے اور لکھنے کی جراٗ ت اورجسارت تو ضرور کررہے ہیں
؟؟ مگر یہ بھی کب تک ایسا کریں گے؟؟اِنہیں جب کہیں سے زبان بند اور قلم کی
نوک توڑنے اورگردن سے پکڑکر حلق کو دبانے کے لئے ایک فون کال آجائے گی ؟؟
یا اِن کے لئے کہیں سے کڑک کڑک قومی کرنسی سے بھراہوا بڑاسا بریف کیس آجائے
گاتوپھر یہ بیچارے بھی سچ پر تبصرہ اورتجزیہ کرنایکدم سے چھوڑ دیں گے اور
پھر یہ بھی دوسروں کی طرح جھوم جھو م کر حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اِن
کی فیملی کے کارناموں کی شان میں لمبے لمنے قصیدے پڑھنے شروع کردیں گے بس
پھر سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا مگر معاف کیجئے گا، میں اِس حوالے سے
اپنا یہ کام کرتاہورں گا کہ جب تک دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہیں ہوجاتاہے
اورچاہئے کچھ بھی ہوجائے میں بھی مشرف کی طرح کسی سے ڈرتاورتانہیں
ہوں۔بہرحال، اَب دیکھایہ ہے کہ بالخصوص پاکستان جہاں مُلکی ایوانوں سے لے
کر دور کسی ویرانے یادھول اُڑاتے تپتے ریگستان میں بنی چھوٹی سی جھونپڑی تک
میں کرپشن کا بازار گرم ہے غرض کے کہنے والے تویہ بھی کہتے ہیں کہ جیسے
پاکستان میں حکمرانوں سے لے کر ایک گڑھاکھودنے اور جوتی سینے اور قبرمیں
اُتارنے والے گورکن تک میں کرپشن عام ہے اور اِس طرح سب کے معا ملات ِ
زندگی چل رہے ہیں کیوں کہ زبان کی نوک سے تو کرپشن کو بُراکہتے ہیں مگر دل
سے کوئی بھی کرپشن کو حقیقی معنوں میں بُرانہیں سمجھتاہے ۔آج پاکستان میں
سب یہ سمجھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں؟؟جوکررہے ہیں؟؟ یا خود کو بچاکر کسی
سے کچھ کروارہے ہیں؟؟ اِس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے بس جیساہے
اور جہاں ہے کی بنیاد پر سب کچھ کئے جاؤ اور اپنی جھولی اوراپنا دامن
ناجائز دولت سے بھرتے جاؤ اوراپنے مُلک کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے
بھرے قومی خزانے کو لوٹ لوٹ کر اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے
بیرون ممالک میں جائیدادیں بناتے جاؤ،مُلک میں میگاپروجکٹس اور توانائی کے
بحران سے نکالنے کے لئے شروع ہونے والے منصوبوں اورجنگلہ بس سروس ، میٹروبس
اور اورنچ ٹرین سمیت دیگر جاری منصوبوں پر کھربوں کمیشن لے کراور قومی
اداروں کی نج کاری کی آڑمیں اپنا حصہ وصول کرو اورقومی اداروں میں اپنے من
پسند افسران کی تعیناتی کرکے اِن اداروں میں چھوٹے موٹے کاموں سے متعلق جاب
ورکس کو اِن کے اور اپنے جیب ورکس بناؤ انہیں بھی کھانے دواور خود بھی کھاؤ
اور کسی کی پکڑ میں آنے سے پہلے نکل بھاگو‘‘کی پالیسی پر سب ہی تو عمل
پیراہیں ۔
ایسے میں اَب کیاہمارے یہاں کرپٹ عناصر کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل
میں لائی جائے گی؟؟ اور پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعدایسے عناصر کو لگام
دینے والے ہمارے نیپ اور اِس جیسے دیگر اداروں کی جانب سے اپنے موجودہ
حکمرانوں ، سیاستدانوں اعلیٰ شخصیات کے وہ قریبی عزیز و ارقاب جن کے نام
پانامہ لنکس کی رپورٹ میں شامل ہیں، اِن لوگوں کے خلاف حقیقی معنوں میں کچھ
ہوگا؟؟ آج ساری پاکستانی قوم اپنے قومی احتسابی ادارے نیت کی جانب دیکھ رہی
ہے اور یہ خیال کررہی ہے کہ ہمارانیب کا ادارہ اپنے موجودہ حکمران اور
سیاستدان اور اِن کی فیملی کے خلاف کیا اور کیسی کارروائیاں اور احتسابی
عمل سامنے لاتاہے؟؟اَب کیا ہمارے احتسابی ادارے اپنے موجودہ حکمران بالخصوص
وزیراعظم نوازشریف سے یہ دریافت کریں گے ؟؟ کہ اُنہوں نے اور اِن کے بچوں
حُسین ۔حسن اور مریم نوازنے 4خفیہ کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر مالیت کی
دولت کیسے بنائی ؟؟ کیا ہمارے تحقیقاتی ادارے شریف فیملی کے خلاف بھی اِسی
طرح سے تحقیقات کریں گے؟؟؟ آج جس طرح منی لانڈرنگ مُلکی کرنسی اِدھر سے
اُدھرلے جانے کے حوالے سے کراچی کے شہری علاقے سے تعلق رکھنے والی بڑی
سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حُسین اور پی پی پی
سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایک لمبے عرصے سے
تحقیقات کی جارہی ہیں؟؟ آج بھی اِس سے انکار نہیں کہ دنیا کی اہم شخصیات
اور اداروں کے خفیہ مشن کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے جو خاص مقام اور شہرت
وکی لیکس کوحاصل ہے،یہ اپنی جگہہ ایک مصمم حقیقت ہے، آج تک دنیا کا کوئی
بھی کتنا ہی طاقتور ملک اور کتنی ہی پاور فل بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ وکی
لیکس کے انکشافات کو جھوٹ ثابت نہیں کرسکی ہے اِسی طرح مجھے یقین ہے کہ آج
جس طرح پانامہ لیکس نے دنیا کی جن اعلیٰ شخصیات کی خفیہ دولت کے بارے میں
انکشافات کئے ہیں اُمید ہے کہ اُسے بھی سب سچ جانیں گے اور مانیں گے۔
بے شک وکی لیکس کی طرز پرکام کرنے والی دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم موساک
فونسیکا نے مختلف ممالک کے موجودہ حکمران، سیاستدان اور دیگر شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والی بڑی چھوٹی مشہور و معروف شخصیات بشمول فلمی
ستاروں کی جانب سے اپنے ممالک میں ٹیکس چھپاکریا ٹیکس چھپانے کے لئے خفیہ
طریقوں سے اپنے ممالک سے دور جتنی بھی خفیہ دولت بنائی ہے اُسے لاء فرم
موساک فونسیکا نے پانامہ لنکس کے نام سے ایک کروڑ5لاکھ خفیہ دستاویزات جاری
کی ہیں یہ بھی سچ اور حقائق مبنی ہے، اَب جِسے جھٹلانایا رد کرنااُن شخصیات
کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوگااور اگر اُنہوں نے اِسے جھٹلایاتو
پھر یہ رپورٹ اِن لوگوں کے گلے بھی پڑ سکتی ہے،اَب عوام کو سوچناہوگاکہ وہ
اپنے ممالک کی کرپٹ شخصیات سے کب اور کس طرح سے احتساب کرتے ہیں۔
جس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیاہے کہ اِس میں جو اور جتناکہااور بتایاگیاہے
جتنے بھی انکشافات کئے گئے ہیں وہ سب کے سب خالصتاََ نیک نیتی کی بنیاد پر
صاف و شفاف تحقیقات کے بیان کئے گئے ہیں اگرچہ پانامہ لیکس کی جانب سے اہم
شخصیات سے متعلق جتنے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں اِس میں خاص طور پر دنیا
کے 143رہنماوں میں جو 12اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اِن کے خاندان افراد اور
قریبی عزیزواقارب بھی شامل ہیں اِن کا بڑے خوبصورت انداز سے بڑی تفصیل کے
ساتھ اِن کی ایک ایک پائی کا لہک لہک کر تذکرہ کیا گیاہے کہ اِن لوگوں نے
کب کب اور کس کس طرح سے کیسے خفیہ دولت بنائی ہے اور اَب جو اپنے ممالک میں
ٹیکس چوری کرکے یا ٹیکس چھپاکر دوسرے ممالک میں اپنی اوقات سے بڑھ کر
جائیدادیں بنانے اور اپنا کاروباروچلانے میں مہارت اختیارکرگئے ہیں،اِس
حوالے سے پا نامہ لیکس کی حقائق پر مبنی دستاویزا ت کے سامنے آجانے کے بعد
سے ہی دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔
آ ج دنیا کے جن ممالک کی جن تہذیب اور معاشرے میں اقوام اور لوگ اور
افراداپنے ملک سے ٹیکس چھپاکریا ٹیکس چھپانے کے لئے خفیہ دولت بنانے کے
طریقے کو ناجائز اور بڑاگناہ سمجھتے ہیں اِن دِنوں دنیا کے اُن ہی ممالک کے
عوام اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اعلیٰ شخصیات کی اِس گھناونی حرکت کے
خلاف مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں جس اِن کے باشعور ہونے کی علامت ہے آ
ج جس کی ایک تا زہ مثال آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمنڈرڈیوڈگن لوگ سن کی ہے جن
کانام پانامہ لنکس میں آتے ہی وہاں کے عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آگئے جنہوں
حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا گھیراؤبھی کیا،یعنی کہ دنیا کی
جن اقوام کے نزدیک ٹیکس کو چھپابڑاجرم ہو، اور کوئی اِسے چھپاکر خفیہ طریقے
سے خواہ کتناہی دولتمند بن جائے وہ قومی مجرم ہے اِس جرم میں خواہ کوئی بھی
اور کتناہی بڑاآدمی کیوں نہ شامل ہو وہ قومی مجرم ہی جانااور ماناجائے گا
جب تک وہ گٹہرے میں آکراپنی بے نگاہی ثابت نہ کردے ، ہمارے یہاں بھی ضرور ت
اِس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنی تمام تر سیاسی ، ذاتی ، مذہبی کاروباری اور
دیگر بہت سے حوالوں سے وابستگیوں کے خول سے باہر نکلیں اور حکمرانوں اور
اِن کی فیملیوں سمیت جو بھی کسی کرپشن میں ملوث پایاجائے اِس کے خلاف
قانونی چارہ جوئی ضرور عمل میں لائی جائے تاکہ اِنصاف کا بول بالاہواور
مُلک میں قانون کی بالادستی قائم ہو۔ |